حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟

سپریم کورٹ میں پیش کی گئی دستاویزات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان جیل میں اپنے کھانے تک کا فیصلہ خود کرتے ہیں جبکہ ان کو دن میں دو بار راہداری میں چہل قدمی کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعوی کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور انھیں وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں، درست نہیں ہے۔

یہ دعوی وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز میں کیا گیا ہے جن پر ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمد شفقت عباسی کا نام درج ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی ان دستاویزات پر اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے دستخط بھی ہیں۔

اس دستاویز کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں موجود تصاویر جیل میں حکومت کے مطابق عمران خان کی زندگی اور ان کو میسر سہولیات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان دستاویزات میں عمران خان سے وکلا، سیاست دانوں اور اہلخانہ کی ملاقاتوں کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

حکومتی دستاویزات سے جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے، یہ جاننے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس دستاویز سے متعلق کیا کہا گیا۔

حکومتی دستاویز میں کیا کہا گیا؟

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے دوران عمران خان نے ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران کہا تھا کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔

عمران خان کے اسی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں حقائق سامنے لانے کے لیے جیل میں ہونے والی ملاقاتوں کا ریکارڈ اور بیرک کی تصاویر فراہم کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر عدالت مناسب اور ضروری سمجھتی ہے تو عدالت کے سامنے جمع کرائے گئے حقائق کی تصدیق کے لیے کسی جوڈیشل افسر کو بطور کمیشن تعینات کر سکتی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ان دستاویز میں موجود تصاویر ہمیں جیل میں موجود عمران خان کی زندگی کے بارے میں کیا بتاتی ہیں۔ واضح رہے کہ بی بی سی ان تصاویر اور اس دستاویز میں موجود دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا تاہم تحریک انصاف نے جیل میں عمران خان کے کمرے کی تصویر کی تصدیق کی ہے۔

’چھوٹا سا کمرہ‘

ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی کے آفیشل پیج پر جاری ہونے والے ایک پیغام میں حکومتی دستاویزات میں موجود ایک کمرے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 'پاکستان کے سابق وزیراعظم کو جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ہے، جہاں انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔'

اگر اس تصویر کا جائزہ لیں تو یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں ایک جانب بستر موجود ہے جبکہ دوسری جانب ایک میز اور کرسی موجود ہیں۔

تصویر میں دکھائی دینے والے کمرے کے آخر میں دیوار پر ایک ٹی وی سکرین نصب ہے جبکہ ساتھ ہی ایک کولر بھی موجود ہے۔

تاہم اسی کمرے میں بستر کے عقب میں موجود چھوٹی دیواروں والا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس کے ساتھ نصب واش بیسن کو دیکھ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیت الخلا ہے۔

عمران خان کا ’کچن‘

حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عمران خان کے لیے جیل میں الگ کچن موجود ہے۔

تاہم دستاویز میں موجود ایک تصویر جس کے نیچے یہ عبارت درج ہے، اس میں ایک الماری کو دیکھا جا سکتا ہے اور دستاویز میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس میں عمران خان کے لیے مختص کھانے پینے کی اشیا رکھی گئی ہیں۔

دستاویزات میں موجود ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس الماری میں کولڈ ڈرنکس، دلیہ اور اسپغول سمیت کھانے پینے کی دیگر چیزیں موجود ہیں۔

دستاویز میں دعوی کیا گیا ہے کہ کھانے کے مینیو کا فیصلہ خود عمران خان ہی کرتے ہیں۔

عمران خان جیل میں کون سی کتابیں پڑھ رہے ہیں؟

عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان کے مطالبے پر ان کو مطالعے کے لیے کتابیں فراہم کی گئی ہیں۔حکومت نے ان دستاویزات میں ان کتابوں کی تصویر بھی عدالت میں پیش کی ہے۔

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کتابوں میں 13ویں صدی کے صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی، جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر اور ملک میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے رہنما نیلسن منڈیلا اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی زندگی پر بھی کتابیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایک کتاب جس کا عنوان ریاستیں کیوں ناکام ہوتی ہیں، ابن خلدون کی شہرہ آفاق کتاب مقدمہ، ایناتول لیون کی پاکستان اے ہارڈ کنٹری، دی برٹش ان انڈیا، پیغمبر اسلام کی زندگی کے بارے میں کتاب دی سیلڈ نیکٹر سمیت کئی اور کتابیں بھی موجود ہیں۔

ورزش اور چہل قدمی کی سہولت

ان دستاویزات کے مطابق عمران خان کو جیل میں اپنی جمسانی صحت کا خیال رکھنے کے لیے ورزش کی مشینیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔

ایک تصویر میں ورزش والی سائیکل جبکہ ایک دوسری تصویر میں سٹریچنگ بیلٹ دکھائی دیتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عمران خان کو دن میں دو بار جیل میں موجود ایک بیرک کی خصوصی راہداری میں چہل قدمی کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان سے جیل میں ہونے والی ملاقاتیں

یاد رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو گذشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔

آج سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات میں گذشتہ برس ستمبر سے لے کر رواں برس 30 مئی تک، عمران خان سے ملنے آنے والے مہمانوں کی مہینہ وار فہرست بھی پیش کی گئی ہے۔

اس فہرست میں عمران خان کی بہنوں، وکلا اور پارٹی رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔

اڈیالہ جیل کہاں واقع ہے اور اس کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟

اڈیالہ جیل
BBC

اڈیالہ جیل دراصل سینٹرل جیل راولپنڈی ہے اور اسے اڈیالہ جیل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ضلع راولپنڈی کا ایک گاؤں اڈیالہ اس سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام اڈیالہ جیل پڑ گیا۔

یہ جیل راولپنڈی اڈیالہ روڈ پر ضلعی عدالتوں سے تقریباً 13 کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں دہگل کے قریب واقع ہے اور پرانی ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی ہے۔

اسے 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیا الحق کی حکومت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔

اس سے قبل راولپنڈی کی ضلعی جیل اس مقام پر واقع تھی جہاں آج جناح پارک واقع ہے اور یہ وہی جیل تھی جس میں ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دورِ حکومت میں قید رکھا گیا اور اسی جیل سے متصل پھانسی گھاٹ میں انھیں پھانسی بھی دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد آنے والے برسوں میں اس جیل کو ختم کر کے یہاں پارک بنایا گیا اور 1986میں جیل کو اڈیالہ منتقل کر دیا گیا۔

اڈیالہ جیل کا نام ہمیشہ پاکستانی سیاست میں گونجتا رہا ہے۔ یہ وہ قید خانہ ہے جہاں ملک کے تین وزرائے اعظم سمیت متعدد اہم سیاست دان قید رہ چکے ہیں اور اب عمران خان ایسے چوتھے وزیراعظم ہیں جنھیں اس جیل میں رہنا ہو گا۔

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف دو مرتبہ اس جیل میں قید کیے گئے۔ پہلی مرتبہ 1999 میں ملک میں فوجی بغاوت کے بعد جب انھیں طیارہ سازش کیس میں سزا سنائی گئی تو اس کے بعد وہ کچھ عرصہ یہاں قید رہے اور اس کے علاوہ انھیں اٹک قلعے میں بھی قید رکھا گیا تھا۔

دوسری مرتبہ اڈیالہ جیل نواز شریف کا مسکن پانامہ کیس میں انھیں دی جانے والی سزا کے بعد بنی۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل کے علاوہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بھی قید رہے تھے۔

اس موقع پر ان کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اپنی زندگی کا کچھ وقت اڈیالہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی ستمبر 2004 سے 2006 تک ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ اڈیالہ جیل میں گزارا اور انھوں نے اپنے اس قیام کے دوران ایک کتاب بھی لکھی۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی مشرف دور میں اڈیالہ جیل میں قید رہ چکے ہیں جبکہ سابق شاہد خاقان عباسی بھی کچھ وقت یہاں گزار چکے ہیں۔

اس کے علاوہ موجودہ وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سعد رفیق بھی مشرف دور میں کچھ وقت کے لیے اڈیالہ جیل میں قید رکھے گئے جبکہ نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی بھی چند ماہ تک اڈیالہ جیل کے قیدی تھے۔

ان کے علاوہ سابق چیئرمین نیب سیف الرحمان، نومبر آٹھ کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری اور منی لانڈرنگ کیس میں معروف ماڈل ایان علی بھی یہاں قید کی سزا کاٹ چکے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.