علما یونیورسٹی کورنگی کریک ایجوکیشن سٹی میں "صحافت کا سیاسی شعور کی بیداری میں کردار'' کے عنوان پر لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ ماس کمیونیکیشن کے طلبہ کو سینئر صحافی اسلم سلطان نے موضوع پر لیکچر دیا، جس کے بعد سوال، جواب کا سیشن بھی ہوا۔
صحافی اسلم سلطان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا نے مختلف ادوار میں سیاسی شعور کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے کہا کہ 1970–1980 کی دہائی میں پرنٹ میڈیا نے عوامی رائے میں آہستہ آہستہ بیداری پیدا کی، سال 2000 کے بعد نجی ٹی وی چینلز نے سیاسی بحث اور عوامی شمولیت میں انقلاب برپا کیا، اسی طرح 2010 کے بعد سوشل میڈیا نے نوجوانوں میں سیاسی شرکت اور مباحثہ بڑھایا۔
اسلم سلطان نے کہا کہ صحافت کی بنیادی ذمہ داری خبر کی ترسیل کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں سے شہریوں کو آگاہ رکھنا ہے، حکومت کے اقدامات اور آئین و قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے، اس موقع پر انہوں نے 27 ویں آئینی ترمیم اور متوقع 28 ویں آئینی ترمیم کے اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔
اسلم سلطان نے طلبہ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کے حوالے سے کہا کہ عوامی میڈیا کے مثبت کردار کی بدولت تعلیم اور سیاسی آگاہی میں اضافہ ہوا، حکومتی اقدامات نگرانی اور شفافیت بڑھی، نوجوان نسل کی سیاسی شمولیت بھی بڑھی ہے، انتخابات میں ووٹرز کے حق رائے دہی کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کی بھرمار ، فیک نیوز کے باعث پولرائزیشن اور سیاسی جماعتوں کے حق میں متعصبانہ رپورٹنگ بھی دیکھی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز، ہیش ٹیگ مہمات اور افواہوں نے معاشرے میں غلط فہمیوں کو پروان چڑھایا، لیکن اب نوجوانوں میں شعور پچھلی دہائی سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور وہ فیکٹ چیک اور مستند خبروں کو اہمیت دینا شروع ہوگئے ہیں۔
سینئر صحافی نے سیاسی شعور اور میڈیا کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستند معلومات اور خبر عوام تک پہنچائے، معلومات کی ترسیل کے ذریعے عوامی رائے سازی کو بڑھائے، سیاسی شفافیت اور جوابدہی کے عمل کے حوالے سے عوامی بیداری کا فریضہ انجام دے، عوام کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں بعض میڈیا ہائوسز کی جانبدار رپورٹنگ سے الیکٹرانک میڈیا کی ساکھ کو نقصان پہنچا، اس لیے سوشل میڈیا نے تیزی سے عوام میں متبادل میڈیم کے طور پر جگہ بنائی، جس کی کوئی باضابطہ پالیسی نہ ہونے کے باعث فیک نیوز کے راستے کھل گئے،
انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ حالات حاضرہ، پاکستان کی سیاسی تاریخ، مختلف آمرانہ ادوار کا گہرائی سے مطالعہ کریں، ساتھ ہی ساتھ معیشت، سیاست اور آئین میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں، موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ میڈیا کے شعبے سے وابستہ طلبہ سینسر شپ کے دور میں خبروں کو برتنے کا سلیقہ سیکھیں۔