صدر ٹرمپ کا پاکستان سمیت دیگر ممالک پر جوہری تجربے کرنے کا الزام: ’وہ زیر زمین تجربے کرتے ہیں، مگر بتاتے نہیں‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کا ملک جوہری تجربے کرے گا کیونکہ دوسرے ممالک بشمول پاکستان، روس، چین اور شمالی کوریا بھی ایسے تجربات کرتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے اس ضمن میں بغیر کوئی ثبوت دیے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ممالک تجربے کرتے ہیں لیکن اس بارے میں بات نہیں کرتے۔
تصویر
Getty Images
فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کا ملک جوہری تجربے کرے گا کیونکہ دوسرے ممالک بشمول پاکستان، روس، چین اور شمالی کوریا بھی جوہری تجربات کرتے ہیں۔

انھوں نے یہ دعویٰ بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر ’سی بی ایس نیوز‘ کے پروگرام ’60 منٹس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے دورانِ انٹرویو دعویٰ کیا کہ دیگر ممالک بھی جوہری تجربات کر رہے ہیں مگر وہ اس بارے میں بتاتے نہیں ہیں۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک نے تاحال صدر ٹرمپ کے اِن دعوؤں پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے امریکہ کی وزارت جنگ کو حکم دیا تھا کہ وہ بھی دیگر ممالک کی طرح جوہری تجربوں کی تیاری شروع کریں۔

انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ سے ان کے اسی اعلان سے متعلق سوال کیا گیا تھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں، ہم جوہری تجربات کریں گے جیسا کہ دیگر ممالک کرتے ہیں۔‘

اس پر پروگرام کے میزبان نے استفسار کیا کہ ’واحد ملک جو اس وقت جوہری تجربات کر رہا ہے وہ شمالی کوریا ہے۔ چین اور روس نہیں (یعنی چین اور روس اس طرح کے تجربات نہیں رہے)۔‘

اس پر امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ’نہیں، نہیں۔ روس جوہری ہتھیاروں کے تجربے کر رہا ہے۔ اور چین بھی ایسے تجربے کر رہا ہے۔ بس آپ کو معلوم نہیں ہے۔‘

اس پر میزبان نے کہا کہ ’یہ تو یقیناً بہت بڑی خبر ہے۔ میری معلومات کے مطابق روس نے حال ہی میں جو تجربہ کیا وہ بنیادی طور پر جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نظام کا تھا، بنیادی طور پر میزائل۔۔۔‘

اس پر صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ’روس تجربے کر رہا ہے اور چین بھی، لیکن وہ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں جمہوری نظام ہے اور ’ہم ان سے مختلف ہیں۔ ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں، ہمیں اس کے بارے میں بات کرنی پڑتی ہے کیونکہ دوسری صورت میں آپ لوگ اس بارے میں رپورٹ کریں گے-- ان کے پاس ایسے رپورٹرز نہیں ہیں جو اس کے بارے میں لکھ سکیں، مگر ہمارے یہاں ہیں۔‘

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’ہم بھی تجربے کریں گے کیونکہ وہ ٹیسٹ کرتے ہیں اور دیگر بھی کرتے ہیں۔ اور یقینی طور پر شمالی کوریا بھی تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے۔‘

صدر ٹرمپ نے اپنے دعوؤں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بہت بڑی ہے اور آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں تجربے کر رہے ہیں۔‘

’وہ زیرِ زمین تجربے کرتے ہیں جہاں لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اصل میں کس چیز کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔‘

’آپ کو تھوڑی سی جنبش محسوس ہوتی ہے۔ وہ تجربے کر رہے ہیں اور ہم نہیں۔ ہمیں بھی کرنے ہوں گے۔‘

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حال ہی میں روس نے ایک طرح سے دھمکی دی جب انھوں نے کہا کہ وہ الگ طرح کے تجربے کرنے جا رہے ہیں۔

جب اُن سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کیا وہ (امریکہ) وقعی جوہری تجربے کریں گے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’آپ نے جوہری ہتھیار بنائے ہیں اور اُن کا تجربہ نہیں کرتے۔ آپ کو کیسے معلوم کہ وہ کام کریں گے؟ ہمیں یہ [تجربے] کرنا ہوں گے۔‘

ٹرمپ کی جانب سے جوہری تجربوں کے اعلان کا دنیا کے لیے کیا مطلب ہو گا؟

تصویر
Reuters

امریکہ نے آخری بار سنہ 1992 میں جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ یہ تجربہ ریاست نیوڈا میں زیر زمین کیا گیا تھا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے جوہری تجربات کرنے کے اعلان کے بعد، واشنگٹن کے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیرل کیمبل کا کہنا ہے کہ نیوڈا کی سائٹ کو جوہری ٹیسٹ کے لیے دوبارہ تیار کرنے میں امریکہ کو کم سے کم 36 مہینے درکار ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت اپنے جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے لیے کمپیوٹر سمولیشنز اور دیگر غیر دھماکہ خیز ذرائع استعمال کرتا ہے، اس لیے امریکہ کے پاس دھماکہ کرنے کا کوئی عملی جواز نہیں ہے۔

کارنیج انڈومنمٹ فار انٹرنیشنل پیس کے فیلو جیمی وانگ کا کہنا ہے کہ زیر زمین جوہری ٹیسٹ کے بھی کئی چیلنجز ہیں کیونکہ آپ کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ زمین کے اوپر تابکاری کے اثرات تو نہیں آ رہے ہیں یا زیر زمین پانی آلودہ تو نہیں ہوا۔

قدامت پسند امریکی تھینک ٹینک دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو رابرٹ پیٹرز نے کہا کہ اگرچہ جنگی سازوسامان کی ٹیسیٹ کوئی سائنسی یا تکنیکی وجہ نہیں ہو سکتی ہے لیکن اُن کے بقول اس کی ’بنیادی وجہ مخالفین کو سیاسی پیغام دینا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کبھی صدر کے لیے یہ ضروری ہو سکتا ہے، وہ اپنے طاقت دکھانے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کریں۔ چاہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا کوئی اور۔‘

انھوں نے اصرار کیا کہ ٹیسٹ کے لیے تیار رہنا ’کوئی غیر معقول پوزیشن نہیں ہے۔‘

دوسری جانب کئی دوسری ماہرین اسے موجودہ صورتحال میں انتہائی سنگین قرار دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ نے 1945 میں پہلی بار جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا۔

ماہرین کے مطابق ایسے اوقات میں جب یہ اشارے بہت واضح ہیں کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کی جانب بڑھ رہی ہے، اس نوعیت کے تجربات کا اعلان اسے مزید ہوا دے گا۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اس دوڑ کو تیز نہیں کر رہا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو بڑھتے ہوئے جوہری خطرات کا سامنا ہے۔

جیمی وانگ کا کہنا ہے کہ ’شمالی کوریا کے علاوہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک نے گذشتہ کئی دہائیوں سے جوہری تجربات نہیں کیے ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ اس اعلان کا اثر دوسروں پر بھی پڑے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ پریشان کُن لمحہ ہے۔ امریکہ، روس اور چین ممکنہ طور پر اسے لمحات میں داخل ہو رہے ہیں جس سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔‘

لندن میں موجود دفاعی اور سکیورٹی اُمور کے تھیک ٹینک ’روسی‘ سے وابستہ سینیئر فیلو دریا دولزیکوا کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیان سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر کئی اور وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں اب جوہری تبادلے اور جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کے خطرات بہت بڑھا دیے ہیں۔‘

اُن کے مطابق ٹرمپ کا اعلان ’ایک بڑی بالٹی میں پانی کے ایک قطرے کی مانند ہے اور ایسے کئی جائز خدشات موجود ہے کہ یہ بالٹی جلد بھرنے کے قریب ہے۔‘

ماہرین نے اُن بڑھتے ہوئے تنازعات کی جانب اشارہ کیا ہے جس میں زیادہ متحرک ایٹمی طاقتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین کی جنگ، جس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے متعدد مواقع پر دھمکی دی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں پاکستان اور انڈیا یا ایران، اسرائیل کے مابین جھڑپیں اور حملے ہوئے ہیں، یہ کشیدگیاں موجود ہیں جو کبھی بھی بڑے تنازع کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔

اسرائیل نے کبھی بھی جوہری ہتھیار رکھنے کا باقاعدہ اعلان یا اُس کی تردید نہیں کی ہے اور ایران پر الزام ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔

اسی جزیرہ نما کوریا میں چین اور تائیوان کے مابین شدید کشیدگی ہے۔

امریکہ اور روس کے مابین ہونے والے جوہری معاہدہ اگلے سال فروری میں ختم ہو رہا ہے، اس معاہدے میں دونوں ممالک نے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکہ کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کے اعداد و شمار سے مختلف ہے۔

کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں؟

سیپری کے مطابق روس کے پاس سب سے زیادہ 5,459 جوہری ہتھیار ہیں اور امریکہ کے پاس5,177 اور چین کے پاس 600 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

دوسرے تھنک ٹینکس کے اعدادوشمار بھی کم و بیش ایسے ہی ہیں۔

روس نے حال ہی میں جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔

کریملن کا کہنا تھا کہ اُن کا ایک میزائل امریکی دفاعی حدود میں داخل ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا زیر زمین امریکی ساحل تک جا سکتا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کا یہ اقدام صدر ٹرمپ کے اعلان کی وجہ بنا حالانکہ روس نے کہا ہے کہ اس کے تجربات 'جوہری نہیں تھے۔'

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کو انتہائی قریب سے دیکھ رہا ہے اور اُسے تشویش ہے کہ کہیں وہ اس کے قریب نہ پہنچ جائے، یہ صورتحال امریکہ کے لیے 'دو طرفہ جوہری خطرہ' پیدا کرے گا۔

امریکی جوہری تجربات کے دوبارہ آغاز سے چین اور روس کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب ملے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US