“کیا ویڈیو بنا رہے ہو؟ شرم نہیں آتی؟ آپ کے گھر میں ماں باپ نہیں ہیں؟ بچے نہیں ہیں؟ ایسے وقت میں یہ سب کرتے ہوئے ذرا خیال تو کرو!”
بھارتی فلم نگری اس وقت ہلچل کا شکار ہوگئی جب سنی دیول اپنے والد دھرمیندر کی صحتیابی کے بعد گھر کے باہر کھڑے فوٹوگرافرز پر برس پڑے۔ ویڈیوز میں صاف دکھائی دیا کہ وہ غصے سے باہر نکلے، ہاتھ جوڑ کر میڈیا والوں سے مخاطب ہوئے اور چند لمحوں بعد تلخ الفاظ بھی استعمال کر بیٹھے۔ ان کا غصہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے انٹرنیٹ پر چھا گیا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ دھرمیندر کی طبی حالت پہلے ہی مداحوں میں تشویش پیدا کر چکی تھی۔ ایسے میں میڈیا نمائندوں کی بڑی تعداد دیول ہاؤس کے باہر موجود تھی، جو ہر آنے جانے والے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال رہی تھی، حتیٰ کہ گھر پر کھانا پہنچانے والے کی فوٹیج بھی وائرل کر دی گئی۔ یہ ساری صورتحال سنی دیول کی برداشت سے باہر ہوگئی اور انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ خاندان کی پرائیویسی کا احترام ضروری ہے، خاص طور پر جب بزرگ والد اسپتال سے گھر منتقل ہوئے ہوں اور آرام کی ضرورت ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دھرمیندر کے حوالے سے اس ہفتے جھوٹی خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ہیما مالنی اور ایشا دیول نے فوری وضاحت کر کے افواہوں کو ختم کیا۔ سنی دیول کی ٹیم نے بھی بتایا کہ دھرمیندر اب گھر پر زیرِ علاج ہیں اور حالت پہلے سے بہتر ہے۔ ساتھ ہی سب سے یہی درخواست کی گئی کہ بلاوجہ قیاس آرائیاں بند کی جائیں اور خاندان کو سکون دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر سنی دیول کے غصے نے بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ لوگ ان کے لہجے کو سخت کہہ رہے ہیں، مگر مداحوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں درست قرار دیا ہے۔ بہت سے صارفین نے لکھا کہ میڈیا والوں کو ایسی نازک گھڑی میں گھر کے دروازے پر کیمرے لگا کر بیٹھنے کے بجائے انسانیت دکھانی چاہیے تھی۔
یہ واقعہ ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ شہرت جتنی بھی بڑی ہو، چند لمحوں کی پرائیویسی کا حق پھر بھی باقی رہتا ہے۔ سنی دیول کا غصہ شاید اسی گھٹن کی ایک جھلک تھا جو ہر اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جس کے گھر میں کوئی بیمار بزرگ موجود ہو اور باہر شور کم نہ ہو رہا ہو۔