کن پاکستانیوں کی دوہری شہریت کی منسوخی زیرِ غور ہے؟

پاکستان میں گذشتہ روز سے 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دوہری شہریت کے قانون میں مجوزہ تبدیلی زیرِ بحث ہے اور اس کی حمایت و مخالفت میں کئی حلقے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔
تصویر
Getty Images

پاکستان میں گذشتہ روز سے 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دوہری شہریت کے قانون میں مجوزہ تبدیلی زیرِ بحث ہے اور اس کی حمایت و مخالفت میں کئی حلقے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔

اگرچہ وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی اُمور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ یہ تجویز صرف ملک کی سول اور مسلح افواج کے افسران کے لیے زیرِ غور ہے تاہم دوہری شہریت کے قانون میں تبدیلی اور اس کے یکسر خاتمے سے متعلق مختلف افواہیں گذشتہ روز سے گردش کر رہی ہیں۔

ایسی افواہیں بھی ہیں کہ شاید پاکستان کے کسی بھی شہری پر ایک سے زیادہ ممالک کی شہریت رکھنے کی ممانعت ہو گی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں ایک سے زیادہ شہریت رکھنے کے معاملے پر قیاس آرائیاں یا بحث کی جا رہی ہو۔

رواں سال اگست میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک بیان دیا تھا جس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے اور شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے۔

خواجہ آصف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ان افراد میں نامی گرامی بیوروکریٹس شامل ہیں۔

حکومت کن پاکستانیوں کی دوہری شہریت ختم کرنا چاہتی ہے؟

جمعرات کو وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی اُمور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سول سروس اور مسلح افواج میں دوہری شہریت کے حامل عہدیدار نہیں ہونے چاہییں۔

سما نیوز کے پروگرام میں میزبان ندیم ملک نے رانا ثنا اللہ سے سوال کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں دوہری شہریت ختم کرنے کی بھی تجویز ہے؟

اس پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ابھی زیر بحث ہے۔ یہ معاملہ کمیٹیوں میں جائے گا۔ لیکن تجویز یہ ہے کہ ہماری جو لازمی سروسز ہیں، یعنی سول سروسز اور آرمی سروسز میں دوہری شہریت نہیں ہونی چاہیے۔‘

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’دوہری شہریت، آبادی، تعلیم، نصاب اور صحت جیسے معاملات پر ہمارا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ معاملات ہیں جن پر بحث محدود ہے اور ان پر کوئی نہ کوئی فیصلہ لیا جانا چاہیے۔‘

دوہری شہریت کے قانون میں ممکنہ تبدیلی پر جنم لیتے خدشات

رانا ثنا اللہ کی وضاحت سے پہلے دوہری شہریت سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ شاید حکومت کسی بھی شہری کو ایک سے زیادہ ممالک کی شہریت رکھنے کی اجازت نہیں دے گی۔

نجم علی نامی صارف لکھتے ہیں کہ دوہری شہریت کا حق ختم کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ شہریت کسی کی حب الوطنی، ایمانداری اور اہلیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں کرپشن اور بیڈ گورننس اُن لوگوں کے ہاتھوں سے ہوئی جن کی پاس صرف پاکستان کی شہریت تھی۔

فیضان لکھانی لکھتے ہیں کہ پاکستان کی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم میں دوہری شہریت ختم کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کرکٹ، فٹ بال، سوئمنگ، ٹینس اور دیگر کھیلوں میں کئی پاکستانی نژاد شہری فخر سے بطور پاکستانی اپنی شناخت کرواتے ہیں۔

عجیب حسین نامی صارف لکھتے ہیں کہ دُنیا کے کسی ملک کا نام بتائیں، جہاں فوجی یا سول قیادت کے پاس دوہری شہریت ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہے اور یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ ہم محب وطن اور ملک کے وفادار ہیں۔

تصویر
Getty Images
جمعرات کو وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی اُمور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سول سروس اور مسلح افواج میں دوہری شہریت کے حامل عہدیدار نہیں ہونے چاہییں

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان میں بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے بارے میں بیرون ملک جائیدادیں اور دوہری شہریت سے متعلق باتیں سامنے آئی ہوں۔

مئی 2024 میں عالمی صحافتی تنظیم 'آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ' (او سی سی آر پی) کی جانب سے 'دبئی اَن لاکڈ' کے عنوان سے شائع ہونے والی تحقیقات میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ریئل سٹیٹ شعبے کے غیر ملکی مالکان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی۔

او سی سی آر پی کے میڈیا پارٹنر اور پاکستانی اخبار روزنامہ ڈان کی ایک تحریر کے مطابق 2022 کے لیک شدہ ڈیٹا کے مطابق دبئی کی 23 ہزار رہائشی پراپرٹیز کی ملکیت 17 ہزار پاکستانی شہریوں کے پاس ہے۔ ان میں کئی سابقہ آرمی افسران، بینکار، سیاستدان اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا کہ ملک کے 22 ہزار سے زیادہ بیوروکریٹس دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

گذشتہ ماہ پاکستان نے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی، جس کے بعد اب گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی ملک میں اور بیرونِ ملک موجود اثاثوں کی تفصیلات اور اپنی مالی صورتحال کے بارے میں بتائیں۔

سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ایک نیا سیکشن 15 اے شامل کیا گیا، جس کے مطابق سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعے پبلک کی جائیں گی۔

پاکستان میں دوہری شہریت کا قانون کیا ہے؟

پاکستانی شہریت کے حوالے سے سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کون پاکستانی شہریت کا حامل ہو سکتا ہے اور کون نہیں۔

اس قانون کی 23 شقیں ہیں جس میں مختلف شرائط کے ساتھ پاکستانی شہریت کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔

اس ایکٹ کی دفعہ 10 میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ شادی کی صورت میں کون پاکستانی شہریت کا حق دار ہوگا اور کون نہیں۔

اس دفعہ کے تحت پاکستانی مرد اگر کسی غیر ملکی خاتون سے شادی کرتے ہیں تو ان کی ساتھی اس بات کی حق دار ہے کہ وہ پاکستانی شہریت حاصل کر سکے۔ مگر یہ حق خاتون کو نہیں دیا گیا ہے۔

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سنہ 2012 میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت یہ شرط بھی رکھی کہ ہر اُمیدوار کو یہ بیان حلفی جمع کروانا ہو گا کہ وہ کسی اور ملک کا شہری نہیں ہے۔

مختلف مواقع پر سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ رواں برس اگست میں بھی اس قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے والے پاکستانی شہریت چھوڑنے والے افراد کو دوبارہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔

حکومتِ پاکستان کا مجموعی طور پر 22 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کا معاہدہ موجود ہے۔ یعنی ان ممالک کی شہریت رکھنے والوں کو پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنی شہریت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

ان ممالک میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، بیلجیم، آئس لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، فن لینڈ، مصر، اُردون، شام، سوئٹزر لینڈ، نیدر لینڈز، امریکہ، سویڈن، آئر لینڈ، بحرین، ڈنمارک، جرمنی اور ناروے شامل ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US