احمد فرہاد بازیابی کیس: عدالتوں کی جانب سے خفیہ اداروں کے افسران کی طلبی کے بعد عموماً لاپتہ افراد کیوں منظرعام پر آ جاتے ہیں؟

پاکستان کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں جب ججوں کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو طلب کیا جاتا ہے تو لاپتہ افراد کی بازیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

یہ 24 مئی کی بات ہے جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی سے متعلق کیس میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہونے پر اس کیس میں 29 مئی کو ہونے والی آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر قانون، سیکریٹری دفاع و داخلہ، سکیٹر کمانڈر آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور ڈائریکٹر انٹیلیجنس بیورو کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

جج محسن اختر کیانی نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ اگر افواجِ پاکستان کے سینیئر افسران عدالت کو مطمئن نہ کر پائے تو وزیرِ اعظم اور پوری کابینہ کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔

عدالت کی جانب سے سامنے آنے والے ان ریمارکس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ میڈیا میں عدالت کی جانب سے دیے گئے جو ’ریمارکس رپورٹ ہوئے ہیں ان سے تکلیف ہوئی ہے، یہ عدالتوں کا مینڈیٹ نہیں۔‘

یاد رہے کہ اس کیس کی 20 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا تھا کہ احمد فرہاد آئی ایس آئی اور ایم آئی کی تحویل میں نہیں۔

تاہم 29 مئی کو ہونے والی سماعت پر آئی ایس آئی، ایم آئی یا آئی بی کے افسران تو عدالت میں پیش نہیں ہوئے مگر وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل کی وساطت سے عدالت کو آگاہ کیا کہ احمد فرہاد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کی حراست میں ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد فرہاد 15 مئی کو اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے تھے۔

اُن کی اہلیہ عین نقوی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے شوہر کو گذشتہ دو سال سے ’سنگین نتائج کی دھمکیاں‘ مل رہی تھیں۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اُن کے شوہر کو کہا جا رہا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے خلاف لکھنا چھوڑ دیں، ورنہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔

حکومت پاکستان کی جانب سے عدالت کو فراہم کی جانے والی تفصیلات کے مطابق احمد فرہاد کو ابتدائی طور پر دھیر کوٹ پولیس نے 29 مئی کو ہی درج ہونے والے ایک مقدمے میں کارِ سرکار میں مداخلت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا تاہم بعدازاں انھیں مظفر آباد میں اقدامِ قتل اور انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت درج ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ مقامی مجسٹریٹ کے احکامات پر احمد فرہاد کو دھیر کوٹ پولیس کی حراست سے مظفر آباد پولیس کی حراست میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس کیس میں جمعہ (31) مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالت احمد فرہاد کی بازیابی سے متعلق کیس کو صرف اُس وقت نمٹائے گی جب انھیں عدالت کے روبرو پیش کر دیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکمنامے میں یہ بھی کہا کہ جبری گمشدگیوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ورکنگ سے متعلق 24 مئی کے آرڈر میں پوچھے گئے عدالتی سوالات کو کسی اور مقدمہ میں زیر غور لا کر ان سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جمعہ کے روز اس کیس میں ہونے والی سماعت کے دوران بتایا کہ احمد فرہاد دو جون تک جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔

اس کیس میں درخواست گزار (احمد فرہاد کی اہلیہ) کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ اہلخانہ کی ملاقات احمد فرہاد سے کروائی گئی اور یہ کہ ’اُن (احمد) کی حالت اچھی نہیں تھی۔‘

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں جب بھی عدالتوں نے پولیس اور وزارت داخلہ کے افسران کی سرزنش سے آگے نکل کر خفیہ اداروں کے افسران کو طلب کیا تو لاپتہ افراد کی بازیابی کے امکانات بڑھتے نظر آئے۔

اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے کیسز کو کور کرنے والے صحافیوں کے مطابق ایسا متعدد بار دیکھنے میں آیا کہ ایک طرف عدالتوں نے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو طلبی کے نوٹسز جاری کیے اور دوسری طرف افراد یا تو اپنے گھروں کو واپس آ گئے یا پھر اُن کی کسی نہ کسی کیس میں گرفتاری ظاہر کر دی گئی۔

ستمبر 2022 میں بھی ایک ایسی ہی مثال اُس وقت سامنے آئی تھی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حسیب حمزہ نامی شہری کی گمشدگی سے متعلق پٹیشن پر سماعت کے دوران خفیہ اداروں کے افسران کو عدالت طلب کرنے کی بات کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے طے کی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اسلام آباد پولیس کے سربراہ، حسیب حمزہ کو لے کر عدالت پہنچ گئے تھے۔

اسی طرح ستمبر 2020 میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے افسر ساجد گوندل اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئے تھے جن کی اہلیہ نے ان کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے ساجد گوندل کی بازیابی کے لیے آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو نوٹس سے جاری کیے گئے اور اگلے ہی روز ساجد گوندل اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔

تاہم اس کے برعکس 2018 میں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا سے لاپتہ ہونے والے صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو عدالت طلب کیا لیکن اس کے باوجود بھی مدثر نارو بازیاب نہیں ہو سکے۔

گذشتہ برس نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی لاپتہ ہونے والے بلوچ طالب علموں کے حوالے سے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ طلب کیا گیا تھا لیکن اس طلبی کے باوجود تاحال متعدد بلوچ طالبِ علم بازیاب نہیں ہو سکے۔

احمد فرہاد کی بازیابی کیس سے متعلق 20 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جبری گمشدگیوں کے معاملے میں وزیر اعظم کو بھی طلب کیا گیا لیکن بظاہر اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔‘

جبری طور پر گمشدگی کے بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالتیں متعدد بار یہ ریمارکس دے چکی ہیں کہ ایسے معاملات میں جب سویلین ادارے یعنی پولیس خفیہ اداروں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تعاون مانگتی ہے تو اُن سے تعاون نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیے

’جبری گمشدگی کے واقعات کو روکنے کے لیے پارلیمان کردار ادا نہیں کر رہی‘

اس حوالے سے صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے جبری طور پر گمشدگی کے واقعات کو روکنے کے لیے پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔

انھوں نے کہا کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس حوالے سے کچھ کام ضرور ہوا تھا لیکن جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ عدالت کا ایک جج جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے نوٹس جاری کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

’عام تاثر یہی ہے کہ سویلین اداروں کے پاس شاید لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کے لیے وہ وسائل موجود نہیں جو فوج کے زیرِ انتظام خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔‘

انھوں نے کہا اسی لیے جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق جو درخواستیں دائر کی جاتی ہیں ان میں وزارتِ دفاع کو بھی فریق بنایا جاتا ہے۔

جبری گمشدگیوں کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ متعدد بار یہ ریمارکس دے چکی ہے کہ ’فوج کی قربانیوں سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہاں پر معاملہ قانون کی حکمرانی کا ہے اور فوج بھی آئین اور قانون کے ہی ماتحت ہے۔‘

احمد فرہاد کے مقدمے کی سماعت کے دوران جب عدالت نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے خفیہ اداروں کے قوانین جاننے کی کوشش کی تو وزیر قانون نے یہ کہہ کر اس سوال کا جواب ٹال دیا کہ اس معاملے کو پھر کسی مقدمے میں دیکھ کر لیں گے تاہم انھوں نے فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب انھیں شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس پر کچھ حلقوں کی جانب سے اس طرح کا ردعمل نہیں آتا، جس طرح کا آنا چاہیے۔

متاثرہ افراد لاپتہ افراد کمیشن کے بجائے عدالتوں سے کیوں رجوع کرتے ہیں؟

تصویر
Getty Images

جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اگر عدالت کسی حاضر سروس فوجی افسر کو پیش ہونے کا حکم دیتی ہے تو قانون کے مطابق یہ اس (افسر) کی ڈیوٹی ہے کہ وہ متعلقہ عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف بیان کرے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے فوجی حکام کی جانب سے عدالتی نوٹسز کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح اس کو اہمیت دینے کا تقاضا ہے۔‘

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد پر دیے گیے دھرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کے اسلام آباد کے آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر برگیڈیئر رمدے کو طلب کیا تھا اور وہ عدالتی حکم پر عدالت میں پیش بھی ہوئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے جن خفیہ اداروں کے افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں انھیں ہر صورت میں عدالت میں پیش کروائیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کا کمیشن بنایا ہوا ہے لیکن اس کمیشن کے پاس فوج کے خفیہ اداروں کو نوٹس جاری کرنے یا ان سے جواب طلب کرنے کا اختیار ہی نہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ لوگ کمیشن کی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ بظاہر یہی وجہ ہے کہ لوگ وہاں جانے کی بجائے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دس برس سے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اس ادارے کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.