تعلیم سب کے لیے ضروری ہے۔ آج کے دور میں جس کے پاس تعلیم نہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ لڑکے تو بہرحال ہر حال میں تعلیم حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو سوالیہ نشان بنا دیا جاتا ہے۔ ماضی سے اب تک ملک کے حالات تیزی سے بدلے لیکن لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے معاملے میں آج بھی کم ظرفی دکھائی جاتی ہے۔ ایک طرف پاکستان میں ڈاکٹر نگار جوہر جیسی کامیاب خواتین بھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت کے بل پر ملک کا نام روشن کیا اور آرمی میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب بیٹیوں کو گھروں میں بٹھا کر ان کو تعلیم نہ دلوانے والے لوگوں کی وجہ سے ملک کی ترقی میں رکاوٹ بننے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔
معروف اینکر پرسن حامد میر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک تصویر شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک دودھ بیچنے والا شخص اپنی موٹرسائیکل پر ہیلمٹ پہنے اپنی بچی کو سکول چھوڑنے جا رہا ہے۔ اس تصویر پر حامد میر نے کیپشن لکھا کہ:'' ابو دودھ بیچتے ہیں روزانہ صبح صبح گھر سے نکلتے ہیں تو پہلے اپنی پیاری بیٹی کو سکول ڈراپ کرتے ہیں سر پر ایک پرانا سا ہیلمٹ ضرور پہنتے ہیں بیٹی بھی ماسک پہن کر سکول جاتی ہے ذمہ دار باپ کی ذمہ دار ننھی بیٹی میرے وطن کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے #GirlsEducation''۔
یہ تصویر منہ بولتا ثبوت ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کو پسند کرنے والے کوئی بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی صرف پڑھے لکھے والدین ہی نہیں بلکہ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ افراد بھی بیٹیوں کو آگے بڑھنے دینا چاہتے ہیں۔ ان کو تعلیم حاصل کروانا چاہتے ہیں۔ بیٹیاں اپنے والد سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں۔ اگر والد ہی اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دیں تو یہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔
بیٹیوں کی پرورش والدین بہت دیکھ بھال کر کرتے ہیں، ان کو ہر کام سکھاتے ہیں۔ گھر داری کے تمام تر اصول سکھاتے ہیں۔ یہ معاشرے کی بقاء اور آنے والی نسل کے لیے ضروری ہے لیکن اگر گھروں میں بچیوں کی پڑھائی سے متعلق سنجیدگی کا اظہار کیا جائے تو ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا اور ہماری آنے والی نسلیں بھی تعلیم یافتہ ہوں گی۔ گھر کو مضبوط بنانے کے بارے میں ہر مرد سوچتا ہے لیکن بچیوں اور خواتین کی تعلیم و ہنرمندی کے بارے میں پہلے سے زیادہ اگر خیال کیا جائے تو پاکستان جلد ہی ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہوگا۔ بچیوں کو ان کے شوق کے مطابق تعلیم حاصل کرنے دی جائے، لیکن ماحول کا انتخاب اپنے حساب سے کیا جائے، کیونکہ تعلیم کے ساتھ عزت بھی ضروری ہے۔