آسٹریلوی میڈیا نے اگرچہ حملہ آور کی قومیت کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں لیکن مبینہ حملہ آور کا نام سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اس کی شناخت سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور الزام تراشی کی جانے لگی کہ مذکورہ نوجوان جس کا نام نوید اکرم ہے وہ بونڈائی حملے میں ملوث تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔
آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے مشہور بونڈائی ساحل پر اتوار کی شام یہودی کمیونٹی کی تقریب پر ہونے والے ’دہشت گردانہ‘ حملے میں جہاں 11 شہری ہلاک ہوئے وہیں ایک حملہ آور بھی مارا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ایک اور حملہ آور کو زخمی حالت میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
آسٹریلوی حکام نے تاحال کسی حملہ آور کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن اس حملے کے بعد آسٹریلوی میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ ایک حملہ آور کا نام نوید اکرم ہے۔
آسٹریلوی میڈیا نے اگرچہ حملہ آور کی قومیت کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں لیکن مبینہ حملہ آور کا نام سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اس کی شناخت سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بہت سے اکاؤنٹس نے، جن میں سے متعدد کا تعلق انڈیا سے بھی تھا آسٹریلوی میڈیا میں نشر کی جانے والی حملہ آور کی تصویر کے ساتھ ساتھ ایسی تصاویر بھی شیئر کیں جن میں ایک نوجوان کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جرسی پہنے دیکھا جا سکتا تھا۔
ان تصاویر کے ساتھ موجود پیغامات میں یہ الزام تراشی کی گئی کہ مذکورہ نوجوان جس کا نام نوید اکرم ہے وہ بونڈائی حملے میں ملوث تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ ان پیغامات میں حملہ آور نوید اکرم کو پاکستان کی ہمدرد یونیورسٹی کا گریجویٹ بھی قرار دیا گیا۔
ان الزامات کے بعد پاکستانی اکاؤنٹس کی جانب سے جوابی مہم میں انھیں فیک نیوز قرار اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا گیا۔
پاکستانی سیاست دان جان اچکزئی ایسی قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے ایکس پر لکھتے ہیں کہ جس حملہ آور کو نوید سے ملایا جا رہا ہے، اس کی اور حملہ آور کی جسامت بالکل فرق ہے۔
’اتنے خطرناک واقعے سے میرا نام جوڑنا، میرے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے‘
بی بی سی اردو نے نوید اکرم کو سوشل میڈیا پر تلاش کرکے ان سے بات کی ہے۔
آسٹریلیا سے بی سی سی اردو سے بات کرتے ہوئے نوید اکرم بتاتے ہیں کہ مجھے اتنا تو پتا چل گیا تھا کہ بونڈائی میں ایک واقعہ ہوا ہے تاہم یہ نہیں پتا تھا کہ کس نے کیا، کیوں کیا ۔۔۔ ’کچھ دیر میں میرے ایک دوست کی کال آئی اور اس نے کہا کہ تمھاری تصویر ٹوئٹر پر وائرل ہے اور تھیں حملہ آور کہا جا رہا ہے۔‘
نوید اکرم کہتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک ٹراما جیسا تھا۔۔۔ یہ ایک بہت خطرناک واقعہ ہے اور ’اتنے خطرناک واقعے سے میرا نام جوڑنا، میرے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے۔‘
نوید، یہودی کمیونٹی پر ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں اس واقعے اور اس میں اتنے لوگوں کے جان سے جانے کا دکھ ہے اس پر انھیں یہ جان کر گہرا صدمہ پہنچا ہے کہ ان کی تصویر کو شوٹر سے لنک کرکے پھیلایا جا رہا ہے اور وہ مسلسل سوچ رہے ہیں کہ یہ کس نے اور کیوں کیا؟
ان کا ماننا ہے کہ آسٹریلوی میڈیا میں یہ خبر آنے کے بعد کہ ایک حملہ آور کا نام نوید اکرم ہے، سوشل میڈیا صارفین نے ان کا نام یقیناً سرچ کرکے نکالا ہو گا اور ان کی پروفائل سے ان کی معلومات اور تصاویر ان کی اجازت کے بغیر کاپی کرکے پھیلائیں۔
’سوشل میڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے نوید اکرم کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان کا سوشل میڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی کسی کی بھی تصویر کو غلط مقصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اس کے نتائج اتنے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ آپ کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اور میں ایک ایسی مشکل صورتحال میں ہوں جس میں میری زندگی خطرے میں ہے۔‘
نوید کے مطابق وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔۔۔ ’میں گھر سے باہر نہیں جا پا رہا کہ میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ قریبی پولیس سٹیشن جا کر انھوں نے پولیس کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا ہے اورپولیس نے انھیں احتیاط کا مشورہ دیا ہے۔
نوید اکرم امید کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کی شناخت جلد از ظاہر ہو کیونکہ آسٹریلیا میں ان کی اہلیہ اور پاکستان میں ان کی فیملی اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں سارا وقت گھر پر نہیں رہ سکتا۔‘

اس سے قبل نوید اکرم نے فیس بک پر ایک پوسٹ اور پھر ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔
ان بیانات میں نوید اکرم نے جن کا پورا نام نوید اکرم نے بتایا تھا کہ اگرچہ وہ بھی آسٹریلیا میں ہی مقیم ہیں لیکن ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی تصویر کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں نوید اکرم شیخ ’بتاتے ہیں کہ میں آسٹریلیا میں 2018 میں آیا تھا اور یہاں آ کر میں نے ماسٹرز کی تعلیم حاصل کی ہے اور اب میں یہاں اپنی رینٹل کمپنی چلا رہا ہوں۔
انھوں نے نے اپنی فیس بک پروفائل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ گردش کرنے والی یہ تصویر بونڈائی واقعے میں ملوث شخص کی نہیں بلکہ میری ہے۔
اپنی پوسٹ میں نوید اکرم کا کہنا تھا کہ اُن کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس تصویر کو وائرل کر کے اُن کی سکیورٹی اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
پوسٹ میں لکھا تھاکہ ’یہ میں نہیں ہوں اور میں بالکل بے قصور ہوں اور جو کچھ ہوا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ کوئی میری تصویر کا غلط استعمال کر رہا ہے جس سے میری حفاظت، ساکھ اور صحت خطرے میں پڑ رہی ہے.‘
نوید اکرم نے لوگوں سے اپیل کی کہ ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلنے سے روکنے میں ان کی مدد کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا ہے ’براہ کرم اس غلط شناخت کو روکنے میں مدد کریں اس سے پہلے کہ یہ سنگین نقصان کا باعث بنے۔‘
آسٹریلوی حکام کیا کہتے ہیں؟
بونڈائی ساحل پر ہونے والے حملے کے بارے میں آسٹریلیا کے خفیہ ادارے کے سربراہ مائیک برگس کا کہنا ہے کہ یہ بتانا ابھی قبل از وقت ہے کہ آیا مشتبہ حملہ آور سکیورٹی اداروں کے ریڈار پر تھے یا نہیں۔ تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ ’ان میں سے ایک شخص کے بارے میں ہمیں علم ضرور تھا، لیکن اسے فوری خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا تھا، اس لیے اب ہمیں یہ جانچنا ہوگا کہ اصل میں کیا ہوا۔‘
اس سے قبل آسٹریلوی پولیس نے بتایا تھا کہ وہ ایک مشتبہ حملہ آور سے ’واقف‘ تھی، تاہم اس کے بارے میں 'انتہائی محدود معلومات' دستیاب تھیں۔ پولیس حکام کے مطابق فی الحال وہ واقعے سے متعلق بہت سی تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے، البتہ انھوں نے واضح کیا کہ یہ واقعہ ایک 'دہشت گردانہ حملہ' تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ حملہ آور کتنے تھے اور ان کا مقصد کیا تھا، جبکہ ہلاک ہونے والوں سے متعلق معلومات بھی متاثرہ خاندانوں کو اطلاع دینے کے عمل کے باعث فی الحال جاری نہیں کی جا رہیں۔ پولیس کے مطابق 'اس مرحلے پر یہ معلومات فراہم کرنا قبل از وقت ہوگا۔'
پولیس کمشنر میل لینین نے عوام، بالخصوص یہودی برادری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس حملے کی مکمل تحقیقات کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
آسٹریلوی حکام کی جانب سے تاحال حملہ آوروں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئیپاکستان کا اظہارِ افسوس
پاکستان نے سڈنی کے بونڈائی بیچ پر ہونے والے دہشت گرد حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم اس دہشت گرد حملے سے شدید رنجیدہ ہیں۔ آسٹریلیا کی حکومت اور عوام، بالخصوص زخمیوں کے لیے ہماری دعائیں ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’دہشت گردی ایک سراسر برائی ہے، انسانیت کے خلاف ناقابلِ معافی جرم۔ پاکستان روزانہ اس عفریت کا سامنا کرتا ہے، اس لیے ہم اس درد کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان آسٹریلیا کے ساتھ کھڑا ہے۔‘