ظہور احمد: اسلام آباد پولیس کے اہلکار اڈیالہ جیل سے رہا، عدالتی حکم نامے میں کیا کہا گیا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد کو مبینہ طور پر ایک غیر ملک سفیر کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں مقامی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد کو مبینہ طور پر ایک غیر ملکی سفیر کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں مقامی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا، جس کے بعد جمعے کے روز انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اے ایس آئی ظہور احمد کو جمعرات (30 مئی) کے روز مقدمے کی سماعت کے بعد فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اے ایس آئی ظہور احمد کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔

اب اس مقدمے کی تفصیلات سے پہلے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ عدالت نے ظہور احمد کو بظاہر سنگین سمجھے جانے والے کیس میں ریلیف کیسے دے دیا اور ظہور احمد نے دوران ٹرائل عدالت کو کیا بتایا تھا؟

عدالتی حکم نامے میں کیا کہا گیا؟

اس حکم نامے میں اپیل کندہ یعنی ظہور احمد کے وکیل کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے مؤکل پر غیر ملکی سفارت کاروں/ایجنٹ سے ملاقات کرنے اور انھیں خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا لیکن ٹرائل کورٹ میں ایک بھی خفیہ دستاویز کی تصدیق نہیں کی گئی۔

عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ روسی سفارت خانے میں تھرڈ سیکرٹری کے عہدے پر تعینات جس اہلکار کے ساتھ ظہور احمد کی ملاقات کے بارے میں کہا گیا، وہ ظہور احمد کے خلاف سنہ 2021 میں مقدمہ درج ہونے سے بہت پہلے پاکستان چھوڑ چکا تھا۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ سماعت کے دوران انھوں نے اس مقدمے کے تفتیشیافسر اور پراسیکوٹر سے کہا کہ وہ ملزم سے برآمد ہونے والی ایسی دستاویز بتا دیں جو ’کانفیڈنشل‘ ہونے کے ساتھ ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923کی دفعہ ¾ کے زمرے میں آتی ہوں جبکہ ان دونوں نے عدالت کی توجہ اس تھریٹ لیٹر کی طرف مبذول کروائی جو نیکٹا کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھا گیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ٹیکٹا کے خط میں دی گئی معلومات یا خود یہ دستاویز سیکرٹ دستاویزات یا معلومات کے زمرے میں نہیں آتیں۔

عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ ملزم کو سزا کم ہوئی اور اس فیصلے کے خلاف اپیل پر اتنی جلدی فیصلہ بھی متوقع نہیں، اس لیے ظہور احمد کی سزا معطل کی جاتی ہے۔

سب انسپیکٹر ظہور احمد کا عدالت میں بیان

دوران ٹرائل جہاں گواہان نے اس مقدمے میں بیانات قلمبند کروائے وہیں ظہور احمد نے دفعہ 342 کے تحت عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد کی ہدایت پر ایک جگہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے فوج کے ایک افسر کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا۔

عدالت میں دیے گئے بیان میں ظہور احمد نے مزید کہا کہ اس فوجی افسر کو اس بات کا دُکھ تھا اور پھر ان کی ہدایت پر خفیہ اداروں کے اہلکار 29 نومبر 2021 کو انھیں اٹھا کر لے گئے اور پھر 13 دسمبر 2021 کو رہا کر دیا۔

اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ رہا ہونے کے بعد انھیں اس وقت کے تھانہ گولڑہ کے انچارج نے اپنے دفتر طلب کیا اور پھر انھیں ایس ایچ او نے کمرے میں موجود نامعلوم افراد کے حوالے کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ افراد پہلے تو انھیں شہر کی سڑکوں پر گھماتے رہے اور پھر وہ انھیں ایف آئی کے دفتر میں لے گئے۔

ظہور احمد نے الزام عائد کیا کہ اس فوجی افسر نے، جس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، نے ان سے بدلہ لینے کے لیے یہ کہانی گھڑی تھی۔

خفیہ
Getty Images
گرفتار پولیس اہلکار اے ایس آئی ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا

معاملہ تھا کیا؟

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکار کے خلاف یہ مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 13 دسمبر 2021 میں درج کیا گیا تھا جس کے بعد اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے انھیں تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد مقامی عدالت کی جانب سے تین سال قید کی سزا سُنائے جانے کے بعد سےراولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں زیرِ حراست رہے۔

پولیس اہلکار اے ایس آئی ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے کا اندراج 13 دسمبر 2021 کو کیا گیا تھا جبکہ 14 دسمبر2021 کو ملزم کو پہلی بار ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی وِنگ کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق گولڑہ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر اے ایس آئی کو خفیہ دستاوزات یا معلومات ’غیر ملکی سفیر/ایجنٹ‘ کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ باوثوق ذریعے کی جانب سے بتایا گیا کہ اے ایس آئی گولڑہ ظہور احمد ایک غیر ملکی سفیریا ایجنٹ سے ملاقات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ایف آئی آر میں متعلقہ شخص کی سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا کا رجسٹریشن نمبر بھی درج تھی اور ساتھ لکھا گیا کہ اے ایس آئی کی اس ملاقات کا مقصد خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنا تھا جو کہ ملکی مفاد کے خلاف ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ اے ایس آئی نے غیر ملکی سفیر یا ایجنٹ سے میٹرو بس سٹیشن کے پاس جناح ایونیو پر ملنا تھا۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنا پر ایک ٹیم تشکیل دی گئی جو وہاں پہنچی۔

بتایا گیا کہ وہاں موجود ذریعے نے تصدیق کی کہ ایک ٹویوٹا کرولا گاڑی، جس کے شیشے کالے تھے، میں اے ایس آئی کو کہیں لے جایا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق کچھ دیر بعد وہی ٹویوٹا کرولا اے ایس آئی کو واپس اسی مقام پر اتار کر چلی گئی جس کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم نے انھیں گرفتار کر لیا۔

ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اے ایس آئی کے پاس دو فون تھے اور اُن کے ہاتھ میں ایک لفافہ بھی تھا لیکن وہ غیر ملکی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقات کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکے۔

ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ تھا کہ ملزم نے موقع پر ہی انکشاف کیا کہ وہ غیر ملکی سفیر/ایجنٹ کو خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنے کے بدلے پیسے لے رہے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بادی النظر میں اے ایس آئی کا یہ اقدام 1923 کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور انسداد کرپشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم تھا۔

ایف آئی اے کی ٹیم کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ اے ایس آئی کی تحویل سے 50 ہزار کیش، اے ٹی ایم کارڈز اور یو ایس بی بھی برآمد ہوئی۔

اس سے قبل اسی سال 30 نومبر کو اے ایس آئی کی مبینہ گمشدگی کی خبریں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں تاہم پولیس نے ان کی گمشدگی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس کے بعد ان کے فون سے ان کی اہلیہ کو ایک پیغام موصول ہوا تھا کہ وہ مری گئے ہوئے ہیں اور دو روز بعد گھر واپس پہنچ گئے تھے۔

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.