استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ترکی کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔‘
تصویر
Getty Images

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ترکی کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔‘

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک طویل بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔

پاکستانی وزیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے ’پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔‘

سرحد
Getty Images

استنبول مذاکرات کے دوران کن اُمور پر بات ہوئی؟

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپنا ’حتمی مؤقف‘ پیش کیا تھا۔ 'پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس (سرپرستی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔‘

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل ’غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔‘

’سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔‘

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اور کوئی بھی ’گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔‘

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

مذاکراتی عمل میں پیشرفت میں کیا مشکلات سامنے آئیں؟

طالبان
Getty Images
استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان 25 اکتوبر سے شروع ہونے والے مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری ہیں

افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار افتخار فردوس نے 27 اکتوبر کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے، تاہم پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔

’افغان طالبان ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

افتخار فردوس کے مطابق پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ سنیچر کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ ’اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔‘

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک حالیہ آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان ’بات چیت کے حق میں ہے۔۔۔ تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔ افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔‘

27 اکتوبر کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کی جائے۔

انھوں نے کہا کہ ’افغان طالبان کو واضح کرنا تھا کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔‘

افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟

تصویر
Getty Images

پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

سنیچر کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا کہ ’اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔‘

محقق عبدالسید کہتے ہیں کہ ’خواجہ آصف کا بیان کوئی انفرادی موقف نہیں بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔‘

’یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار افتخار خان سے بات کرتے ہوئے افغان سیاسی امور کے محقق ولیئم میلے کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ’ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس نظریاتی اتحاد کی وجہ سے طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔

میلی کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان کو پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی رہی جس کے متوقع نتائج تھے اور اب کی اپنی سلامتی کو مسلح شدت پسندی سے خطرات لاحق ہیں۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ویندا فلباب براؤن کی رائے ہے کہ طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔

ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی اس کے لیے نظریاتی یا پُرتشدد خطرہ نہیں تب تک طالبان حکومت کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US