مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت سے لے کر کیش لیس زندگی تک، گلوبل انوویشن انڈیکس نے ٹیکنالوجی میں جدت کے لحاظ سے دنیا کے جدید ترین شہروں کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔

مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت سے لے کر کیش لیس زندگی تک، گلوبل انوویشن انڈیکس نے ٹیکنالوجی میں جدت کے لحاظ سے دنیا کے جدید ترین شہروں کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے عروج، خود کار کاروں اور قابلِ تحدید توانائی کے استعمال میں تیزی جیسے رجحانات نے ٹیکنالوجی کے میدان کو یکسر بدل دیا ہے۔
دنیا بھر کے شہروں میں نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور پیٹنٹ سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن کچھ شہر دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے جدت کا سفر طے کر رہے ہیں۔
انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے تحت سالانہ شائع ہونے والی گلوبل انوویشن انڈیکس ایک ایسی فہرست ہے جس میں سرمایہ کاری کی سطح، تکنیکی ترقی اور ان کے سماجی اقتصادی اثرات کی بنیاد پر شہروں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ دنیا کے سب سے جدید شہروں میں روزمرہ زندگی کیسی ہے، ہم نے پانچ بڑے اختراعی مراکز کے رہائشیوں سے بات کی ہے۔
1۔ چین میں شینزین-ہانگ کانگ-گوانگژو
اس سال چین پہلی مرتبہ گلوبل انوویشن انڈیکس (جی آئی آئی) کے ٹاپ 10 میں شامل ہوا ہے جس کی وجہ چین سے دائر کیے جانے والے پیٹنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد، سائنس و ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور وینچر کیپیٹل میں اضافہ ہے۔
جی آئی آئی کی رپورٹ میں ٹینکالوجی میں جدت کے 100 سرکردہ مراکز کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے 24 چین میں موجود ہیں جس میں جنوبی چین کا ٹیکنالوجی کا مرکز شینزین، ہانگ کانگ اور گوانگژو پہلے نمبر پر ہے۔
اس خطے میں ٹیکنالوجی روزمرہ کی زندگی میں رچی بسی ہوئی ہے۔
ہانگ کانگ کے رہائشی جیمی ریور کہتے ہیں کہ آپ کسی بھی مقامی بازار چلے جائیں اور دکاندار ادائیگیوں کے لیے کیو آر (QR) کوڈ استعمال کرتے نظر آئیں گے، جبکہ چھوٹے سے چھوٹے دکاندار تین مختلف ایپس کے ذریعے اپنا سامان پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں۔
ہانگ کانگ میں 1997 میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ادائیگی کے لیے آکٹوپس کارڈ متعارف کروایا گیا تھا۔ اب اس کارڈ کو وینڈنگ مشینوں سے لے کر پارکنگ میٹر تک ہر چیز کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
شینزین چین کا پہلا مکمل منصوبہ بندی والا شہر ہےریور نے مسافروں کو مشورہ دیا ہے کہ ہانگ کانگ کی جدید ٹیکنالوجی کا تجربہ کرنے کے لیے وہ رات کے وقت سٹار فیری پر جائیں اور ’سمفنی آف لائٹس‘ شو دیکھیں۔ یہ 43 عمارتوں پر لائٹس، لیزرز اور ایل ای ڈی سکرینوں کے ساتھ میوزک کا امتراج ہے۔
ایک سابقہ پولیس سٹیشن میں اب سٹوڈیوز، دکانیں اور کیفے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ کو روایتی خطاطی کے سٹوڈیوز کے ساتھ تھری ڈی پرنٹنگ ورکشاپس نظر آئیں گی۔‘
شینزین ہواوے سے ٹینسنٹ تک کئی عالمی کارپوریشنوں کا گھر ہے۔ یہ ماہی گیروں کا ایک گاؤں تھا جسے 1980 میں خصوصی اقتصادی زون کے طور پر نامزد کیا گیا اور چین نے اس جگہ کو ٹیکنالوجی کے انقلاب کے لیے منتخب کیا۔ یہاں ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات بھی دی گئی تھیں۔

دنیا کے سب سے جدید شہروں کی فہرست
- شینزین-ہانگ کانگ-گوانگژو
- ٹوکیو-یوکوہاما
- سان ہوزے-سان فرانسسکو
- بیجنگ
- سیول
- شنگھائی سوژوو
- نیویارک
- لندن
- بوسٹن، کیمبرج
- لاس اینجلس

تخلیقی صلاحیتوں کے مرکز کے طور پر اس کی حیثیت صرف اس وقت بڑھی جب اسے 2008 میں یونیسکو نے سراہا۔ سرمایہ کاری کے ذریعے تخلیقی مقامات جیسے شینزین اوپن انوویشن لیب کو فنڈز فراہم کیے گئے۔
2008 سے ایک رہائشی لیون ہوانگ نے کہا کہ اس کے تحت سکیلنگ اور تجربات کو فروغ ملا اور جدید آلات تک رسائی آسان ہوئی، جیسے ورچوئل رئیلٹی۔
ان کے مطابق یہاں کئی طرح کے لوگ آتے تھے جیسے طلبہ، جدید ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اور ہواوے یا ڈی جے آئی جیسی کمپنیوں کے افراد۔
ہوانگ کے مطابق سیاح یہاں پر ڈرون شوز دیکھ سکتے ہیں یا جشن بہارہ اور قومی دن جیسی تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں۔
شہر میں حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے ڈرون شو کا ریکارڈ قائم کیا گیا جس میں قریب 12 ہزار ڈرون شامل تھے۔
2۔ جاپان میں ٹوکیو-یوکوہاما
دوسرے نمبر پر ٹوکیو-یوکوہاما ہیں جہاں دنیا میں سب سے زیادہ عالمی پیٹنٹ فائلنگ کی جاتی ہے۔ یہ عالمی فائلنگ کا 10 فیصد حصہ بنتا ہے۔
تاہم یہاں کے رہائشی جس چیز کی تعریف کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ادھر ٹیکنالوجی اور جدت پسندی دکھاوے کی نہیں بلکہ عملی طور پر مددگار ہوتی ہے۔
ڈانا یاؤ ٹوکیو میں اپنے شوہر سے ملیں اور اب وہ جاپان اور امریکہ آتی جاتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جاپان میں ٹیکنالوجی کا مطلب اڑنے والی کاریں نہیں جیسا کہ ہم 2050 تک اس کی امید لگاتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بجائے یہاں ایسا ریل کارڈ ہے جو آپ بسوں اور وینڈنگ مشینوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور سٹورز پر ایسے جدید اے آئی سینسر ہیں جو سیلف چیک آؤٹ اور کیش لیس ادائیگی کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو ایسی چھوٹی چھوٹی سہولیات ہر جگہ مل جاتی ہیں۔ یہ ہائی ٹیک ہونے کے ساتھ ساتھ واقعی مددگار ہیں۔‘
مسافر ایک ہوٹل میں ٹیکنالوجی کی جدت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہاں چیک اِن خودکار ہے، عملے میں روبوٹ ہیں اور بہترین نیند کے لیے ’سمارٹ بیڈ‘ بستر کا درجہ حرارت کنٹرول کرتے ہیں۔
یاؤ کا کہنا ہے کہ مسافر بغیر ڈرائیور والی ٹرین میں سفر کر سکتے ہیں۔
آرٹ کی تفریح کے لیے لوگ ٹیم لیب پلینٹس جا سکتے ہیں جہاں ’پورا کمرہ آپ کی حرکات پر ردعمل دیتا ہے، جیسے روشنی اور آواز کا سگنل۔‘
3۔ سان فرانسسکو، امریکہ
دنیا بھر میں اسے سیلیکون ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سان ہوزے-سان فرانسسکو کلسٹر دنیا بھر میں وینچر کیپیٹل میں سب سے آگے ہے جہاں قریب سات فیصد تمام عالمی معاہدے ہوتے ہیں۔ یہاں فی کس سب سے زیادہ اختراعی سرگرمی پائی جاتی ہے۔
یہی چیز کاروباری افراد اور سٹارٹ اپس کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، خاص طور پر جب اے آئی کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ٹکٹ فیری نامی کمپنی کے بانی اور سان فرانسسکو کے نئے رہائشی رتیش پٹیل نے کہا کہ ’میں اب تک سان فرانسسکو میں کبھی نہیں رہنا چاہتا تھا۔ یہ ڈاٹ کام بوم (انٹرنیٹ کے عروج) کی طرح ہے۔ یہاں بہت ہوشیار لوگ جمع ہو رہے ہیں اور جو لوگ چلے گئے تھے وہ اب واپس آ گئے ہیں۔‘
اس کا مطلب ہے کہ نیٹ ورکنگ کے امکانات ہر جگہ موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ ایک ڈنر میں ان چیلنجز کے بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں جن کا آپ کو ایک سٹارٹ اپ کے بانی کے طور پر سامنا ہے اور اگلے ہی لمحے میز پر موجود کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ مدد کر سکتے ہیں۔‘
’وہ ایک میسج بھیجتے ہیں اور اچانک آپ کی کسی متعلقہ شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے جس تک آپ ای میل یا سوشل میڈیا کے ذریعے کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘
سان فرانسسکو اور سیلیکون ویلی کے لوگ کوئی ٹیکنالوجی عام ہو جانے سے پہلے ہی اس کی آزمائش کر لیتے ہیں۔
پٹیل کا کہنا تھا کہ ’باقی دنیا کو اس بارے میں چھ ماہ یا ایک سال بعد پتا چلتا ہے۔‘
اوبر اور لفٹ نے عالمی سطح کی کمپنیاں بننے سے قبل یہیں اپنے آپریشنز شروع کیے تھے۔ اب خودکار ڈرائیور لیس کاروں کی کمپنی ویمو نے بھی مارکیٹ شیئر حاصل کر لیا ہے۔ کوئی بھی ایپ کو ڈاؤن لوڈ کر کے اس کی نئی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسے آزما سکتا ہے۔
سان فرانسیسکو میں ویمو کی بنا ڈرائیور چلنے والی کاریں4۔ بیجنگ
اس انڈیکس کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ نے سائنسی تحقیقی پیداوار میں ہر دوسرے شہر کو پیچھے چھوڑا۔دنیا بھر میں شائع مطالعوں میں چار فیصد یہاں کے محققین نے کیے۔
لیکن رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی اصل طاقت ہائی ٹیک انفراسٹرکچر اور گہری ثقافتی جڑوں کے درمیان توازن ہے۔
اے آئی کے ماہر ایلی فیرل کنگزلی اب بیجنگ میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دیگر سمارٹ شہر صرف جدید ٹیکنالوجی پر دھیان دیتے ہیں مگر بیجنگ جدت، ثقافت اور رہنے کی صلاحیت کو یکجا کرتا ہے جو اسے بیک وقت ترقی یافتہ لیکن منفرد بناتا ہے۔‘
بیجنگ کی اصل طاقت ہائی ٹیک انفراسٹرکچر اور گہری ثقافتی جڑوں کے درمیان توازن ہےوہ کہتی ہیں کہ روزمرہ زندگی علی پے اور وی چیٹ جیسی ایپس کے ساتھ چلتی ہے اور ان میں مختلف زبانوں کے ترجمے کی بھی آپشن ہے۔ ان میں کیو آر کوڈ اور کھانا آرڈر کرنے جیسے مفید آپشن ہیں۔
ان کے مطابق انگلش بولنے والوں کے لیے ڈیپ سیک جیسے اے آئی چیٹ بوٹ روزمرہ زندگی آسان بنا دیتے ہیں۔
صرف مایوس کن چیز یہ ہے کہ گھر چھوڑنا اور خدمات تلاش کرنا کہیں اور اتنا آسان نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہاں یہ سب بہت اچھی طرح سے کام کرتا ہے۔ آپ کو یہ سروسز چھوڑ کر کہیں اور جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنی جدید سروسز ہیں۔‘
’شاذ و نادر ہی کوئی تکنیکی خرابی ہوتی ہے۔ جب میں دوسرے ممالک کا دورہ کرتی ہوں تو اکثر مایوسی ہوتی ہے۔‘
سیاحوں کے لیے بیدو اپولو روبو ٹیکسی دستیاب ہے جس میں ’کوئی سٹیئرنگ وہیل ہی نہیں۔‘
’آپ اس میں سوار ہوتے ہیں اور کار خود ہی چل پڑتی ہے۔ یہ مستقبل کا منظر پیش کرتا ہے اور آپ کو حیرانی ہوتی ہے۔‘
5۔ سیول
سیاح شہر کا جدید انفراسٹرکچر چنگچیچن میں دیکھ سکتے ہیںانڈیکس کے مطابق پانچویں نمبر پر جنوبی کوریا کا شہر سیول ہے جہاں 5.4 فیصد عالمی پیٹنگ کی درخواستیں آئیں۔ یہ شہر ونچرل کیپل معاہدوں میں ایشیا میں سرِفہرست ہے۔ سان فرانسیسکو کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں ٹیکنالوجی کی ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہے کیونکہ اس چھوٹے ملک کے پاس محدود قدرتی وسائل ہیں۔
سیول میں 2024 سے مقیم کرس اوبرمین کا کہنا ہے کہ ’ملک کو اختراعات اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں دوسروں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔‘
’بہت سے لوگوں کے دادا دادی غربت میں رہتے تھے اس لیے اب بھی بڑھنے، بہتری لانے، اختراع کرنے اور ہمت نہ ہارنے کا جوش و جذبہ موجود ہے۔‘
روزمرہ زندگی میں جدت کے کئی پہلو ملتے ہیں۔ گھروں میں عام طور پر ایسے دروازے ہوتے ہیں جو ڈیجیٹل کوڈز کے ساتھ کھل جاتے ہیں اور کیش لیس ادائیگی کے نظام کا مطلب یہ ہے کہ باہر نکلتے وقت آپ کو صرف اپنے فون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’چابیاں، کارڈز، میرا پرس، نقدی۔ میں ان سب کو گھر پر چھوڑ سکتا ہوں۔‘
سیاح شہر کا جدید انفراسٹرکچر چنگچیچن میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک واک ایبل پلازا ہے جہاں بنا ڈرائیور بسیں چلتی ہیں۔ شہر میں کیش لیس سٹور موجود ہیں جو 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔
صارفین یہاں سے اشیا خرید کر سمارٹ مشین میں ادائیگی کر سکتے ہیں۔ اے آئی کے نظام نہ صرف گودام میں اشیا کی دستیابی پر نظر رکھتے ہیں بلکہ چوری کو بھی روکتے ہیں۔