پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں اضافہ: ’جو کوئی بھی فری لانسنگ میں آیا اسے واپس جاتے نہیں دیکھا‘

آئی ٹی کی وزارت کی جانب سے بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے جانے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں گذشتہ دو سالوں (جولائی سے اپریل) کی نسبت آئی ٹی کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ تو آخر یہ حالیہ گروتھ کی وجہ کیا ہے اور کیا پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ اپنی صلاحیت کے مطابق نتائج دے رہا ہے؟ انھی چند سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے اس شعبے سے جُڑے چند لوگوں سے بات کی ہے۔
IT Sector
Getty Images

’میں نے بہت بڑا رسک لیا اور اپنی بیٹی کی یونیورسٹی فیس جو بچا کر رکھی ہوئی تھی اسے استعمال کرتے ہوئے اپنا کاروبار شروع کیا۔‘

کووڈکے بعد جب ڈاکٹر سائرہ صدیق نے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے ساتھ صرف چار لوگ تھے مگر آج نہ صرف 100 سے زیادہ لوگ ان کے لیے پاکستان میں کام کرتے ہیں بلکہ اُن کا کاروبار مشرق وسطی تک پھیل چُکا ہے۔

آئی ٹی وزارت کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گذشتہ سات برسوں میں سالانہ تقریباً 26 فیصد کی رفتار سے ترقی کی ہے اور اسی دوران ہی ڈاکٹر سائرہ کے کاروبار کو بھی وسعت ملی۔

bbc
BBC
ڈاکٹر سائرہ صدیق نے آئی ٹی کے شعبے میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے ساتھ صرف چار لوگ تھے

آئی ٹی کی وزارت نے حال ہی میں یہ اعلان کیا کہ انھوں نے گذشتہ سال اپریل کے مقابلے میں رواں سال اپریل میں آئی ٹی برآمدات میں 62.3 کا اضافہ ریکارڈ کیا۔

ملکی معیشت کا بُرا حال، آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکس لگنے کی چہہ مگوئیاں اور خسارے کی شہ سُرخیوں کے بیچ کسی شعبے کی برآمدات میں اضافہ ہونا یقیناً خوش آئند ہے۔

آئی ٹی کی وزارت کی جانب سے بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے جانے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں گذشتہ دو سالوں (جولائی سے اپریل) کی نسبت آئی ٹی کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

تو آخر یہ حالیہ گروتھ کی وجہ کیا ہے اور کیا پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ اپنی صلاحیت کے مطابق نتائج دے رہا ہے؟ انھی چند سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے اس شعبے سے جُڑے چند لوگوں سے بات کی ہے۔

bbc
BBC

آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کی وجوہات کیا ہیں؟

bbc
BBC
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ

گذشتہ سال جولائی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے ذریعے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے نام سے ایک سول ملٹری باڈی قائم کی جس کا بنیادی مقصد تھا ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانا لیکن وقت کے ساتھ اس کے مقاصد میں مختلف سیکٹرز میں اصلاحات لانا،انتظامی امور دیکھنا، پالیسی سازی اور محکموں کے درمیان رابطہ کاری کو بہتر بنانا وغیرہ شامل ہوگیا۔

آئی ٹی اُن پانچ شعبوں میں سے ایک ہے جس پر ایس آئی ایف سی نے خاص توجہ دینی تھی۔ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ کے مطابق اس شعبے میں برآمدات میں اضافے کی ایک اہم وجہ پالیسی میں تسلسل ہے۔

اسی پر مزید بات کرتے ہوئے شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ ایس آئی ایف سی کی وجہ سے نہ صرف پالیسی میں تسلسل رہا ہے بلکہ فیصلہ سازی کا عمل بھی بہتر ہوا ہے کیونکہ ملٹری قیادت اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت سب فریقین کی آرا شامل ہوتی ہیں۔

آئی ٹی کے شعبے میں برآمدات کرنے والی کمپنیوں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’وہ (کمپنیاں) پہلے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں صرف اپنی آمدن کا 35 فیصد رکھ سکتے تھے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ اکتوبر 2023 میں اس حد کو بڑھا کر 50 فیصد کرنا ایک اچھا اقدام تھا جس سے برآمدات میں اضافہ ہوا۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین زوہیب خان کے مطابق آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافے کی وجہ پالیسیوں میں تسلسل ہے جس سے انڈسٹری میں یہ پیغام گیا کہ حکومتیں آنے جانے سے پالیسی تبدیل نہیں ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حالیہ گروتھ میں ’ایس آئی ایف سی کا ایک بہت بڑا کردار ہے اور ایس آئی ایف سی کے ذریعےجن حکومتی محکموں اور افراد نے اس میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ان سب کو یہ پورا کریڈٹ جاتا ہے۔‘

اس کے برعکس ڈیجیٹل پیمنٹ اور بینکنگ کی ملٹی نیشنل کمپنی آئی ٹو سی (I2C) کے بانی اور سی ای او عامر وائن کے مطابق حکومت نے بے شک آئی ٹی کے شعبے کے لیے کوئی منفی پالیسی نہیں متعارف کروائی لیکن برآمدات میں اضافے کی وجہ کوئی منظم پالیسی نہیں بلکہ یہ ترقی انڈسٹری میں قدرتی طور پر ہوئی ہے۔

’جو کوئی بھی فری لانسنگ میں آیا اسے واپس جاتے نہیں دیکھا‘

عامر وائن کے مطابق آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے پیچھے وہ تمام فری لانسرز شامل ہیں جنھوں نے اس شعبے میں اپنی سروسز بیرون ممالک فراہم کیں اور وہ یہ رقم پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔

ہم نے جب آئی ٹی برآمدات کے اعداد و شمار کا 2015 سے جائزہ لیا تو پتا چلا کہ عمران خان کی حکومت میں اور بالخصوص کووڈ کے بعد سے جب اس شعبے میں پوری دنیا میں ایک بوم آیا تب سے پاکستان میں بھی اس کے مثبت اثرات دیکھے گئے۔

پاکستان میں آئی ٹی کی برآمدات میں مالی سال 2021 میں مالی سال 2020 کی نسبت 46 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو اب تک کا سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔

کورونا وبا کے بعد جب لوگ گھروں سے کام کرنے پر مجبور ہوئے اسی دوران پاکستان میں فری لانسنگ میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت ملک میں فری لانسرز کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے جو آئے روز بڑھ رہی ہے۔

bbc
BBC
ایمن سروش 2010 سے فری لانسنگ کر رہی ہیں

ایمن سروش 2010 سے فری لانسنگ کر رہی ہیں اور ان کے مشاہدے میں ’جو انسان بھی فری لانسنگ میں آیا میں نے اس کو کبھی واپس جاتے نہیں دیکھا‘

فری لانسنگ میں سہولتوں کا ذکر کرتے ہوئے ایمن کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت میں کتنے کلائنٹس کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں، کس جگہ سے کام کرنا چاہتی ہوں اور سب سے بڑھ کر کام کے ساتھ ساتھ میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر لیتی ہوں اور میری آمدن ڈالرز میں آتی ہے۔‘

آئی ٹی کے ماہر عامر وائن کے مطابق نہ صرف فری لانسرز کی تعداد میں اس دوران اضافہ دیکھا گیا بلکہ چار سے پانچ لوگوں والی چھوٹی کمپنیوں کی تعداد بھی کووڈ کے بعد بڑھی جنھوں نے بیرون ممالک سے آئی ٹی پراجیکٹس پکڑے اور بغیر ٹیکس دیے ڈالر کمائے۔

’بیٹی کی یونیورسٹی فیس سے اپنا کاروبار شروع کیا‘

bbc
BBC
ڈاکٹر سائرہ

ڈاکٹر سائرہ صدیق کی کمپنی کا شمار ان ٹیکنالوجی کی سٹارٹ اپ کمپنیوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد اب ملک میں دس ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ان کا بزنس ماڈل بھی کافی دلچسپ ہے کیونکہ انھوں نے صحت جیسی بنیادی سہولت کو لوگوں کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔

’میں نے بہت بڑا رسک لیا اور اپنی بیٹی کی یونیورسٹی کی جو فیس بچا کر رکھی ہوئی تھی اسے استعمال کرتے ہوئے اپنا کاروبار شروع کیا۔‘

ڈاکٹر سائرہ نے بتایا کہ کیسے انھوں نے چار لوگوں اور تین کُرسیوں کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا۔ ٹیلی میڈیسن میں تو کچھ سال پہلے بھی کئی کمپنیاں کام کر رہی تھیں مگر ڈاکٹر سائرہ نے اس کے علاوہ ایسا سافٹ ویئر بنایا جس کی ضرورت ہسپتالوں اور ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کو پڑتی ہے۔

ڈاکٹر سائرہ کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈیجیٹائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اس کی اتنی ڈیمانڈ نہیں لیکن انھیں بیرون ممالک اس کے کئی گاہک مل گئے۔

پاکستانی ہسپتالوں میں مریضوں کی بے پناہ آمد ورفت کے باعث ڈاکٹر سائرہ کا ماننا ہے کہ اُن کے مینیجمنٹ سسٹمز اتنے پختہ ہوگئے کہ وہ باہر کی مارکیٹ میں اچھے نتائج دینے لگے۔

حال ہی میں انھوں نے اپنے دفاتر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کھولے ہیں۔ میرے پوچھنے سے پہلے ہی انھوں نے خود بتا دیا کہ ’شُکر ہے بیٹی کو سکالرشپ مل گئی اور مجھے جو احساس تھا کہ میں نے کچھ غلط کیا وہ بھی ختم ہو گیا۔‘

آئی ٹو سی کے سی ای او عامر وائن کا ماننا ہے کہ آئی ٹی کا مستقبل اسی کام میں ہے جو ڈاکٹر سائرہ کر رہی ہیں یعنی ایسا سافٹ ویئر بناؤ جس کی سبسکرپشن لینا پڑے یہ ایسے ہی ہے جس طرح ہم نیٹ فلکس یا یوٹیوب کی سبسکرپشن لیتے ہیں۔

’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اگر نہ اپنایا گیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے‘

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی مالی سال 2023 میں ڈیجیٹلی فراہم کی گئی سروسز کی برآمدات کا حجم 257 ارب امریکی ڈالر تھا۔

یقیناً پاکستان کا موازنہ انڈیا جیسی آئی ٹی سپر پاور سے نہیں کیا جا سکتا لیکن آس پاس کے ممالک جیسا کہ ملائیشیا، فلپائن اور ویتنام کی بھی آئی ٹی برآمدات میں پچھلے چند سالوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

عامر وائن کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جو مہارت، ہنر یا صلاحیتیں فری لانسرز کے پاس ہیں وہ اتنی جدید نہیں جیسا کہ لوگو ڈیزائن یا ویب سائٹ بنا دینا اور جلد ہی ان ہنرکو مصنوعی ذہانت ناپید کردے گی۔

سید ارسلان علی شاہ نے بطور فری لانسر ہی کام شروع کیا مگر 2015 میں انھوں نے ایبٹ آباد میں ’کنیکٹڈ پاکستان‘ کے نام سے ایک ٹیکنالوجی کی کانفرنس کرائی جس کا مقصد لوگوں میں آئی ٹی سے متعلق شعور اجاگر کرنا تھا۔

bbc
BBC

ارسلان کے مطابق 600 لوگوں نے اس میں شرکت کی اور 2023 میں ہونے والی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’تین دنوں میں 60 ہزار افراد نے شرکت کی۔‘

ان کا ماننا ہے کہ یقیناً وقت کے ساتھ شعور تو بڑھا ہے لیکن ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اگر نہ اپنایا گیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔‘

پاکستان میں ’انٹرنیٹ آزاد نہیں‘

فری لانسر ایمن سروش کا ماننا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی تو گذشتہ سالوں میں بہت بہتر ہوئی ہے لیکن ’کبھی بھی سیاسی عدم استحکامکی وجہ سے انٹرنیٹ کو بند کر دیا جاتا ہے یا کچھ ویب سائٹس ہیں جن پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔‘

bbc
BBC

اس بندش کی وجہ سے ایمن کے مطابق ’ہمارا کام متاثر ہوتا ہے اور ای کامرس بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔‘

انسانی حقوق، جمہوریت اور دنیا بھر میں سیاسی آزادی جیسے موضوعات پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی 2023 کی انٹرنیٹ کی آزادی پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ’انٹرنیٹ آزاد نہیں۔‘

فریڈم ہاؤس نے اپنی سالانہ رپورٹ کے ذریعے دنیا کے 70 ممالک میں انٹرنیٹ کی آزادی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات، سینسرشپ اور صارفین کے حقوق کے استحصال کی بنیاد پر ممالک کو 100 میں سے سکور دیا جاتا ہے۔

2023 کی فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے تحت پاکستان کو 100 میں سے 26 نمبر دیے گئے ہیں۔ انڈیا میں انٹرنیٹ جُزوی طور پر آزاد ہے جبکہ کینیڈا جیسے ملک کو 100 میں سے 88 نمبر دیے گئے ہیں اور اُس کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ آزاد ہے۔

اس حوالے سے جب وزیر مملکت شزہ فاطمہ سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ملک میں کبھی بھی انٹرنیٹ نہیں بند ہونا چاہیے، چاہے وہ براڈ بینڈ موبائل ہے چاہے وہ فکسڈ لائن ہے اور نہ ہی کوئی پلیٹ فارم بند کرنے کی ضرورت ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک میں کبھی کبھی سکیورٹی صورتحال ایسی آتی ہیں جہاں ہمیں یہ قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔‘

شزہ فاطمہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سائبر سکیورٹی کی صلاحیت کو بڑھانے پر کام کر رہا ہے جو کہ ’بہت اچھی نہیں‘۔ اُن کو یہ امید ہے کہ جب اس حوالے سے صلاحیت بہتر ہوجائے گی تو اس قسم کی پابندیاں لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

bbc
BBC

25 ارب ڈالر کی آئی ٹی برآمدات کا ہدف کیا حاصل ہو پائے گا؟

رواں سال مارچ میں حکومت پاکستان کے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ’آئی ٹی برآمدات کو 25 بلین تک پہنچانے کا ہدف ہے۔‘

چیئرمین پاشا زوہیب خان پُرامید ہیں کہ حکومت پاکستان کا پاکستانی معیشت کو ڈیجیٹائز کرنے کا پروگرام اچھے نتائج لائے گا مگر ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پروگرام میں اُن لوگوں کو شامل کیا جائے جنھوں نے پاکستان میں یا پاکستان جیسے متوسط آمدن والے ممالک میں ڈیجیٹل ٹرانسفورمیشن میں کام کیا ہو۔

زوہیب خان نے اس پر بھی زور دیا کہ ’ہمیں ایک فری لانسر ملک نہیں بننا بلکہ ہمیں مزید سسٹمز لمیٹڈ اور نیٹ سول جیسی کمپنیاں بنانی ہیں۔‘

اسی سلسلے میں وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ تمام ریگولیٹری مسائل کو حل کرنے پر کام کیا جارہا ہے جو سٹارٹ اپس کو درپیش ہیں۔

آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے ہنر اور مہارت سے متعلق شزہ فطمہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ بچوں کو آرٹیفیشل انٹیلجنس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، بلاک چین جیسی ہائی ٹیک سکلز پر تربیت دیں۔‘

زوہیب خان کا ماننا ہے کہ ایڈوانس ٹیکنالوجی پر ہنر سکھانے کے لیے جو ایک انسان پر خرچہ آتا ہے وہ بہت زیادہ آتا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اسی کے مطابق بجٹ کا تعین کرے۔

پاکستان میں وزارت تعلیم سے منسلک اور تعلیم میں آئی ٹی کے استعمال پر برسوں سے کام کرنے والے ذوالفقار قزلباش کا ماننا ہے کہ آئی ٹی کو بچوں کے نصاب میں کم عمری میں ہی شامل کر دینا چاہیے۔

ذوالفقار قزلباش کا کہنا تھا کہ ’ہم 30 سے 40 ہزار آئی ٹی گریجویٹس ہر سال بنا رہے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کہ اُن میں سے صرف 10 فیصد ایسے ہیں جنھیں ہائی ٹیک پراجیکٹس ملتے ہیں۔‘

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذوالفقار قزلباش کے مطابق دیگر حکومتی پروگراموں کے ذریعے سکول سے ہی بچوں کی آئی ٹی سکلز پر کام کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق حکومت کی نیشنل ڈیجیٹل ایجوکیشن اینڈ انوویشن سٹریٹیجی کے تحت ’پراجیکٹ بیسڈ لرننگ‘ متعارف کرائی گئی ہے اور اس سلسلے میں وزارت تعلیم کا آئی ٹی کی وزارت کے ساتھ کام کرنا خوش آئند ہے۔

bbc
BBC
کنیکٹڈ پاکستان کے بانی سید ارسلان علی شاہ

کنیکٹڈ پاکستان کے بانی سید ارسلان علی شاہ کا ماننا ہے کہ آئی ٹی میں ایسے بہت سے شعبے ہیں جن میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے جیسے کہ گیمنگ، اینیمیشن وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ فری لانسرز کو اپنی سروسز کو بیچنے کا طریقہ بھی آنا چاہیے کیونکہ ان کا مقابلہ دنیا میں بہت سے ایسے فری لانسرز سے ہوتا ہے جو اس کام میں ماہر ہوتے ہیں۔

حکومت کا ’ڈیجی سکلز‘ ایک ایسا ٹریننگ پروگرام ہے جس کے ذریعے وزیر مملکت شزہ فاطمہ کے مطابق فری لانسرز کو اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے میں مدد ملے گی۔

ہم ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں چند سیکنڈ کی ٹک ٹاک ویڈیو اپنے دیکھنے والے کو اُس محدود ٹائم میں اگر قید نہ کر پائے تو وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے دور میں ہر شعبے میں ترقی کے لیے انویشن یا جدت چاہیے۔

گلوبل انویشن انڈیکس میں پاکستان 88 ویں نمبر پر ہے۔ بےشک پچھلے چار سالوں میں اس کی رینکنگ میں بہتری آئی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی’ان پُٹ رینکنگ‘ بتدریج بُری رہی ہے۔

یعنی اچھا آؤٹ پٹ یا پراڈکٹ دینے کے لیے جو پرائمری یا انتظامی سطح پر ایک اچھا ماحول چاہیے وہ پاکستان میں نہیں پایا جاتا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ’ کریئٹو آؤٹ پٹ‘ گذشتہ چند سالوں میں بہتر ہوئی ہے۔

آئی ٹی کے کئی ماہرین کا جہاں ماننا ہے کہ برآمدات میں 25 ارب کا حکومتی ہدف حقیقت پسندانہ نہیں وہیں چند ماہرین کا خیال ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان کو اس شعبے میں بالخصوص اپنی برینڈنگ پر بہت کام کرنا ہوگا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.