“مجھے بیٹی کی پیدائش کے دو برس بعد بھی محبت کے اظہار کے لیے اپنے بیٹوں کے مقابلے زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا تجربہ ہوا، فیڈنگ کے دوران بھی کبھی کبھار بیزار ہو جاتی تھی، جبکہ بیٹوں کی پیدائش کے بعد ایسا محسوس نہیں ہوا۔ دل چاہتا تھا کہ اپنی ہی نوزائیدہ بچی کو گرا کر ان سے جان چھڑا لوں، لیکن کوئی ماں ایسا کبھی نہیں چاہتی، یہ ایک بیماری ہے۔ بیٹی دسمبر میں دو برس کی ہو جائے گی، لیکن مجھے آج بھی اس سے محبت کرنے اور اس کے پاس جانے کے لیے زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بیٹوں پر قدرتی طور پر پیار آتا ہے، ایسا اس لیے نہیں کہ وہ بیٹے ہیں بلکہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجہ سے ایسا ہے۔ ذہنی بیماریاں نظر نہیں آتیں، اسی لیے لوگ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن یہ حقیقت میں موجود ہوتی ہیں۔ اضطرابی کیفیت، گھبراہٹ، سانس لینے میں دشواری، اپنے ہی بچوں سے نفرت کرنا، فیصلہ نہ کر پانا، زیادہ سوچنا اور اسی طرح کی دیگر علامات اس بیماری کی نشاندہی کرتی ہیں۔ خوش قسمتی سے میرے شوہر ایک ڈاکٹر ہیں، اس لیے وہ مجھے سمجھ سکتے ہیں۔ ایسی خواتین کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔”
اداکارہ ثروت گیلانی نے حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے اپنی ذاتی جدوجہد سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک خاتون پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار بنتی ہے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ثروت نے کھل کر بتایا کہ بیٹی کی پیدائش کے بعد ان کے ذہن میں خوفناک اور غیر معمولی خیالات آتے تھے، لیکن وہ جانتی تھیں کہ یہ ان کی بیماری کی علامت ہے، نہ کہ ان کے کردار کا عیب۔
اداکارہ نے معاشرے میں ذہنی صحت کے مسائل کو سمجھنے اور ان پر بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سی پڑھی لکھی خواتین بھی پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں، اور اکثر نہ خود اس کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی گھر والے اس بات کو سمجھ پاتے ہیں۔ ان کے مطابق، اس بیماری کی علامات میں اضطراب، گھبراہٹ، سانس لینے میں مشکل، اپنے بچوں سے نفرت اور فیصلہ نہ کر پانا شامل ہیں۔
ثروت گیلانی کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے ان کے شوہر ڈاکٹر ہیں اور وہ ان کے اس سفر میں ساتھ دے سکتے ہیں، تاہم ایسے مسائل کا شکار ہر خاتون کو مدد اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی یہ داستان نہ صرف والدین بلکہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل کو نظر انداز کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
یہ انکشافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہر خوشگوار زندگی کے پردے کے پیچھے کبھی کبھار چھپی ہوئی مشکلات بھی موجود ہوتی ہیں، اور کھل کر بات کرنا ہی شفایابی کی پہلی کنجی ہے۔