سرحد کی بندش کے باعث 20 دن تک طورخم پر پھنسے رہنے والے افغان پناہ گزین: ’ہم ٹرکوں پر رہنے پر مجبور تھے، اس دوران میری بیوی نے مُردہ بچے کو جنم دیا‘

پاکستان سے بے دخل کیے گئے افغان پناہ گزینوں نے پاک افغان سرحد کی بندش کے دوران 20 دنوں میں کٹھن حالات کا مقابلہ کیا انھوں نے یہ دن ٹرکوں میں گزارے اور اس دوران وہ مسلسل اس بے یقینی کا شکار رہے کہ انھیں جانے کب تک ان ٹرکوں میں رہنا پڑے گا۔
سرحد پر پھنسے افغان باشندے
Getty Images

’گھریلو سامان سے لدے ٹرک میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت 23 افراد تھے اور اس ٹرک میں ہم نے 20 دن گزارے۔‘

’اس دوران خوراک کی قلت اور بیماریوں کا سامنا بھی کیا۔ پھر میری اہلیہ کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ ہمارا بچہ پیدا ہوا لیکن اس میں جان نہیں تھی۔‘

یہ الفاظ عبدالحمید کے ہیں جنھیں ضلع خیبر میں جمرود بائی پاس پر گزارے 20 دن زندگی بھر یاد رہیں گے۔

پاک افغان سرحد کی طورخم پر بندش کی وجہ سے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ انھوں نے یہ دن ٹرکوں میں گزارے اور اس دوران وہ مسلسل اس بے یقینی کا شکار رہے کہ انھیں جانے کب تک ان ٹرکوں میں رہنا پڑے گا۔

یہ سینکڑوں ٹرک تھے۔ اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر سردار شکیب کے مطابق کم سے کم 400 ٹرک مختلف مقامات پر سڑک کنارے کھڑے تھے جن میں بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار سب موجود تھے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس دوران ایک خاتون اور تین بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

ان واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے طورخم سرحد سنیچر کے روز صبح 9 بجے کھول دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغان سرحد تجارتی اور دیگر آمدورفت کے لیے 12 اکتوبر کو بند ہوئی تھی جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس سلسلے میں قطر اور ترکی نے ثالثی کے لیے مذاکرات کا اہتمام کیا۔

پہلی بیٹھک دوحہمیں 18 اور 19 اکتوبر کو ہوئی جس میں جنگ بندی کو یقینی بنایا گیا اور پھر 25 اکتوبر سے ترکی میں چار روزہ مذاکرات ہوئے جس میں جنگ بندی میں توسیع کی گئی۔

سرحد پر پھنسے افغان باشندے
Getty Images
واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے طورخم سرحد سنیچر کے روز صبح 9 بجے کھول دی گئی تھی

سرحد کی بندش

ضلع نوشہرہ میں اضا خیل کے مقام پر اور ضلع خیبر میں جمرود بائی پاس پر ان ٹرکوں کی قطاریں دیکھی جا رہی تھیں اور ان دنوں میں ان افغان پناہ گزینوں کے پاس جو جمع پونجی تھی اس کا بیشتر حصہ یہیں خرچ ہو گیا۔

ان افغان پناہ گزینوں اور ان کی مدد کرنے والے پاکستان کے شہریوں سے ہم نے بات کی تاکہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ جہاں ایک طرف پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں وہاں عام شہریوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کیسا تھا۔

طورخم سرحد پر سنیچر کی صبح گھریلو سامان سے لدے ٹرک جس میں خواتین، بچے اور بزرگ سوار تھے پہنچ رہے تھے۔

راستے میں بڑی تعداد میں جہاں تجاری سامان سے لدے ٹرک اور کنٹینر کھڑے تھے، وہیں ان پناہ گزینوں کے ٹرک بھی افغانستان جانے کے لیے تیار تھے۔ واپس جانے والے پناہ گزینوں کو سرحد سے کچھ دور ٹرمینل پر اتار دیا گیا جبکہ ٹرک سکینر اور تلاشی کے لیے آگے روانہ ہو گئے۔

سواریوں کے لیے الگ راستہ تھا جہاں ان کی دستاویزات چیک کی جاتیں اور پھر وہ زیرو پوائنٹ پر اپنے ٹرکوں میں سوار ہو کر افغانستان میں داخل ہو رہے تھے۔

سرحد پر پھنسے افغان باشندے
BBC

اہلیہ کو اچانک درد اور زچگی

عبدالحمید نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں گزارا جہاں وہ دیگیں پکانے کا کام کرتے تھے۔ ان کے آٹھ بچے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی اور ان کے بچے بھی رہتے تھے۔ اس خاندان کے کل 23 افراد تھے جو سنیچر کی دوپہر طورخم سرحد پر پہنچ گئے تھے۔

عبدالحمید نے بتایا کہ وہ جب ہری پور سے پشاور پہنچے تو اچانک یہ اطلاع ملی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ شروع ہو گئی ہے اور سرحد بند کر دی گئی۔ ’ہم سب بہت پریشان ہو گئے لیکن خیال یہ تھا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں افغان واپس جا رہے ہیں تو سرحد ایک یا دو دن میں کھول دی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالات ہماری سوچ سے مختلف تھے۔ ’میری اہلیہ کو آٹھ ماہ کا حمل تھا، نواں مہینہ شروع ہو چکا تھا اور اس دوران اچانک انھیں تکلیف شروع ہو گئی۔ ہم سب پریشان ہوئے اور اہلیہ کو جمرود کے ہسپتال میں لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں کا روّیہ بہت اچھا تھا لیکن انھوں نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ بچہ پیٹ کے اندر ہی دم توڑ چکا ہے اور اب آپ کو پشاور جانا پڑے گا۔‘

’ہم فوری طور پر پشاور پہنچے۔ وہاں اہلیہ کا آپریشن ہوا لیکن بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی زندگی سے منھ موڑ گیا تھا۔ اہلیہ اب بہتر ہیں لیکن اس دوران علاج، ادویات اور دیگر ضروریات پر تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار روپے خرچ ہو گئے ہیں جبکہ جیب میں اب صرف 15 ہزار روپے ہیں۔‘

عبدالحمید نے بتایا کہ اس دوران مقامی لوگوں نے ان کی بہت مدد کی تھی۔ ایک شخص نے انھیں اپنے ایک مکان میں جگہ دی، جہاں بچے رہے اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے کھانے پینے کی اشیا میں بھی کافی مدد کی لیکن ’یو این ایچ سی آر سمیت دیگر اداروں نے کوئی مدد نہیں کی اور صرف دلاسہ دیتے رہے لیکن اس کے بعد انھوں نے کوئی رابطہ بھی نہیں کیا۔‘

مقامی لوگوں کی مدد

اضا خیل کے مقام پر جہاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا دفتر ہے اور یہاں ماضی میں ایک افغان کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا یہاں بڑی تعداد میں ٹرک پہنچے تھے لیکن سرحد کی بندش کی وجہ سے یہیں رک گئے تھے۔

اس علاقے میں موجود عزیز الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان لوگوں نے یہ 20 دن ٹرکوں میں گزارے اور اس دوران خواتین اور بچوں کے لیے بنیادی ضروریات نہیں تھیں جیسے لیٹرین نہیں تھی، کھانے پینے کی کوئی سہولت نہیں تھی، رات کے قیام کے لیے اور سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی تو ایسے میں ان کی مشکلات بڑھ گئی تھیں۔ مرد تو ادھر ادھر چلے جاتے تھے مسئلہ خواتین اور بچوں کا تھا۔ ان کے ساتھ بیمار اور بزرگ افراد تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ مقامی افغان کمیونٹی اور ان کے ساتھ اس علاقے کے پاکستانیوں نے مدد کی۔ ان کی خوراک اور دیگر ضروریات کے لیے چندہ جمع کیا گیا۔ ’کوئی چاول لے آیا تو کوئی گوشت اور گھی وغیرہ پہنچا دیتا تھا۔ اسی طرح پانی کی فراہمی کے انتظامات کیے گئے اور ان لوگوں کے علاج کے لیے ادویات بھی فراہم کی گئیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں باقاعدہ ایک وقت میں درجنوں دیگیں پکائی جاتیں تاکہ ان کی خوراک کا انتظام ہو سکے۔

سرحد پر پھنسے افغان باشندے
Getty Images

اضا خیل کی طرح بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں نے جمرود کے بائی پاس اور باقی راستوں میں قیام کر لیا تھا۔

اس علاقے کے ایک سوشل ورکر اسلام بادشاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے مقامی لوگوں اور خیبر پختونخوا میں مقیم افغانوں کے تعاون سے ان پناہ گزینوں کے لیے اقدامات کیے تھے اور لگ بھگ 61 مکان انھوں نے کرائے پر حاصل کیے جہاں ان کے قیام کا بندوبست کیا تھا۔ ان میں بیشتر نے انسانی ہمدردی کے طور پر اپنے مکان دے دیے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ جمرود میں مقیم ان پناہ گزینوں کے لیے ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کے کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا اور ان کے لیے ان مکانات میں لیٹرین کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔

’ان کا سب سے بڑا مسئلہ لیٹرین کا تھا اور صحت کے مسائل تھے اکثر بچے اور بزرگ بیمار تھے جن کے لیے ادویات کا انتظام بھی کرنا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جمرود کے پہاڑوں میں کچھ عرصے سے جنگلی جانور (سور) آئے ہوئے ہیں اور ان سے خوف رہتا ہے ان کی تعداد دس سے پندرہ تک بتائی گئی اور ایک رات ان جانوروں نے کچھ بچوں پر حملہ کیا تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔‘

واضح رہے کہ پشاور کے قریب واقع ضلع خیبر کی تحصیل جمرود پہاڑی علاقہ ہے۔

سرحد پر پھنسے افغان باشندے
Getty Images
اضا خیل کی طرح بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں نے جمرود کے بائی پاس اور باقی راستوں میں قیام کر لیا تھا

چترال سے چالیس سال بعد واپسی

واپس جانے والے تمام افغان پناہ گزینوں کی منفرد کہانیاں ہیں۔

ان میں ایک گل عالم چترال سے جمرود پہنچے۔ ان سے ملاقات طورخم میں ہوئی جب ان کا ٹرک وہاں رکا۔ انھوں نے بچوں اور خواتین کو ٹرک کے ساتھ سیڑھی لگا کر اتارا۔ ان کے ٹرک میں مرغیوں کا ایک پنجرہ بھی تھا جس کی وہ بہت حفاظت کر رہے تھے۔

گل عالم نے بتایا کہ قریباً 40 سال پہلے جب وہ خود بچے تھے اپنے والدین کے ساتھ نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے اور چترال میں ہی قیام کیا تھا اور اب اپنے بچوں کو لے کر واپس جا رہے ہیں۔

’یہ 40 سال کا ایک عجیب سفر رہا اور ہم دو ممالک کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان 20 دن میں مشکلات بہت تھیں لیکن مقامی لوگوں نے بہت مدد کی، ہر قسم کا تعاون کیا اور کھانے پینے کا خیال رکھا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US