ہمارے ٹوتھ برش پر بیت الخلا میں موجود مختلف بیکٹیریا، زکام کے وائرس اور فنگل انفیکشن بآسانی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن کچھ طریقے ایسے ہیں جن سے آپ اپنا ٹوتھ برش بہت حد تک صاف رکھ سکتے ہیں۔
’ایک وقت میں آپ کے ٹوتھ برش پر اندازاً دس لاکھ سے بارہ لاکھ تک سینکڑوں مختلف اقسام کے بیکٹیریا اور فنگس موجود ہوتے ہیں‘واش روم میں موجود ہمارے ٹوتھ برش میں مختلف بیکٹیریا، وائرس اور فنگل انفیکشن بآسانی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن کچھ طریقے ایسے ہیں جن سے آپ اپنا ٹوتھ برش کسی حد تک صاف رکھ سکتے ہیں۔
ٹوتھ برش کو ہم منھ اور دانتوں کی صفائی ستھرائی کے لیے استعمال کرتے ہیں تاہم ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس میں ایک چھوٹا سا آلودہ ماحولیاتی نظام پنپ رہا ہوتا ہے۔
ٹوتھ برش کے گھِسے ہوئے ریشے ایک خشک جھاڑی دار زمین کی طرح ہیں، جو دن میں چند بار پانی سے تر ہو جاتی ہے، اور یوں یہ ایک ایسی دلدل بن جاتی ہے جس میں غذائیت کی بہتات ہوتی ہے۔ پلاسٹک کے ریشوں کے درمیان لاکھوں جاندار پنپ رہے ہوتے ہیں۔
ایک وقت میں آپ کے ٹوتھ برش پر اندازاً دس لاکھ سے بارہ لاکھ تک سینکڑوں مختلف اقسام کے بیکٹیریا اور فنگس موجود ہوتے ہیں۔ اُن کے ساتھ بے شمار وائرس بھی شامل ہوتے ہیں۔
یہ تمام جاندار برش کی بیرونی سطح پر حیاتیاتی تہہ (یعنی بائیو فلم) کی شکل میں جم جاتے ہیں، یا برس میں موجود دراڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔
روزانہ پانی، تھوک اور منھ میں موجود کھانے کے ذرات کے ذریعے ان جراثیموں کو نشوونما کے لیے سب کچھ دستیاب ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھار ان میں نئے جراثیم بھی شامل ہو جاتے ہیں مثلاً بیت الخلا کے فلش سے اُڑ کر آنے والے یا کھڑکی کھلنے پر ہوا کے ساتھ پہنچنے والے ذرات۔
اور دن میں دو بار آپ اس سب گندگی کو منہ میں ڈال کر اچھی طرح ہلاتے ہیں۔
تو کیا آپ کو اپنے ٹوتھ برش کی صفائی کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے؟
یہ سوال برسوں سے سائنسدانوں اور دانتوں کے ڈاکٹروں کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے یہ تحقیق کی کہ ہمارے ٹوتھ برش پر دراصل کس نوعیت کے اور کتنی قسم کے جراثیم ہو سکتے ہیں، ان جراثیموں سے ہماری صحت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اور ہمیں اپنے دانت صاف کرنے والے اس برش کو کس طرح صاف رکھنا چاہیے۔
یہ جراثیم کہاں سے آتے ہیں؟
ٹوتھ برشز کو ایک ساتھ رکھنے سے بھی جراثیم منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہےجرمنی کی رائنویل یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کے مائیکرو بائیولوجسٹ مارک کیوِن زِن کے مطابق، ٹوتھ برش پر موجود جراثیم بنیادی طور پر تین ذرائع سے آتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ تین ذرائع برش استعمال کرنے والے کا منھ، اُن کی جلد، اور وہ ماحول ہے جہاں برش رکھا جاتا ہے۔
بالکل نئے ٹوتھ برش پر بھی مائیکروبز کی اپنی ایک چھوٹی سی کمیونٹی موجود ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر برازیل کی دکانوں سے خریدے گئے مختلف کمپنیوں کے 40 نئے ٹوتھ برشز پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے نصف پہلے ہی مختلف قسم کے بیکٹیریا سے آلودہ تھے۔
اچھی بات یہ ہے کہ استعمال شدہ ٹوتھ برش پر پائے جانے والے زیادہ تر جراثیم نقصان دہ نہیں ہوتے۔ ان کی اکثریت ہمارے اپنے منھ سے آتی ہے۔ جب بھی ہم برش منھ میں ڈالتے ہیں، اس کے ریشے روتھیا ڈینوکیروسا، سٹریپٹوکوکیسیا میٹس اور ایکٹینومائسس جیسے جراثیم کو جمع کر لیتے ہیں۔ یہ جراثیم ہمارے منھ میں پائے جانے والے عام، بے ضرر رہائشی ہیں۔ کچھ جراثیم تو فائدہ مند بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ دانتوں کو گلانے والے دوسرے جراثیموں سے حفاظت میں مدد دیتے ہیں۔
لیکن ان کے درمیان کچھ ایسے ’مسافر‘ بھی ہوتے ہیں جو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
نقصان دہ بیکٹیریا
ٹوتھ برش پر زیادہ تر بیکٹیریا ہمارے منھ سے آتے ہیںبرازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو میں شعبۂ ڈینٹسٹری کے پروفیسر وینیسیئس پیدرازی کے مطابق، سب سے اہم نقصان دہ جراثیم سٹریپٹوکوکسی اور سٹیفائلوکوکسی ہیں، جو دانتوں میں کیڑے پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ دیگر جراثیم مسوڑھوں میں سوزش (پیروڈونٹل بیماری) وغیرہ پیدا کر سکتے ہیں۔
تحقیقات میں استعمال شدہ ٹوتھ برش پر ایسے بیکٹیریا اور فنگس بھی پائے گئے ہیں جو وہاں نہیں ہونے چاہییں۔ مثلاً ایشیریچیا، سوڈوموناس ایروجائنوسا، انٹروبیکٹریا ایسے فنگس ہیں جو عموماً معدے کی بیماریوں اور فوڈ پوائزننگ سے جڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کلیبسیلا نیمونیا (جو ہسپتالوں میں انفیکشن پھیلانے کا عام سبب ہے) اور کینڈیڈا جیسے خمیر بھی برش پر پائے گئے ہیں، جو ’تھرش‘ یعنی منھ میں چھالے جیسی بیماری پیدا کرسکتے ہیں۔
یہ جراثیم اس پانی سے آ سکتے ہیں جس سے ہم برش دھوتے ہیں، ہمارے ہاتھوں سے، یا اردگرد کے ماحول سے۔ اور یہ ماحول عموماً ہمارا باتھ روم ہوتا ہے۔
باتھ روم گرم، نم جگہ ہوتی ہے جہاں ہوا میں پانی کے ننھے ذرات (ایروسولز) بار بار بنتے ہیں، جو بیکٹیریا اور وائرس کو ہوا کے ذریعے پھیلا سکتے ہیں۔ زِن کے مطابق، اسی وجہ سے باتھ روم میں رکھے گئے ٹوتھ برش آلودگی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
اکثر ہمارے باتھ روم میں ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں بات کافی ناگوار ہو جاتی ہے۔
ٹوائلٹ سے نکلنے والے مواد
ٹوائلٹ فلش کرنے سے قبل اس کا ڈھکن بند کرنا نہ بھولیںجب بھی آپ ٹوائلٹ فلش کرتے ہیں، تو پانی اور فضلے کے ننھے ذرات تقریباً ڈیڑھ میٹر (پانچ فٹ) تک فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ ان ذرات کے ساتھ ایسے بیکٹیریا اور وائرس بھی ہو سکتے ہیں جو فلو، کووڈ 19 یا نورو وائرس (پیٹ کی بیماری) جیسی انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔
اگر آپ کا ٹوتھ برش قریب رکھا ہو، تو ممکن ہے کہ یہ ذرات اس کے ریشوں پر جا بیٹھیں، جنھیں آپ بعد میں منھ میں لے جائیں۔ فلش کرتے وقت ان جراثیم کو سانس کے ذریعے اندر لینا زیادہ خطرناک ہے، لیکن بہتر ہے کہ آئندہ فلش کرنے سے پہلے ٹوائلٹ سیٹ بند کر دیں۔
مشترکہ باتھ رومز میں یہ مسئلہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، طلبہ کے مشترکہ باتھ رومز میں 60 فیصد ٹوتھ برش ایسے بیکٹیریا سے آلودہ پائے گئے جو فضلے میں ملتے ہیں، اور کئی بار ایک شخص کے برش پر دوسرے کے منھ کے جراثیم بھی پائے گئے ہیں۔
البتہ حقیقی دنیا کے ماحول میں جراثیم کی بقا پر تحقیق کرنے والی امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی پروفیسر ایریکا ہارٹمین کا خیال ہے کہ ’ٹوائلٹ پلوم‘ اتنے خطرناک نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ان کی ٹیم کی تحقیق میں شامل کیے گئے 34 ٹوتھ برشز پر فضلے سے منسلک بیکٹیریا توقع سے کم پائے گئے۔ ان کے مطابق، تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنتوں کے بہت سے جراثیم ہوا میں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ پاتے۔
وہ کہتی ہیں: ’مجھے نہیں لگتا کہ زیادہ تر لوگ اپنے ٹوتھ برش کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں۔‘
تاہم، کچھ تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلو اور کورونا وائرس جیسے وائرسز ٹوتھ برش پر کئی گھنٹے تک، اور ’ہرپس سمپلیکس وائرس-1‘ (جو کولڈ سورز کا باعث بنتا ہے) تو 48 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔
اس سے بیماریوں کے پھیلنے کا امکان رہتا ہے، اسی لیے صحتِ عامہ کے ماہرین ٹوتھ برش شیئر کرنے سے سختی سے منع کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ایک سے زیادہ برش ساتھ رکھے گئے ہوں تو انھیں ایک دوسرے سے دور رکھیں، خاص طور پر اگر وہ ان لوگوں کے ہوں جو آپ کے ساتھ نہیں رہتے۔
لیکن ہارٹمین کے خیال میں یہ مسئلہ ان لوگوں کے لیے کم اہم ہے جو ایک ساتھ رہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ اکٹھے رہتے ہیں، اُن کے منھ میں پائے جانے والے جراثیم ایک دوسرے سے زیادہ ملتے جلتے ہوتے ہیں، بانسبت ان لوگوں کے جو الگ الگ رہتے ہیں۔‘
درحقیقت، ٹوتھ برش پر پائے جانے والے کچھ وائرس ہمارے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتے ہیں۔ ہارٹمین اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا کہ ٹوتھ برش پر بیکٹیریوفیجز نامی وائرس کی ایک فعال کمیونٹی موجود ہوتی ہے۔ یہ وائرس انسانوں کو نہیں بلکہ بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں، اور ان کی تعداد کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
خطرہ کتنا ہے؟
بہت سے ٹوتھ پیسٹ میں جراثیم کش مواد ہوتے ہیںزِن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ تر صورتوں میں بیماری پھیلانے والے جراثیم سے خطرہ کم ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہے، ان کے لیے خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ انفیکشنز کا آسانی سے شکار ہوتے ہیں۔
زِن اور دیگر ماہرین کی تحقیقات، جن میں ٹوتھ برش سے حاصل شدہ بیکٹیریا کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کچھ بیکٹیریا میں ایسے جین پائے جاتے ہیں جو انھیں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ بیکٹیریا انفیکشن کا باعث بنیں تو ان کا علاج مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم زِن کے مطابق، ان کے مطالعے میں یہ جینز ’انتہائی کم سطح‘ پر پائے گئے، اس لیے عوامی صحت کے لحاظ سے یہ صرف ’درمیانی سطح کی تشویش‘ کا باعث ہیں۔
البتہ اٹلی میں طلبہ کے 50 ٹوتھ برشز پر کی گئی ایک تحقیق میں تمام برش ایسے بیکٹیریا سے آلودہ پائے گئے جو کئی دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھتے تھے۔
کچھ ٹوتھ برشز اینٹی مائیکروبیل (جراثیم کش) کوٹنگ کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں تاکہ ان پر جراثیم قابو میں رہیں، لیکن زیادہ تر تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاج بیکٹیریا کی مقدار کم کرنے میں زیادہ مؤثر نہیں، بلکہ بعض اوقات ان اقسام میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔
درحقیقت، برش کو استعمال کے بعد سیدھا کھڑا رکھ کر کمرے کے درجہ حرارت پر خود خشک ہونے دینا ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے جو جراثیم کی تعداد کم کر سکتا ہے۔ بہت سے وائرس، مثلاً فلو اور کورونا وائرس، خشک ہونے پر غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ سٹریپٹوکوکس میوٹینس جیسا بیکٹیریا، جو دانتوں کے کیڑے کا ایک اہم سبب ہے، برش کے ریشوں پر آٹھ گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے، لیکن بارہ گھنٹے کے بعد مرنے لگتا ہے۔
امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن بھی مشورہ دیتی ہے کہ برش کو کور میں یعنی ڈھانپ کر یا بند ڈبوں میں نہ رکھیں، کیونکہ ایسا کرنے سے جراثیم کی افزائش بڑھ سکتی ہے۔
اپنا ٹوتھ برش کیسے صاف کریں
برش کی صفائی کے بہت سے طریقے ہیں جن سے خطرے کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہےٹوتھ برش کو جراثیم سے پاک کرنے کے بے شمار طریقے تجویز کیے گئے ہیں، مثلاً الٹرا وائلٹ روشنی کا استعمال، ڈش واشر یا مائیکرو ویو میں رکھنا وغیرہ ان میں سے چند ہیں۔ کچھ کم مؤثر طریقے، جیسے ہیئر ڈرائر سے گرم ہوا مارنا یا برش کو وہسکی میں ڈبونا، کارگر نہیں پائے گئے۔ مائیکرو ویو عام طور پر مؤثر سمجھا جاتا ہے، مگر اس سے برش کے ریشے پگھلنے یا خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
جو ٹوتھ پیسٹ آپ استعمال کرتے ہیں، اس میں عموماً جراثیم کش اجزا ہوتے ہیں، جو برش پر موجود مائیکروبز کی تعداد کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ برش کو پانی سے دھونا بھی کچھ بیکٹیریا کو بہا دیتا ہے، لیکن بہت سے جراثیم پھر بھی چمٹے رہتے ہیں۔
کچھ محققین کے مطابق، ایک فیصد سرکے (وائنیگر) کا محلول بیکٹیریا کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے، لیکن اس سے برش پر ایسا ذائقہ رہ جاتا ہے جو اگلی بار برش کرتے وقت ناگوار لگ سکتا ہے۔ برش کے ہیڈ یعنی سر کو اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش میں پانچ سے دس منٹ تک بھگونا بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
پیدرازی مشورہ دیتے ہیں کہ ماؤتھ واش کے ایسے محلول میں برش صاف کیا جائے جس میں 0.12 فیصد کلورہیکسیڈین یا 0.05 فیصد سیٹائل پائرِڈینیم کلورائیڈ موجود ہو۔
پرانے برش جن کے ریشے گھِس چکے ہوں، ان پر زیادہ بیکٹیریا، نمی اور غذائی اجزا جمع ہو جاتے ہیں، جو ان کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن جیسے ادارے تقریباً ہر تین ماہ بعد برش تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو اور بھی جلدی اپنا ٹوتھ برش بدل لینا چاہیے۔ زِن کی تحقیق سے بھی معلوم ہوا کہ برش پر بیکٹیریا کی تعداد تقریباً 12 ہفتوں کے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
کچھ محققین اب ایک مختلف طریقے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایسے ٹوتھ پیسٹ پر کام کر رہے ہیں جو مفید بیکٹیریا کی افزائش کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ پروبائیوٹک ٹوتھ پیسٹ دراصل ایسے ’دوست‘ بیکٹیریا کی نشوونما کو بڑھاتے ہیں جو منھ کی صحت کے لیے فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں۔
مثلاً سٹریپٹوکوکس سیلیویریئس ایسا بیکٹیریا ہے جو نقصان دہ جراثیم کو دبانے اور پلاک سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔ لیموسلیکٹو بیسیلس ریوٹیری ایسا بیکٹیریا ہے جو سٹریپٹوکوکس میوٹینس بیکٹیریا کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے اور ممکنہ طور پر دانتوں کے کیڑے سے حفاظت فراہم کر سکتا ہے۔
زِن کے مطابق: ’ایسے تصورات جیسے پروبایوٹک کوٹنگ یا بائیوایکٹو ریشے والے برش مستقبل میں صحت مند مائیکروبز کے توازن کو فروغ دینے کے جدید طریقے ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح برش بیماری کے بجائے حفاظت کا ذریعہ بن جائے گا۔‘
تاہم، وہ خبردار بھی کرتے ہیں کہ اس شعبے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔