’تم نے میرے ساتھ رشتہ کرنے سے انکار کیوں کیا‘: 24 سالہ لڑکی کی خودکشی کا معاملہ قتل کے مقدمے میں کیسے بدلا؟

ایم فِل کی طالبہ 24 سالہ عتیقہ مظہر کی موت رواں برس 14 اگست کو ہوئی تھی، گھر والوں کی جانب سے جمع کروائے گئے حلفیہ بیانات کے بعد پولیس نے ابتدائی طور پر ان کی موت کو ’خودکشی‘ قرار دیتے ہوئے کیس داخل دفتر کر دیا تھا۔ تاہم اب اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ اُن سے حلفیہ بیانات خاندان کے افراد نے بزور طاقت اور دباؤ میں لا کر لیے گئے تھے کیونکہ عتیقہ کا مبینہ قاتل اُن ہی کا فرسٹ کزن ہے۔
Getty Images
Getty Images

’کیا بیٹی کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا جرم ہے؟ میری بیٹی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور اپنا مستقبل بنانا چاہتی تھی۔ اس نے سرکاری ادارے میں گریڈ 17 کی نوکری کے لیے درخواست دے رکھی تھی اور 19 جولائی کو ملتان میں ہونے والے تحریری امتحان میں وہ کامیاب رہی تھی، اب انٹرویو ہونا باقی تھا جس کے لیے وہ دن رات تیاری کر رہی تھی۔ وہ پُرامید تھی کہ کامیاب ہو جائے گی۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے شہر چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والے مظہر حسین کا، جن کی بیٹی کے مبینہ قتل کا مقدمہ لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد عدالت کے حکم پر اُن ہی کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

ایم فِل کی طالبہ 24 سالہ عتیقہ مظہر کی موت رواں برس 14 اگست کو ہوئی تھی، گھر والوں کی جانب سے جمع کروائے گئے حلفیہ بیانات کے بعد پولیس نے ابتدائی طور پر ان کی موت کو ’خودکشی‘ قرار دیتے ہوئے کیس داخل دفتر کر دیا تھا۔

تاہم اب اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ اُن سے حلفیہ بیانات اُن ہی کے خاندان کے دیگر افراد نے بزور طاقت اور دباؤ میں لا کر لیے گئے تھے کیونکہ عتیقہ کا مبینہ قاتل اُن ہی کا فرسٹ کزن ہے۔

ساہیوال کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد عثمان ٹیپو نے تصدیق کی ہے کہ عتیقہ کی ہلاکت کے بعد مقامی پولیس نے ابتدا میں خودکشی کی قانونی کارروائی کی تھی تاہم اب (یکم نومبر کو) قتل کی دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مقتولہ کی چھوٹی بہن کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر دو مرکزی ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انھیں عدالت میں پیش کرنے کے بعد ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

Getty Images
Getty Images
ایم فِل کی طالبہ 24 سالہ عتیقہ مظہر کی موت رواں برس 14 اگست کو ہوئی تھی، گھر والوں کی جانب سے جمع کروائے گئے حلفیہ بیانات کے بعد پولیس نے ابتدائی طور پر ان کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے کیس داخل دفتر کر دیا تھا

مبینہ خودکشی کی کارروائی سے قتل کی ایف آئی آر کے اندراج تک

چھوٹی بہن کی مدعیت میں عتیقہ کے مبینہ قتل کی ایف آئی آر اُن کے ماموں اور ماموں زاد بھائی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ 14 اگست کی شام چھ سے سات بجے کے درمیان اُس وقت پیش آیا جب مسلح ملزمان عتیقہ کے گھر میں داخل ہوئے۔

ایف آئی آر کے مطابق مرکزی ملزم نے اپنی پسٹل عتیقہ پر تانتے ہوئے کہا کہ ’تم نے میرے ساتھ رشتہ کرنے سے انکار کیوں کیا۔‘ چھوٹی بہن نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران مرکزی ملزم نے اُن کی بہن پر فائر کیا جو اس کی چھاتی پر لگا جس کے بعد دوسرے ملزم کی طرف سے بھی فائر کیا گیا جو اُن کی بہن کے ہاتھ سے گزرتے ہوئے اس کے سینے میں داخل ہو گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ’وجہ عناد یہ تھی کہ میری بہن اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی جبکہ مرکزی ملزم (جو مقتولہ کا ماموں زاد بھائی ہے) ان پڑھ تھا جس نے رشتہ نہ دینے پر میری بہن کا قتل کیا۔‘ چھوٹی بہن نے الزام عائد کیا کہ ان کے قریبی رشتہ دار ہر صورت ان کی بہن کا رشتہ خاندان ہی میں کرنا چاہتے تھے مگر اس میں ناکامی پر انھوں نے عتیقہ کو مبینہ طور پر قتل کر دیا۔

عتیقہ کے والد مظہر حسین پیشے کے اعتبار سے چھوٹے درجے کے کاشتکار ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی عتیقہ نے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ایم فل کا امتحان دیا تھا اور اب وہ سرکاری ملازمت کےلیے کوشش کر رہی تھیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے اُن کی بہنوں کی طرف سے اُن کی بیٹی کا رشتہ مانگا جانے لگا تھا۔

’پہلے میری ایک بہن اپنے بیٹے کے لیے میری بیٹی کا رشتہ مانگتی رہی مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ لڑکا دو، تین جماعتیں ہی پڑھا ہوا تھا اور کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسری بہن مسلسل دباؤ ڈالنے لگی، اس کا بیٹا (مرکزی ملزم) بھی ان پڑھ تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب عتیقہ کے سرکاری نوکری کے امتحان میں کامیاب ہونے کی خبر رشتہ داروں کو پتہ چلی تو انھوں نے گھر آ کر لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا تھا۔

’میرے بھائی بھی میری بہنوں کے ساتھ مل گئے اور دباؤ ڈالنے لگے کہ عتیقہ کی شادی اس کے ماموں زاد بھائی سے ہی کی جائے۔ میرے کسی بہن یا بھائی کی اولاد پڑھ لکھ نہیں سکی اور میں پریشان تھا کہ کیا میری بیٹی کی قابلیت ہی اس کا قصور بن جائے گی۔‘

والد نے الزام عائد کیا کیا کہ مبینہ قتل کے واقعے کے بعد ان کے بھائی، بہن اُن کے گھر پہنچ گئے اور مبینہ طور پر دباؤ ڈالا کہ معاملہ یہیں ختم کر دیا جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر ان سے کچھ کاغذات پر دستخط لیے گئے، ’اس کے بعد میں بیٹی کو قبرستان چھوڑ کر روتا دھوتا گھر واپس آ گیا۔‘

چھوٹی بیٹی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’رشتہ داروں نے میرے والدین کو ایک کمرے میں بند کیا اور زبردستی خالی سٹیمپ پیپر پر دستخط لیے گئے جس پر لکھا تھا کہ عتیقہ کی موت اچانک پسٹل چل جانے سے ہوئی۔‘

Getty Images
Getty Images
والد نے الزام عائد کیا کیا کہ مبینہ قتل کے واقعے کے بعد ان کے بھائی، بہن اُن کے گھر پہنچ گئے اور مبینہ طور پر دباؤ ڈالا کہ معاملہ یہیں ختم کر دیا جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر ان سے کچھ کاغذات پر دستخط لیے گئے

مقامی پولیس کا کیا کہنا ہے؟

ساہیوال کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد عثمان ٹیپو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتولہ کی چھوٹی بہن نے گذشتہ دنوں میں عدالت سے رجوع کیا اور خودکشی کے دعوؤں کو مسترد کیا جس پر عدالت نے لڑکی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کیے۔

انھوں نے بتایا کہ عتیقہ کی قبر کشائی نہیں ہو گی اور نہ ہی دوبارہ پوسٹمارٹم ہو گا کیونکہ پہلی پوسٹمارٹم رپورٹ (جو خودکشی کے بعد پولیس کی جانب سے کروایا گیا تھا) میں واضح ہے موت گولیاں لگنے سے ہوئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ زیر حراست ملزمان نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ انھوں نے یہ قتل نام نہاد غیرت کی بنیاد پر کیا ہے۔

ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ ’ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مقتولہ کے ہاتھ اور سینے پر دو گولیوں کے نشانات تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خودکشی کرنے والا اپنے ہی سینے پر دو فائر مار لے۔ مقتولہ کو دو فائر لگے تھے۔ ایک گولی سینے پر براہ راست لگی جبکہ دوسری گولی اس کے ہاتھ میں سے گزرتی ہوئی سینے پر لگی۔‘

مقامی تھانہ کسووال کے ایس ایچ او ذیشان ڈوگر کا کہنا ہے کہ وقوعہ کے بعد مقتولہ کے والدین نے اسے خودکشی یا اتفاقیہ حادثہ قرار دیتے ہوئے قتل کا مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ مقتولہ کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد نے پولیس کو بیان حلفی جمع کرایا تھا کہ یہ خودکشی کا واقعہ ہے اور انھوں نے پوسٹ مارٹم کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم پولیس نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 کے تحت رپٹ کا اندراج کر کے نعش کا ازخود پوسٹمارٹم کروا دیا تھا تاکہ کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے۔

جب پوچھا گیا کہ کیا پولیس نے اس وقت شواہد ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی تو اس پر انھوں نے بتایا کہ گولی لگنے کے واقعے کے بعد ورثا پولیس کو اطلاع کرنے کی بجائے خود لڑکی کو لے کر سول ہسپتال پہنچ گئے تھے، جس کی وجہ سے کرائم سین انویسٹیگیشن کا عمل متاثر ہوا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US