ٹرمپ قطر کو خوش کرنے کے لیے اسرائیل سمیت اپنے حامیوں کی ناراضی کا خطرہ کیوں مول لے رہے ہیں؟

امریکی صدر کے ايگزیکٹو آرڈر یا حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، قطر پر ہونے والے کسی بھی مسلح حملے کو قطر پر نہیں بلکہ امریکہ پر حملہ تصور کرے گا۔
ٹرمپ کے خاندان کے قطر سے کاروباری رشتے بتائے جاتے ہیں
Getty Images
ٹرمپ کے خاندان کے قطر سے کاروباری رشتے بتائے جاتے ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں خلیجی ملک قطر کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ان وعدوں میں قطر پر ہونے والے حملے کے جواب میں امریکی فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔

اس ايگزیکٹو آرڈر یا حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، قطر پر ہونے والے کسی بھی مسلح حملے کو قطر پر نہیں بلکہ امریکہ پر حملہ تصور کرے گا اور امریکی اور قطری مفادات کے تحفظ اور امن و استحکام کی بحالی کے لیے ’قانونی اور دیگر ضروری اقدامات بشمول سفارتی، اقتصادی اور اگر ضروری ہوا تو فوجی کارروائی کرے گا۔‘

یہ حکم نامہ امریکہ اور اس کے ایک اہم عرب اتحادی کے درمیان ایک غیر معمولی سکیورٹی معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے، جو تقریباً نیٹو اتحاد سے ملتا جلتا ہے۔ اس سے خطے کے دیگر پڑوسی ممالک میں رشک اور حسد کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔

یہ سب کچھ اس وقت اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چند سال پہلے تک قطر، جو اپنے پڑوسیوں کی طرف سے اقتصادی اور سفارتی بائیکاٹ کا مرکز تھا، اب مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔

اس نے حال ہی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنا نیا کردار مضبوطی سے نبھایا ہے اور اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔

حماس کا سیاسی دفتر دوحہ میں ہے اور اس وقت ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے، جس کا اعلان سوموار کو وائٹ ہاؤس میں کیا گیا۔ دوحہ میں العدید بھی ہے جو کہ اس خطے میں سب سے بڑا امریکی ایئربیس ہے۔

خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ دنوں میں ہونے والا یہ اپنی طرز کا واحد دفاعی معاہدہ نہیں۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ پاکستان اور سعودی عرب نے بھی ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

معاہدے کے بعد پاکستانی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا اور ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘

دفاع کے لیے امریکی معاونت پر انحصار کی تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی عرب اور قطرمیں کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔

قطر مشرق وسطی میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے جبکہ سعودی عرب میں بھی امریکہ نے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جن میں 'پرنس سلطان ایئر بیس' کا مستقل اڈہ شامل ہے جہاں امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ قطر اور سعودی عرب دونوں ہی بڑی تعداد میں امریکہ سے دفاعی سازوسامان اور ہتھیار بھی خریدتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدہ کیا ہے جبکہ دوسری طرف اب قطر کو امریکی ضمانت حاصل ہے۔

24 اکتوبر 2024 کو لی گئی اس تصویر میں قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کو دیکھا جا سکتا ہے
Getty Images
24 اکتوبر 2024 کو لی گئی اس تصویر میں قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کو دیکھا جا سکتا ہے

قطر کو امریکی سکیورٹی فراہم کرنے کی وجہ کیا ہے؟

قطر کو امریکی سکیورٹی فراہم کرنے کا ٹرمپ کا یہ قدم قطر پر گذشتہ ماہ اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد الثانی شاہی خاندان (قطر کے حکمران خاندان) کی طرف سے ناراضگی کے اظہار کے بعد سامنے آیا ہے۔ خیال رہے کہ اس اسرائیلی حملے میں حماس کے متعدد ارکان سمیت ایک قطری سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوا تھا۔

رواں سال کے شروع میں ایران نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے جواب میں قطر پر حملہ کیا تھا۔

قطر اب خلیجی عرب ممالک کی بڑھتی ہوئی تشویش کا مرکز بن گیا ہے۔ ان ممالک کو لگتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد اور اس کے فوجی اڈوں کی میزبانی کے باوجود انھیں وہ سکیورٹی نہیں مل رہی جس کی انھیں توقع تھی۔

قطر کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’دونوں ممالک کے درمیان قریبی دفاعی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم‘ قرار دیا۔

تاہم اس فیصلے کے وقت اور مقصد پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور اسے واشنگٹن میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ حکم ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب حماس کے رہنما ٹرمپ کی غزہ تجویز پر غور کر رہے ہیں اور یہ پہلے سے ہی کمزور علاقائی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر ڈین شاپیرو کا کہنا ہے کہ دوحہ سے کوئی ٹھوس یقین دہانی حاصل کرنے سے پہلے ٹرمپ نے قطر کو غیرمعمولی انعام دے دیا ہے۔

انھوں نے کہا: ’قطر کے لیے ٹرمپ کی سکیورٹی کا عہد اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کہ قطر حماس کو ’ہاں‘ کہنے یا ’نہیں‘ کہنے پر انھیں اپنے یہاں سے بے دخل کر دے۔‘

اسرائیلی اخبار ہارتز نے لکھا: ’ٹرمپ نے قطر میں مقیم حماس کے رہنماؤں کو سکیورٹی فراہم کی، جبکہ نیتن یاہو نے خبردار کیا تھا کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔‘

امریکی صدر کے قطر کے دورے پر دوحہ میں قطر اور امریکہ کے پرچم جگہ جگہ سجے نظر آئے
Getty Images
امریکی صدر کے قطر کے دورے پر دوحہ میں قطر اور امریکہ کے پرچم جگہ جگہ سجے نظر آئے

تنقید، مفادات کا تصادم، اور امریکہ میں سوالات

خلیجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی گارنٹی اسرائیلی حملوں میں اضافے اور امریکی سلامتی پر اعتماد میں کمی کی وجہ سے متزلزل خطے کو مستحکم کرنے کے لیے اہم ہے۔

یوریشیا گروپ کے فراس مقصود نے کہا کہ اس اقدام سے قطر اور دیگر خلیجی ممالک کو ’کسی حد تک‘ یقین دلایا جا سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا: ’مجھے امید ہے کہ سعودی عرب بھی اسی طرح کی یقین دہانی چاہے گا۔ میرے خیال میں یہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ انھیں اپنی طرف رکھیں۔‘

قطر کو دی گئی حفاظتی ضمانتوں کا دائرہ وسیع ہے جس میں حملے کی صورت میں امریکی فوجی مدد بھی شامل ہے۔ یہ نیٹو کے آرٹیکل 5 سے ملتا جلتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

لیکن یہ حکم کانگریس کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست وائٹ ہاؤس سے جاری کیا گیا۔ جنگی طاقتوں کے ایکٹ کے تحت، صدر کو فوجیوں کی تعیناتی سے پہلے کانگریس کی اجازت لینا ہوگی۔

اس لیے یہ حکم قانونی طور پر محدود ہے اور مستقبل میں کسی اور صدر کے ذریعے اسے تبدیل یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس میں ڈیموکریٹک قانون ساز تحقیقات کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے اپنے حمایتی گروپ ماگا (ایم اے جی اے) میں سے بھی کچھ اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ کی پالیسی سے متصادم ہے۔

ٹرمپ کی حامی اور دائیں بازو کی سرگرم کارکن لورا لومر نے کہا کہ قطر امریکہ کا اتحادی نہیں بلکہ امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔

ٹرمپ کے حامی ریڈیو کے میزبان مارک لیون نے سوال کیا کہ اگر اسرائیل قطر میں حماس کے رہنماؤں کو مارتا ہے تو ’کیا ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے جا رہے ہیں؟‘

ٹرمپ خاندان کے قطر کے ساتھ ذاتی اور کاروباری تعلقات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں
Getty Images
ٹرمپ خاندان کے قطر کے ساتھ ذاتی اور کاروباری تعلقات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں

ٹرمپ خاندان کے قطر کے ساتھ کاروباری تعلقات اور تنازعات

ٹرمپ خاندان کے قطر کے ساتھ ذاتی اور کاروباری تعلقات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خارجہ پالیسی میں مفادات کے ٹکراؤ کی نمائندگی کرتا ہے۔

ٹرمپ آرگنائزیشن، جسے ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر چلاتے ہیں، نے اپریل میں قطر میں ایک لگژری گولف ریزورٹ کی تعمیر کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس میں ’ٹرمپ برانڈڈ بیچ ولاز‘ اور ایک گولف کورس شامل ہے، جسے قطری حکومت کی کمپنی تیار کر رہی ہے۔

قطر نے امریکہ کو ایک 747 جیٹ لائنر بھی عطیہ کیا ہے، جسے ٹرمپ ’ایئر فورس ون‘ کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ ان کی مدت ملازمت کے بعد ریٹائر ہو جائے گا اور اسے ان کی مجوزہ صدارتی لائبریری میں دکھایا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس اور قطری حکومت نے مفادات کے ٹکراؤ کی تردید کی ہے۔

تاہم ’اکاؤنٹیبل یو ایس‘ کے ٹونی کیرک نے الزام لگایا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکی ٹیکس دہندگان قطر میں اپنے لگژری گولف کورس میں فوجی سکیورٹی کے لیے ادائیگی کریں، جب کہ وہ اپنے قطری کاروباری شراکت داروں کو خوش کر رہے ہیں۔‘

ٹرمپ نے مئی میں اپنے علاقائی دورے کے دوران دوحہ کا دورہ بھی کیا، جہاں انھوں نے خطے کے امیر ترین اور طاقتور رہنماؤں سے کاروباری ملاقاتیں کیں۔

وائٹ ہاؤس نے مفادات کے ٹکراؤ کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

ڈپٹی پریس سکریٹری اینا کیلی نے بی بی سی کو بتایا: ’صدر ٹرمپ کے اثاثے ان کے بچوں کے زیر انتظام ٹرسٹ میں رکھے گئے ہیں۔ مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US