نیتن یاہو کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے والے ٹرمپ معاہدے پر عملدرآمد کروا پائیں گے؟

image
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو خود کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہیں اور نوبل انعام کے لیے مہم چلا چکے ہیں، بالآخر پیر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر دستخط کروانے کے بعد سفارتی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

لیکن اگر پائیدار امن قائم ہونا ہے تو تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر دباؤ برقرار رکھنا ہوگا جن کی حمایت انہیں اپنے منصوبے کے اگلے مراحل میں درکار ہوگی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بل کلنٹن سے لے کر جو بائیڈن تک امریکی صدور کو نیتن یاہو کے ساتھ کام کرنا مشکل لگا ہے، اور یہاں تک کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکار بھی بعض اسرائیلی فوجی حملوں سے مایوس ہوئے ہیں جنہیں وہ امریکی پالیسی کو نقصان پہنچانے والے حملے سمجھتے ہیں۔

لیکن رواں ماہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ایک وسیع تر امن معاہدے کے فریم ورک کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا، جبکہ دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کو قائل کیا کہ وہ حماس کو تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس کرنے پر آمادہ کریں۔

تاہم یہاں سے کام مزید مشکل ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اور حماس ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے کئی پہلوؤں پر شدید اختلاف رکھتے ہیں، اور چونکہ اسرائیل آئندہ سال کے انتخابات کی تیاری کر رہا ہے تو نیتن یاہو کا رویہ بدل سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنی دائیں بازو کی اتحادی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔

مٹویِم نامی اسرائیلی خارجہ پالیسی تھنک ٹینک کے صدر نمروڈ گورین نے کہا کہ ’ہم ایک سیاسی سال میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہر چیز انتخابی مہم سے جڑی ہوئی ہے، اور نیتن یاہو کے فیصلے دباؤ کے آگے جھکنے سے لے کر اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کی کوشش میں بدل سکتے ہیں۔‘

سفارتکاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے امن منصوبے کی طاقت ہی اس کی کمزوری بھی ہے۔

اس معاہدے کی مرکزی دستاویز میں بہت سی چیزیں واضح نہیں کی گئیں، اور دونوں فریقوں نے درحقیقت ہر شرط کی تفصیلات پر اتفاق نہیں کیا۔ یہ ابہام دونوں فریقوں کو دستخط کرنے پر آمادہ کرنے میں کلیدی تھا، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سب سے مشکل سفارتی کام ابھی باقی ہے۔

نیتن یاہو پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے معاملے میں ٹرمپ کا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ٹرمپ کے امن منصوبے کے ممکنہ تنازعات میں سے ایک شرط یہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور غزہ کے مستقبل کے انتظام میں کوئی کردار ادا نہ کرے۔ اگرچہ حماس نے عمومی طور پر ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کیا، لیکن گروپ کے سرکاری جواب میں ان مخصوص شرائط کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

واشنگٹن کے سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطیٰ کے ماہر اور سابق محکمہ خارجہ کے اہلکار جون آلٹرمین نے کہا کہ ’یہ کسی بھی وقت غلط سمت میں جا سکتا ہے، ایسا بین الاقوامی معاہدہ یاد کرنا مشکل ہے جس میں اتنی زیادہ چیزیں بعد میں طے کی جانی ہوں۔‘

سخت گیر ٹرمپ

نیتن یاہو پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے معاملے میں ٹرمپ کا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے۔ جولائی میں اسرائیل نے دمشق میں شامی وزارتِ دفاع پر بمباری کی، حالانکہ امریکہ نئی شامی حکومت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

امریکی صدر نے غزہ میں نیتن یاہو کو کئی ماہ تک سیاسی تحفظ فراہم کیا، حالانکہ یورپی اور عرب اتحادیوں میں انسانی بحران پر تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔

انتخابات نیتن یاہو کے سیاسی فیصلوں کو ایسے انداز میں بدل سکتے ہیں جن کی پیش گوئی مشکل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن حالیہ ہفتوں میں ایک سخت گیر ٹرمپ سامنے آیا ہے۔ ستمبر میں قطر میں حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کی ناکام بمباری کے بعد ٹرمپ نے نیتن یاہو کو قطر کے رہنما سے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ بالآخر انہوں نے نیتن یاہو کو اپنے 20 نکاتی منصوبے پر دستخط کرنے پر مجبور کر دیا، حالانکہ اسرائیلی رہنما کو اس پر تحفظات تھے۔

آئندہ سال کے انتخابات نیتن یاہو کے سیاسی فیصلوں کو ایسے انداز میں بدل سکتے ہیں جن کی پیش گوئی مشکل ہے۔

تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ اگر حماس ہتھیار ڈالنے میں تاخیر کرتی ہے تو اتحاد کے دائیں بازو کے عناصر نیتن یاہو پر غزہ میں فوجی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، جو ٹرمپ کے معاہدے کو ناکام بنا سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US