ہیٹ ویو: پاکستان اور انڈیا میں ’انسانی وجود کا مسئلہ‘ بننے والی گرمی سے بڑے شہر کیوں متاثر ہو رہے ہیں؟

پاکستان اور انڈیا میں اس وقت قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو درجہِ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور اس صورتحال کا سامنا دور دراز صحرائی علاقوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
heat
Getty Images

پاکستان اور انڈیا میں اس وقت قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو درجہِ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور اس صورتحال کا سامنا دور دراز صحرائی علاقوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔

اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو ٹھیک طرح سے علم بھی نہیں۔

جمعے کے روز شدید گرمی کے باعث انڈیا کی ریاست بہار میں کم از کم 14 جبکہ اڑیسہ میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم اس سال انڈیا میں ہیٹ ویو سے کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں اس بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔

پاکستان میں شدید گرمی کا آغاز مئی کے وسط سے ہی ہو چکا تھا۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ 23 مئی سے ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں ہائی پریشر کی موجودگی کے سبب گرمی کی لہر مئی کے اواخر تک جاری رہ سکتی ہے۔

گذشتہ ایک ہفتے سے پنجاب، سندھ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، خیبر پختونخوا، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجۂ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ لاہور میں درجۂ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔

درجۂ حرارت اگر صرف 32 ڈگری سے 40 ڈگری کے درمیان ہو تو ہیٹ کریمپس اور گرمی کے باعث توانائی میں کمی کا خطرہ ہو جاتا ہے۔ 40 سے زیادہ کا مطلب خطرہ ہے۔ بہت زیادہ درجہ حرارت میں ہیٹ سٹروک، آرگن فیلیئر تک کا خطرہ بھی ہو جاتا ہے۔

موسم
Getty Images

پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی شدید گرمی ہے۔ گذشتہ دنوں دلی کا درجہ حرارت 52 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا۔ پڑوسی ریاست ہریانہ کے روہتک اور حصار شہر میں درجۂ حرارت 48 ڈگری سے زیادہ رہا۔

اترپردیش کے شہر جھانسی میں 28 مئی کو درجہ حرارت 49 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ پچھلے ایک ہفتے سے پورا شمالی انڈیا شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔

بیشتر مقامات پر درجہ حرارت معمول سے 5 سے 10 ڈگری زیادہ چل رہا ہے۔ ماحولیات سے متعلق ایک تنظیم ’کلائمیٹ ٹرینڈز‘ کی سربراہ آرتی کھوسلہ نے گرمی کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’درجہ حرارت معمول کی گرمی میں 5 سے 10 ڈگری زیادہ ہونے کا رحجان انتہائی تشویشناک ہے۔‘

شدید گرمی کی لہر انڈیا کے لیے ایک ماحولیاتی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ آرتی کھوسلہ کا مزید کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو دنوں سے دلی کا جو درجہ حرارت رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ وجود کا مسئلہ ہے۔‘

انڈیا
Getty Images

یہ بھی پڑھیے

مغربی اور شمالی انڈیا میں مئی اور جون میں ہمیشہ موسم گرم ہوتا ہے’ لیکن اس بار جیسی گرمی پڑی ہے ویسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ بڑے بڑے شہروں میں بجلی کے زیادہ استعمال سے جگہ جگہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کئی علاقوں میں پانی کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ مختلف شہروں سے لو، ہیٹ سٹروک اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی خبروں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ہماچل اور کشمیر کے جنگلوں میں کئی جگہ آگ لگ گئی ہے۔

دلی میں شدید گرمی کے سبب گھروں میں روزانہ آگ لگنے کے سینکڑوں واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ بیشتر سکول بند کر دیے گئے ہیں اور لوگوں کا دن میں گھروں سے باہر نکلنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں کھلی جگہوں پر کام کرنا اور کہیں آنا جانا بھی خطرناک ہو گیا ہے۔

گرمی
Getty Images

امریکہ کے محکمہ موسمیات ’ایکیو ویدر‘ کے سربراہ ڈاکٹر جوئل ‏مائر کہتے ہیں کہ ’دنیا میں اس وقت جو درجہ حرارت چلتا آ رہا ہے اس میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کا اثر الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہو گا۔ انڈیا اور پاکستان جیسے خطوں میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گا۔‘

ڈاکٹر مائر مزید کہتے ہیں کہ ’شدید گرمی کی صورتحال پاکستان، انڈیا اور بعض صحرائی خطوں میں جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے، تشویش کا باعث ہے۔ ان خطوں میں اس وقت ہم جو ریکارڈ گرمی دیکھ رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے خاص طور سے کم عمر کے لوگوں، بزرگوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔‘

پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سی ہی شہریوں کو خبردار کیا تھا۔ اس کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کی ہدایت جاری کر دی تھی۔

این ڈی ایم اے نے ہیٹ ویوو گائڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔ شدید گرمی ہوتی ہے تو لوگ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو روزی روٹی کے لیےباہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔

ماحولیاتی امور کے ماہر نوین کھڑکا کا کہنا ہے کہ ’یہ ہیٹ ویو یعنی شدید گرمی کی لہر اور ایکسٹریم ویدر پیٹرن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’ہمارے شہروں، ہمارے گھروں میں جس طرح کا انفراسٹرکچر ہے اور جس طرح کی ان کی بناوٹ ہےوہ اس طرح کے بدلتے موسم کے لیے موزوں نہیں ہیں۔‘

گرمی
Getty Images

تو پھر شہروں میں قیامت خیز گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ اربن پلاننگ اور عمارتوں کی تعمیر میں ماحول دوست یا اِیکو فرینڈلی طریقے رائج کیے جائیں۔ جیسا کہ کراچی کے گرین آفس کمپلکس، انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر، اور اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں اپنائے گئے ہیں۔

آبادیوں کے اندر گرین سپیسز، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے باقاعدہ انتظام کے ساتھ ساتھ سولر پینلز کی تنصیب، تجارتی، تفریحی اور دیگر شہری سہولتوں کی رہائشی علاقوں کے قریب فراہمی بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کے اندر اور باہر ہریالی جیسے اقدامات گرمی کی شدت کو خاصی حد تک کم کر سکتے ہیں۔

عمارتوں میں ماحول دوست اور اینرجی ایفیشینٹ کنسٹرکشن میٹریل کا استعمال اور روشنی اور تازہ ہوا کی آمد و رفت یقینی بنانے کے لیے گرین بلڈنگ کوڈ پرووِیژنز سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

کلائمیٹ چینج سے متعلق پیرس ایگرِیمنٹ کا ایک فریق ہونے کے ناطے پاکستان نے پالیسی اور بلڈنگ ریگیولیشنز کی حد تک مختلف اقدامات کیے ہیں، مگر عمل درآمد کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پاکستان، انڈیا میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں لیکن نئی بات یہ ہے کہ ہر سال درجہ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مئی میں جون جولائی کی گرمی اور وہ بھی 50 ڈگری سے زیادہ بہت تشویش کی بات ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ان کا سامنا کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کل ماحولیاتی قیامت سے گزرنا ہو گا۔

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.