ایک بے گھر مرد کو اپنی عمر سے کئی سال بڑی امیر خاتون کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے اور وہ ان کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ کیا یہ ایک سچے عشق کی کہانی ہے یا کچھ اور؟
ایک بے گھر مرد کو اپنی عمر سے کئی سال بڑی امیر خاتون کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے اور وہ ان کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ کیا یہ ایک سچے عشق کی کہانی ہے یا کچھ اور؟
80 سال کی کیرولن ہالینڈ ایک امیر بیوہ تھیں۔ وہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے خوبصورت اور پُرسکون قصبے کیوکس کے ایک ریزارٹ میں رہتی تھیں جب ان کی ملاقات اپنے سے 23 سال چھوٹے ڈیوڈ فوٹ کے ساتھ ہوئی۔
وہ ان کے پاس ان کے گھر کی اشیا کی مرمت کرنے اور دیگر کاموں میں مدد کے لیے آئے تھے۔ چند ہی ہفتوں میں وہ ایک جوڑا بن گئے اور انھوں نے اپنی محبت کا اعلان کر دیا۔
کیرولن نے کہا تھا کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ کسی اجنبی سے اتنی محبت کر سکتی ہیں یا کوئی رومانوی اور جنسی تعلق قائم کر سکتی ہیں۔
’اس کے خیال رکھنے والے رویے نے مجھے کچھ خاص دیا ہے۔ مجھے اس کی شخصیت سے پیار ہے۔ اور مجھے (وہ وقت) بالکل پسند نہیں جب وہ چلا جاتا ہے۔‘
ڈیوڈ نے مجھے بتایا تھا ’جتنا ہو سکتا ہے میں ان کا اتنا خیال رکھوں گا۔ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ کیرولن میری ہے اور میں اس بارے میں مذاق نہیں کرتا۔ میں رات کو زیادہ دیر تک باہر نہیں رہتا کیونکہ مجھے گھر میں کسی کے پاس جانا ہوتا ہے۔ میں آخر تک ان کے ساتھ رہوں گا۔‘
تاہم کیرولن کی بیٹیوں کو کچھ اور ہی نظر آ رہا تھا۔
ان کا ماننا تھا کہ ڈیوڈ ان کی والدہ کو پیسوں کے لیے دھوکہ دے رہا ہے اور اس سے ان کا دل ٹوٹ جائے گا، انھیں دکھ ہو گا۔
مجھے ڈیوڈ اور کیرولن کی کہانی اس لیے معلوم ہے کیونکہ میں انھی کی گلی میں رہتی ہوں۔ کیوکس میں زندگی آہستہ چلتی ہے اور لوگ اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔
یہاں ایک پشتہ ہے جو سمندر میں تقریباً ایک ہزار فٹ تک پھیلا ہوا ہے اور جب شام کے وقت روشنی مدھم پڑ رہی ہوتی ہے تو غروب ہوتے سورج کے سامنے آپ کو لہروں کے سائے نظر آتے ہیں۔
یہ عشق کی داستان کے لیے ایک بہترین جگہ ہے اور میں ڈیوڈ کی باتوں پر یقین کرنا چاہتی تھی لیکن کیرولن کے گھر والوں کی طرح مجھے بھی اس ساری صورتحال پر شک ہو رہا تھا۔
کیا کیرولن معاشی بدسلوکی کا شکار ہونے لگی تھیں، یعنی ان کی عمر اور جذبات کا فائدہ اٹھا کر ان سے پیسے بٹورے جانے والے تھے۔ اس اندیشے کا شکار 60 سال سے زیادہ عمر کی ہر پانچ میں سے ایک خاتون ہوتی ہے۔
کیرولن کی بھتیجی نے مجھے بتایا ’عمر کا فرق مجھے پریشان کر رہا تھا، وہ میرے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اس کی عمر کا کوئی شخص ایسا کیوں دکھائے گا کہ وہ ان (کیرولن) سے محبت کرتا ہے۔ سوائے اس وجہ کے کہ اسے رہنے کی جگہ چاہیے۔‘
میں اس کہانی کی پرتوں کو کھلتا دیکھنے کی ایک منفرد پوزیشن میں تھی۔ اس کہانی کا ہر کردار اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔ کیرولن کی بیٹیاں اپنے خدشات پر بات کرنے کی خواہاں تھیں جبکہ ڈیوڈ اور کیرولن کا ماننا تھا کہ ان کے بارے میں غلط رائے بن رہی ہے اور وہ اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے۔
میں پہلی مرتبہ ڈیوڈ سے بہت گرم جوشی سے ملی تھی۔ ایک پڑوسی نے مجھے گھر کی تزئین و آرائش کے کاموں کے لیے ان کا نام تجویز کیا جبکہ انھیں ڈیوڈ سے متعلق مقامی چرچ سے معلومات ملیں جہاں وہ باقاعدہ عبادت میں حصہ لیتے تھے۔ ڈیوڈ کے ساتھ کام کرنے والے ان کے تمام ساتھی انھیں پسند کرتے تھے۔ وہ ہارمونیکا اور گٹار بجاتے تھے۔وہ اچھا مزاح کرتے تھے اور اپنے ماضی کے بارے میں کُھل کر بات کرتے تھے۔
اس کہانی کے متعلق جتنی زیادہ مجھے معلومات مل رہی تھیں اتنا ہی میں یہ سمجھنے لگی کہ کیرولن کے گھر والے اس صورتحال سے پریشان کیوں ہیں۔
ڈیوڈ جب کیوکس آئے تھے تو وہ بے گھر تھے اور مشکل حالات میں رہ رہے تھے۔ جب وہ کیرولن کے گھر پہلی دفعہ آئے تو وہ اس وقت پُشتے کے ساتھ والی جگہ رات گزارتے تھے۔
انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ کرسٹل میتھ کے نشے کے عادی تھے اور اس لت کی وجہ سے وہ منشیات فروشی بھی کرتے تھے۔ میتھ کی عادت کی وجہ سے وہ وسوسے میں رہتے تھے اور اپنے ارد گرد ہر کسی پر شک کرتے تھے۔
اس حالت میں ایک مرتبہ انھیں پائپ بم بنانے کے جرم میں جیل بھی ہوئی تھی۔
پولیس کے مطابق وہ ممکنہ طور پر وال مارٹ ڈیپارٹمنٹل سٹور کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ ڈیوڈ کو آج بھی لگتا ہے کہ وال مارٹ سب لوگوں میں مائیکرو چپ لگانا چاہتا ہے۔
ڈیوڈ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے نشہ چھوڑ دیا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کافی شراب نوشی کرتے ہیں اور بھنگ پھوکتے ہیں۔
کیرولن کی بیٹیاں، سوزن اور سیلی، ڈیوڈ سے ملنے کے بعد اپنی والدہ کی شخصیت میں تبدیلی سے بہت خوفزدہ ہو گئی تھیں۔
سیلی نے کہا ’ایک افسانے کی دنیا کی طرح ہے، یہ بہت عجیب ہے۔ جیسے ہی وہ (ڈیوڈ) آتا وہ (کیرولن) ایک نوجوان کی طرح بن جاتیں۔ وہ عجیب طرح سے ہنسنا شروع کر دیتیں۔‘
ایک لمحے کے لیے بھی ان کی بیٹیوں کو اس بات پر یقین نہیں تھا کہ وہ جو دیکھ رہی ہیں وہ سچا پیار ہے۔ انھیں ایک تنہائی کا شکار ایسی بوڑھی خاتون نظر آ رہی تھی جسے ایک ساتھی کی ضرورت تھی، اور ایک چالاک اجنبی جو ان کا استعمال کرنا چاہتا تھا۔
وراثت کا سوال بھی اس کہانی میں آ رہا تھا۔ کیرولن اور ان کے وفات پا جانے والے خاوند جو کچھ ملین ڈالر مالیت کی جائیدادوں کے مالک تھے۔
انھوں نے مجھ سے پوچھا ’یہ ہماری خاندانی دولت ہے، میرے والدین نے اس پیسے کے لیے سخت محنت کی۔ کیا ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ناکام شخص کو یہ دے دی جائے؟‘
کیرولن کی بیٹیوں کا ماننا ہے کہ ڈیوڈ سے ملنے سے پہلے ہی وہ اپنی ذہنی صلاحیت کھو رہی تھیں۔ انھوں نے کوشش کی کہ اپنی والدہ کو ذہنی طور پر نااہل قرار دیں تاکہ وہ ان کے معاملات خود سنبھالیں۔
کیرولن نے مجھے بتایا ’انھیں لگتا ہے مجھے الزائمر ہے۔ ہاں، مجھے بہت ساری چیزیں یاد نہیں رہتیں، لیکن میں بہت تناؤ میں ہوں۔ میں اپنے فیصلے خود کر سکتی ہوں۔‘
ڈیوڈ کے ساتھ کیرولن کے تعلقات انھیں اپنی بیٹیوں سے دور کر رہے تھے۔ لیکن ان کا ماننا تھا کہ ان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی پسند کا ساتھی رکھیں۔ کیرولن نے کہا کہ ان کے بچوں نے اپنے والد کے مرنے کے بعد ان کا اس طرح خیال نہیں رکھا جیسا کہ ان کی ضرورت تھی۔
انھوں نے کہا ’ڈیوڈ سے پہلے وہ مجھ سے کبھی ملنے نہیں آتے تھے، واقعی کبھی نہیں۔‘
ان کی بیٹیاں اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ سوزن ان سے پانچ گھنٹے کی دوری پر رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں ان کی خواہش تھی کہ وہ ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتیں لیکن وہ اور سیلی دونوں اپنے بچوں کو پال رہی تھیں اور اس کے ساتھ ملازمت بھی کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں ’ہم نے پوری کوشش کی کہ انھیں ہر چیز کا حصہ بنائیں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کی والدہ ان کے ساتھ ان سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھیں۔
سوزن کے مقابلے میں سیلی اپنی والدہ کے زیادہ قریب رہتی تھیں۔ ڈیوڈ کے آنے سے پہلے وہ اپنی والدہ کو ان کے بینک اکاؤنٹس سمبھالنے اور ٹیکس ریٹرنز میں مدد کرتی تھیں۔ لیکن جب تعلقات بگڑے تو کیرولن نے ان معاملات پر اپنا کنٹرول واپس لے لیا۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد کیرولن نے ڈیوڈ کے ساتھ ایک قرض معاہدے پر دستخط کیے جس کی مدد سے ڈیوڈ نے اپنے لیے 40 ہزار ڈالر کی وین خرید لی۔ میں نے ان سے پوچھا اگر ڈیوڈ وین لے کر غائب ہو گیا تو کیا ہو گا، اس کی وجہ سے انھیں قرضہ واپس کرنا پڑ جائے گا۔ انھوں نے کہا انھیں اس سے فرق نہیں پڑتا اور انھیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹیوں کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
’جی، انھیں یہ لگتا ہے کہ وہ ڈیوڈ سے مجھے بچا رہی ہیں، لیکن ڈیوڈ وہ بہترین چیز ہے جو مجھے ملی۔‘
ڈیوڈ کی حقیقت کیا تھی؟ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ پورے دن کے کام کے بعد کیرولن کے پاس آئے، ڈیوڈ نے کیرولن کے لیے کھانا بنایا اور انھیں دوا لینے کا یاد دلایا۔ یہ وہ لمحات ہیں جنھیں دیکھ کر مجھے یقین آتا تھا کہ وہ واقعی کیرولن سے محبت کرتے تھے۔
لیکن میں نے گھر سے باہر قصبے میں بھی ان کا مشاہدہ کیا۔ وہ فخریہ انداز میں اپنے دوستوں کو کہتے تھے کہ بہت جلد انھیں کبھی کام نہیں کرنا پڑے گا۔
میں نے ڈیوڈ کے ماضی پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے گھریلو تشدد اور بیٹی کے ساتھ لاپرواہی کی تاریک تاریخ ملی۔
ایک ساتھی کے ساتھ ان کے تعلقات تب ختم ہوئے جب ڈیوڈ کو ان پر کسی اور کے ساتھ تعلقات کا شک ہوا جس کے بعد انھوں نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس سے پہلی والی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان کی بچی ڈیوڈ کی لاپروائی سے مرنے کے بہت قریب آئی تھی۔ اسی بچی کو بعد میں انھوں نے ایک جوڑے کو بیچ دیا اور پھر انھوں نے قانونی طور پر بچی کو گود لے لیا۔
جب اس ماضی کے بارے میں میں ڈیوڈ سے بات کرتی تھی تو وہ کہتے تھے یہ سب ماضی میں ہے، وہ اب چرچ جاتے ہیں اور انھوں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ وہ بہتر زندگی گزاریں گے۔ جب وہ اس شہر میں آئے تھے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا اور ان کے نزدیک کیرولن کے ساتھ ان کا رشتہ خدا کی طرف سے نشانی تھی کہ ایسا ہونا تھا۔
ڈیوڈ نے کہا ’دیکھو مجھ پر برکت ہوئی۔ میں انھیں چھوڑ نہیں سکتا، کیونکہ مجھے یہاں ان کے ساتھ ہونا تھا۔‘
لیکن ان کی کہانی جلد ہی ایک تلخ عروج کو پہنچنے والی تھی۔
قریب کے ایک قصبے میں کیرولن کا ایک پلاٹ تھا جس میں دو گھر تھے۔ اس کے باوجود کہ ان میں سے ایک گھر میں کیرولن کا نواسا اپنے گھر والوں کے ساتھ کرائے پر رہ رہا تھا، ڈیوڈ نے کیرولن کو ان گھروں کو بیچنے پر رضامند کر لیا تھا۔
اس پر کیرولن کی بیٹیاں سیخ پا ہو گئیں۔ انھیں یقین تھا کہ ڈیوڈ ان کی والدہ کی نازک ذہنی حالت کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جس میں ان کی والدہ حیران نظر آ رہی تھیں جب ڈیوڈ پراپرٹی ڈیلر کو دورہ کروا رہے تھے۔
کیرولن نے ڈیوڈ سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے مستقبل کے لیے اس پراپرٹی کے بیچنے سے حاصل ہونے والے چھ لاکھ ڈالر میں سے کچھ وہ انھیں دیں گی۔
یہ پراپرٹی جلد ہی بک گئی اور کیرولن کے نام چیک ایجنٹ کے پاس تھا جسے انھوں نے اٹھانا تھا۔ لیکن اسی لمحے انھیں کورونا ہو گیا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔
کیرولن نے ڈیوڈ کی صلاح پر عمل کرتے ہوئے ویکسین لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈیوڈ نے انھیں اس بات پر رضامند کر لیا تھا کہ ویکسین حکومت کی سازش کا حصہ ہے۔
جب انھیں گھر واپس بھیجا جا رہا تھا اس وقت کیرولن کی ذہنی اور جسمانی حالت اتنی بگڑ گئی تھی کہ ان کی بیٹیاں ان کی قانونی مختار بن گئیں جس سے انھیں والدہ کے معاشی معاملات پر اختیار مل گیا۔
جلد ہی کیرولن وفات پا گئیں۔ سوزن کہتی ہیں ’انھیں کورونا نے نہیں مارا۔ لیکن اس نے مدد نہیں کی کیونکہ ان کی صحت پہلے ہی خراب ہو رہی تھی۔‘
بیٹیوں نے ڈیوڈ کو کیرولن کے آخری دنوں میں ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی اور جب ان کی وفات ہوئی تو انھوں نے ڈیوڈ کو فون کر کے اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔ کیرولن کی آخری رسومات نہیں کی گئیں کیونکہ ان کی بیٹیاں مقامی چرچ سے ناراض تھیں، ان کے خیال میں انھوں نے ان کی کم مدد کی۔
سوزن اور سیلی کو اب بھی لگتا ہے کہ ان کی والدہ کا غلظ فائدہ اٹھایا گیا اور ڈاکٹرز اور پولیس سمیت کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔
وہ کہتی ہیں ’سب کے ہاتھ بندھے تھے، انھیں وہ نظر نہیں آ رہا تھا جو ہمیں نظر آ رہا تھا۔‘
برطانیہ میں لاکھوں لوگ ڈیمینشیا کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔ یہ بیماری انسان کو بہت کمزور بنا دیتی ہے۔ سوزن اور سیلی سے اپنی والدہ کے بارے میں خدشات سننے کے بعد میں نے بُڑھاپے اور اِس کی بیماریوں کے ماہر (جیری ایٹریشن) سے بات کی اور جو ان کی بیٹیوں نے مجھے بتایا۔
اس متعلق اور مالی بدسلوکی سے متعلق سوال کیے۔ بوڑھے لوگوں کے ساتھ مالی بدسلوکی امریکہ اور برطانیہ میں ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔
پین میموری سینٹر سے تعلق رکھنے والے ویل کارنیل میڈیسن کے ڈاکٹر مارک لیکس اور ان کے ساتھی ڈاکٹر جیسن کارلویش کے مطابق، جب بیماری یا عمر کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے تو مالی صلاحیت کم ہونے والی پہلی چیزوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔
وہ چاہتے ہیں اس عمل کی شناخت کی جائے جسے وہ ’ایج ایسوسی ایٹڈ فنانشل ونریبیلیٹی‘ کہتے ہیں یہ ان خطرناک رویوں کا نمونہ ہوتے ہیں جو ماضی میں کیے گئے انتخاب اور فیصلوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر کارلویش کہتے ہیں ’مالی فیصلے کرنا ذہن کے لیے بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں تھوڑی خرابی کو وجہ سے بھی آپ مالی غلطی کر سکتے ہیں جو ویسے آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ٹھیک سے کر لیتے ہیں۔‘ ڈاکٹرز نے مجھے بتایا کہ نیویارک میں ان کے کلینک میں آنے والے آدھے مریض وہ ہیں جن کے ساتھ مالی دھوکہ ہوا ہے۔
برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ’آور گلاس‘ بزرگ افراد کی ایک ہیلپ لائن چلاتی ہے جن کے ساتھ بدسلوکی ہوئی ہو۔ اس تنظیم کی پالیسی ڈائریکٹر ویرونیکا گرے کہتی ہیں کہ 2022 میں ان کی تنظیم کو بوڑھے لوگوں کو دھوکہ دے کر یا زورزبردستی سے 19 ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی اطلاع ملی ہے جو سال 2017 سے 2019 کی مدت میں چوری ہونے والے پیسے سے 50 فیصد زیادہ ہے۔
70 فیصد واقعات میں بیٹا یا بیٹی ملوث ہوتے ہیں۔ باقیوں میں جاننے والے، خیال رکھنے والے، نئے رومانوی ساتھی اور حتیٰ کہ پوتا، پوتی، نواسا، نواسی ملوث ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کیسوں کی پولیس کو اطلاع نہیں دی جاتی اور مثاثرین کو اس مالی دھوکے کے نقصانات کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
ویرونیکا گرے اسے چُھپا ہوا جرم قرار دیتی ہیں۔ ’بہت سارے لوگوں کو بڑی رقم کا نقصان ہوتا ہے، وہ اس پراپرٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جہاں وہ سالوں سے رہ رہے ہیں اور وہ بڑے قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔‘
کیرولین جیسے خاندانوں کے لیے، دماغی صلاحیت اور فیصلہ سازی کا معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔ اور یہ بھی کوئی غیر معمولی کہانی نہیں ہے، جیری ایٹریشن کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت اس طرح کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔
ڈیوڈ ایک بار پھر بے گھر ہو گئے ہیں لیکن ان کے پاس اب بھی وہ وین ہے جسے خریدنے میں کیرولن نے ان کی مدد کی تھی۔ اسے انھوں نے اسی مقام پر پارک کیا ہوا ہے جہاں وہ یہاں آنے کے بعد راتیں گزارتے تھے۔
ڈیوڈ اب ری سائیکل اشیا سے بنے زیورات اور فن پارے بیچ کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
آخری دفعہ جب میں نے انھیں دیکھا تو وہ نیم مدہوشی کی حالت میں لائٹر کو چلا اور بند کر رہے تھے اور خود کو بار بار بتا رہے تھے کہ وہ کیرولن سے محبت کرتے تھے۔
’جب وہ بلاتی میں آ جاتا، مجھے کیرولن کی یاد آتی ہے، میں کیرولن سے محبت کرتا تھا۔ میں اپنے چھوٹے سے مشن پر کوشش کر رہا تھا کہ انھیں میرے ہونے پر فخر ہو۔‘