امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں سنیچر کو ’نو کنگز‘ کے عنوان سے 2600 سے زائد احتجاجی مظاہرے متوقع ہیں، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن، تعلیم اور سکیورٹی سے متعلق پالیسیوں کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیاں ملک کو آمرانہ طرز حکومت کی جانب لے جا رہی ہیں۔
یہ مظاہرے، جو شہروں، نواحی علاقوں اور چھوٹے قصبوں میں ہوں گے، جون میں ہونے والے اسی نوعیت کے مظاہروں کا تسلسل ہیں۔ اور اس بات کا پیمانہ بنیں گے کہ کنزرویٹو ایجنڈے سے مخالفین میں کتنی مایوسی پائی جاتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گذشتہ 10 مہینوں میں ان کی انتظامیہ نے امیگریشن قوانین پر سختی، وفاقی اداروں کی افرادی قوت میں کمی اور ایلیٹ یونیورسٹیوں کی فنڈنگ میں کٹوتی جیسے اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کی وجوہات میں فلسطین کے حق میں مظاہرے، کیمپس میں تنوع کے فروغ کی پالیسیاں اور ٹرانس جینڈر کے حقوق شامل ہیں۔کئی بڑے شہروں میں امریکی صدر کی جانب سے نیشنل گارڈز تعینات کیے جا چکے ہیں، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ امیگریشن ایجنٹس کی حفاظت اور جرائم کے خلاف کارروائی کے لیے ضروری ہیں۔’امریکہ میں بادشاہ نہیں ہوتے‘’نو کنگز‘ مارچ کے مرکزی منتظم گروپ ’انڈیویزیبل‘ کی شریک بانی لیا گرینبرگ نے کہا کہ ’اس سے زیادہ امریکی عمل کوئی نہیں کہ ہم کہیں ہمارے ہاں بادشاہ نہیں ہوتے، اور پرامن احتجاج کا حق استعمال کریں۔‘صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنیچر کے احتجاج پر زیادہ بات نہیں کی، تاہم جمعے کو فاکس بزنس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں۔‘لیا گرینبرگ کے مطابق 300 سے زائد مقامی تنظیمیں ان مارچوں کے انتظام میں شامل ہیں۔ امریکن سول لبرٹیز یونین نے مارچ کے دوران امن قائم رکھنے کے لیے ہزاروں افراد کو قانونی اور ڈی اسکیلیشن کی تربیت دی ہے۔ ’نو کنگز‘ کی تشہیر سوشل میڈیا پر زور و شور سے جاری ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنیچر کے احتجاج پر زیادہ بات نہیں کی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ان مظاہروں کو سینیٹر برنی سینڈرز، کانگریس وومن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی حمایت حاصل ہے۔ متعدد معروف شخصیات بھی اس تحریک کے ساتھ کھڑی ہیں۔
رواں برس جون میں صدر ٹرمپ کی 79ویں سالگرہ کے دن دو ہزار سے زائد ’نو کنگز‘ مظاہرے منعقد ہوئے، جو کہ زیادہ تر پرامن رہے۔ اس دن صدر نے واشنگٹن میں فوجی پریڈ بھی منعقد کی۔ریپبلکنز کی تنقیدریپبلکن سپیکر مائیک جانسن نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کل ڈیموکریٹ رہنما نیشنل مال پر ایک بڑی پارٹی کرنے جا رہے ہیں۔ وہ ہمارے کیپیٹل پر چڑھائی کریں گے اس نام نہاد ’نو کنگز‘ ریلی کے لیے۔ ہم اسے اس کے درست نام سے پکارتے ہیں: امریکہ سے نفرت کی ریلی۔‘
گذشتہ 10 مہینوں میں ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن قوانین پر سختی اور وفاقی اداروں کی افرادی قوت میں کمی جیسے اقدامات کیے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
دیگر ریپبلکن رہنماؤں نے بھی ڈیموکریٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی ریلیاں سیاسی تشدد کو ہوا دیتی ہیں، خاص طور پر ستمبر میں سیاسی کارکن چارلی کرک کے قتل کے بعد، جو صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے قریبی ساتھی تھے۔