پاکستان نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے سلسلے میں جنوبی افریقہ سے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں شاندار کامیابی حاصل کر لی ہے۔یہ کامیابی اس اعتبار سے اہم اور بڑی ہے کہ جنوبی افریقہ نے پچھلی ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتی تھی اور پاکستان کی پوزیشن خاصی نیچے اور بڑی مایوس کن رہی، جبکہ جنوبی افریقہ سے پچھلی ٹیسٹ سیریزجنوبی افریقہ کے گراونڈز میں کھیلی گئی اور پاکستان وائٹ واش شکست سے دوچار ہوا تھا۔اس پس منظر میں لاہور میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ میچ آرام سے جیت لینا غیر معمولی کامیابی ہے۔لاہور ٹیسٹ کے لیے پاکستانی کرکٹ مینجمنٹ نے وہی سادہ اصول اور طریقہ استعمال کیا، جو پچھلے ڈیڑھ دو برسوں سے عاقب جاوید کی آمد کے بعد سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہوم سیریزمیں سپن پچوں پر کھیلنا اور اپنے تجربہ کار سپنرز نعمان علی اور ساجد خان کو کھلا کر ان سے استفادہ کرنا۔
پاکستان نے پچھلے سال انگلینڈ کو اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی، ویسٹ انڈیز سے البتہ ٹیسٹ سیریز برابر ہو گئی۔ آج جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں وہی فارمولا کامیاب رہا۔
ایسی پچز پر ٹاس بھی اہم ہوتا ہے کیونکہ چوتھی اننگ میں پچ میں کریک پڑ جاتے ہیں اور بیٹنگ مشکل ہو جاتی ہے۔ پاکستان نے خوش قسمتی سے اس ٹیسٹ میں ٹاس جیتا اور پہلے دن اچھی بیٹنگ کی، دوسرے دن اگرچہ آخری وکٹیں جلدی گر گئیں مگر اس پچ کے حساب سے پونے چار سو اچھا ٹوٹل تھا۔اسی وجہ سے پاکستان کو پہلی اننگ میں 190 کی لیڈ ملی اور دوسری اننگ میں ناکام بیٹنگ کے باوجود جنوبی افریقہ کو مناسب ہدف دیا گیا اور پھر جنوبی افریقہ کو ایک سو 83 رنز پر آوٹ کر ترانوے رنز سے میچ جیت لیا گیا۔اس میچ میں سپنرز نمایاں رہے۔ جنوبی افریقہ کے لیفٹ آرم سپنر متھو سامی نے ایک اننگ میں چھ اور دوسری میں پانچ وکٹیں لے کر 11 وکٹوں کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کی جانب سے نعمان علی نمایاں رہے، پہلی اننگ میں انہیں چھ وکٹیں ملیں، دوسری میں چار اہم وکٹیں لیں۔ یوں نعمان نے تیسری بار ٹیسٹ میچز میں دس وکٹیں لے لیں۔
سپنرز سے توقع ہے کہ اگلے میچ میں بھی اپنا جادو جگائیں گے: فوٹو اے ایف پی
دوسری اننگ میں نعمان کی گیندوں پر ایک دو چانسز مس بھی ہوئے،ورنہ شائد وکٹیں گیارہ یا بارہ ہوتیں۔ آف سپنر ساجد خان نے اچھی باولنگ کرائی مگروہ نعمان جیسے خوش قسمت نہیں رہے،تاہم پہلی اننگ میں تین اور دوسری میں دو وکٹیں ملیں۔ ایک اور وکٹ سپنر کو ملی، پارٹ ٹائم سپنر سلمان آغا کو۔
پاکستان نے دو فاسٹ بولرز کھلائے تھے، پہلی اننگ میں تو وہ غیر موثر اور غیر متعلق ہی لگے، بمشکل نو اوورز کرا پائے تاہم ریورس سوئنگ نےکسی حد تک تیسرے دن اور پھر چوتھے دن اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ربادا نے ایک وکٹ ریورس سوئنگ پر لی جبکہ جنوبی افریقہ کی دوسری اور مجموعی طور ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں شاہین شاہ آفریدی نے بہت عمدہ ریورس سوئنگ کرائی، خوبصورت یارکر بھی کرائے اور گیند کومسلسل اندر لا کر اچانک ایک گیند باہر نکالی اور وکٹ لی۔ شاہین شاہ نے چار وکٹیں لیں، انہیں پہلی اننگ میں کوئی وکٹ نہیں ملی تھی۔ مجموعی طور پر سپنرز نے اس میچ میں سولہ وکٹیں لیں ۔ حسن علی وکٹ سے محروم رہے۔پاکستانی بیٹنگ میں بعض اچھی چیزیں نظر آئیں۔ کیپٹن شان مسعود نے پہلی اننگ میں اچھی نصف سنچری بنائی۔ اوپنر امام الحق نے بڑی اننگ کھیلی، اگرچہ نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے اور سنچری نہ کر پائے۔
میچ میں بابر کی پرفارمنس بری نہیں تھی لیکن قسمت نے البتہ ساتھ نہ دیا: فائل فوٹو اے ایف پی
پہلی اننگ میں محمد رضوان اور سلمان آغا نے اچھی پارٹنر شپ بنائی اور پہلی اننگ کے اچھے سکور اور لیڈ لینے کی وجہ وہی بنی۔ رضوان نے پچھتر رنز بنائے جبکہ سلمان آغا ٹیل اینڈرز کی وجہ سے سنچری نہ بنا پائے،ترانوے پر آوٹ ہوئے۔
سلمان آغا کو ٹیسٹ میں ساتویں نمبر پر کھیلنا پڑتا ہے، مسئلہ یہ بنتا ہے کہ پاکستان کے ٹیل اینڈرز بہت ہی ماٹھے ہیں اور زیادہ رنز نہیں کر پاتے۔ اس لئے اکثر سلمان آغا اچھا کھیلنے کے باوجود سنچری نہیں بنا پاتا۔ بہرحال پہلی اننگ میں 93 رنز کی اننگ سلمان آغا کو اعتماد دے گی، باولنگ میں بھی ایک وکٹ لی، جبکہ سلپ میں اچھے ڈائیونگ کیچز بھی لئے۔سلمان آغا کی یہ فارم اور اعتماد ٹیسٹ میچز کے بعد جنوبی افریقہ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کے کام آ سکتا ہے جہاں وہ ٹیم کے کپتان ہوں گے۔پاکستان کی دوسری اننگ میں البتہ پہلی اننگ کے کامیاب بلے باز بری طرح ناکام ہوئے۔ امام الحق صفر پر سٹمپ ہوگئے، شان مسعود بھی جلد آوٹ ہوگئے، رضوان نے چودہ اور سلمان آغا نے بمشکل چار رنز بنائے۔ جب آپ پہلی اننگ میں لمبا سکور کر چکے ہوں، پھر دوسری اننگ میں اس کا کچھ نہ کچھ تو تسلسل نظر آئے کیونکہ فارم اچھی ہوتی ہے، گیند بلے پر آ رہی اور مڈل ہو رہی ہے۔پاکستان کی دوسری اننگ میں ایک بڑی خامی نظر آئی کہ یکا یک وکٹیں اچانک گر گئیں، ایک سو پچاس رنز پر صرف چار آوٹ تھے مگر صرف سترہ رنز کے اضافے سے پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔پہلی اننگ میں بھی لوئر آرڈر کولیپس ہوا۔ دوسری اننگ میں مایوس کن امر یہ بھی تھا کہ سعود شکیل جو اچھا سیٹ ہوچکے تھے۔انہوں نے چائے کے وقفے سے فوری پہلے ایک غیر ضروری اونچا شاٹ کھیلا اور وکٹ گنوا بیٹھے۔ یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ تھا اور ہیڈ کوچ اظہر محمود نے بعد میں میڈیا ٹاک میں اس پر تنقید بھی کی۔ اظہر محمود نے تسلیم کیا کہ ہمارے کھلاڑیوں کی شاٹ سلیکشن بری تھی۔بابر اعظم اس ٹیسٹ میں لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ پہلی اننگز میں وہ اچھا کھیل رہے تھے، مگر اندر آتی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ دوسری اننگز میں بابر زیادہ اچھی فارم میں نظر آئے۔انہوں نے جنوبی افریقی سٹار سپنر متھوسمی کو ایک اوور میں تین چوکے لگائے، وہ 42 کے رنز پر پہنچ گئے تھے اور لگ رہا تھا کہ نصف سنچری تو یقینی ہے، ممکن ہے سنچری بھی بنا کر پچھلے دو تین برسوں کا قرض اتار دیں۔بدقسمتی سے اگلے ہی اوور میں ربادا نے ایک بہت اچھی ریورس سوئنگ گیند کرائی۔ ایسی غیر معمولی گیند جس پر دنیا کا کوئی بھی بلے باز آوٹ ہوسکتا تھا۔ گیند اتنا اچانک اور اتنا عمدہ اندر سوئنگ ہوئی کہ بابر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ یہ بدقسمتی تھی۔ اس میچ میں بابر کی پرفارمنس بری نہیں تھی، قسمت نے البتہ ساتھ نہ دیا۔
پاکستان کے فاسٹ بولرز نے تیسرے اور پھر چوتھے دن اپنی موجودگی کا احساس دلایا: فوٹو اے ایف پی
جنوبی افریقی بلے باز اپنے ملک میں کچھ نہ کچھ سپن پچوں پر پریکٹس کر کے آئے تھے مگر پاکستانی سپن باولنگ کو وہ کاونٹر نہیں کر پائے۔ ان کی مڈل آرڈر ناکام ہوئی۔ پہلی اننگ میں ٹونی زورزی نے اچھی سینچری بنائی مگر دوسری اننگ میں وہ بھی ناکام رہے۔ کپتان مارکرم بھی رنز نہ بنا پائے۔ البتہ اوپنر رکلٹن نے پہلی اننگ میں وکٹ پر ٹھہر کر 71 رنز کی اچھی اننگ کھیلی، دوسری میں بھی وہ 45 رنز بنا پائے اگرچہ وکٹ بیٹنگ کے لئے مشکل ہوچکی تھی۔
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ اگلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان اسی ٹیم کے ساتھ کھیلے گا، دو فاسٹ باولرز، دو سپنرز کے کمبی نیشن کے ساتھ جبکہ سلمان آغا پارٹ ٹائم سپنر ہوں گے، اگرچہ حسن علی اس میچ میں اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلا پائے، ماضی میں پاکستان سپن ٹرننگ پچز پر تین سپنرز اور ایک فاسٹ باولر کے ساتھ بھی میچز کھیل چکا ہے، حسن علی کی جگہ پر ایک سپنر بھی کھلایا جا سکتا ہے، مگر چونکہ ریورس سوئنگ بھی ہو رہی ہے اس لئے دو فاسٹ باولرز کھلانا زیادہ سیف حکمت عملی ہوگی۔اگلے میچ میں پاکستان کے لیے ٹاس اہم ہوگا کیونکہ اگر پاکستان کو چوتھی اننگ کھیلنا پڑتا تو یہ میچ دوسری طرف بھی جا سکتا تھا۔ پاکستانی بلے بازوں نے اس میچ میں خاصی غلطیاں بھی کیں اور شاٹ سلیکشن بری رہی ورنہ پاکستان یہ میچ 200 رنز کے فرق سے بھی جیت سکتا تھا۔اگلے میچ میں جنوبی افریقہ کے تجربہ کار سٹار سپنر کیشو مہاراج بھی کھیلیں گے، وہ ان فٹ ہونے کے باعث پہلا میچ نہیں کھیل پائے۔ کیشو مہاراج کے کھیلنے کی صورت میں ان کی باولنگ مضبوط ہوجائے گی، تب بابر اعظم اور دیگر بلے بازوں کا حقیقی امتحان ہوگا۔امید کرنی چاہیے کہ پاکستان اگلے میچ میں بھی ٹاس جیت جائے گا۔ اگر پہلی اننگ میں اچھی بیٹنگ کی گئی تو یہ بعید نہیں کہ پاکستان جنوبی افریقہ کو وائٹ واش شکست سے بھی دوچار کر دے۔ اس کے لیے مگر بیٹنگ لائن اپ کو زیادہ ذمہ داری اور مہارت سے کھیلنا ہوگا، سپنرز سے توقع ہے کہ اگلے میچ میں بھی اپنا جادو جگائیں گے۔آل دا بیسٹ ٹیم پاکستان۔