پاکستان کے نئے بجٹ پر آئی ایم ایف شرائط کس طرح اثر انداز ہوں گی اور عام فرد اس سے کیسے متاثر ہو گا؟

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے بعد بننے والی حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہو گا اور ملک کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پہلی مرتبہ پاکستان کا بجٹ پیش کریں گے۔ اس بجٹ پر آئی ایم ایف کی شرائط کس طرح اثرانداز ہوں گی اور ایک عام شہری اس سے کیسے متاثر ہو گا؟

کسی ملک کی آمدن اور اخراجات کے تخمینے کے لیے بجٹ نامی دستاویز ہر سال پیش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ان دنوں بجٹ کی تیاری جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق 12 جون کو پاکستان کی پارلیمان میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔

پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے بعد بننے والی حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہو گا اور ملک کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پہلی مرتبہ پاکستان کا بجٹ پیش کریں گے۔

پاکستان کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب ملک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کر رہا ہے، جس کی مالیت آٹھ ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔

اگرچہ پاکستان کے ماضی میں پیش کیے جانے والے بجٹ بھی آئی ایم ایف پروگرام میں رہ کر ہی پیش کیے گئے تاہم پاکستان کے معاشی حالات اس قدر خراب صورتحال کا شکار نہ تھے جس کا اس وقت ملک کو سامنا ہے، جس میں ملک کی کم معاشی گروتھ، بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے، غربت، مہنگائی کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی کم آمد اور برآمدات میں کمی شامل ہیں۔

ملک میں سیاسی تناؤ کی کیفیت بھی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان ’بیلنس آف پیمنٹ‘ کی خراب صورتحال کا شکار ہے اور اسے بیرونی ادائیگیوں کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے نئے پروگرام کے لیے شرائط بھی عائد کی گئی ہیں جس کے بعد یہ وفاقی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں بی بی سی اردو نے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان پروگراموں کے امور کا جائزہ لینے والے اور حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ رہنے والے افراد سے بات چیت کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ پاکستان کے نئے وفاقی بجٹ پر آئی ایم ایف کی شرائط کس طرح اثرانداز ہوں گی اور ایک عام شہری اس سے کیسے متاثر ہو گا؟

آئی ایم ایف
Getty Images

کیا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر بنتا ہے؟

پاکستان کے اگلے مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے جاری مذاکرات کے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے گذشتہ مہینے پاکستان سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس میں پاکستانی معیشت کے مخلتف شعبوں میں بہتری کے لیے تجاویز تھیں اور اس کے ساتھ مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے اہداف کا تعین تھا۔

آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی اور شرائط میں کیا پاکستان ایک ایسا بجٹ پیش کر سکتا ہے جو پاکستان کی حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی گذشتہ کئی سال سے رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر نے اس سلسلے میں بتایا کہ کافی سال پہلے وہ سپیس ختم ہو چکی، جس میں پاکستان کے اکنامک منیجرز کچھ اپنی رائے بھی ڈالتے تھے۔

انھوں نے کہا ’پہلے ہماری حکومتیں کچھ ونڈو ڈریسنگ کر لیتی تھیں تاہم اب اس کی گنجائش بھی نہیں بچی۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم آئی ایم ایف کو روک نہیں سکتے کہ ہم اس میں آپ کی مرضی کے بغیر یہ چیز ڈال دیتے ہیں۔‘

سینیئر صحافی ظہیر عباسی نے اس سلسلے میں کہا کہ ’یہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی جانب سے بنا کر دیا جانے والا بجٹ ہے جسے اب حکومت نے پیش کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کا ثبوت ان معاشی اشاریوں سے ملتا ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے دیے جاتے ہیں اور اسے پاکستان کی حکومت کی جانب سے معاشی اہداف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں جو اعداد وشمار دیے گیے ہیں وہی پاکستان کے اگلے مالی سال کے اہداف ہوں گے۔

اس سلسلے میں جب آئی ایم ایف رپورٹ کا جائزہ لیا گیا تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کے جو اعداد وشمار پیش کیے ان کے مطابق اس نے 3.5 فیصد سے بڑھنا اور ملک میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تک بڑھنے کا بتایا گیا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت کی پلان کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے بھی گذشتہ دنوں اگلے مالی سال کے لیے ان ہی اہداف کی منظوری دی گئی۔

بجٹ، مہنگائی
Getty Images

آئی ایم ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے ؟

پاکستان کے بجٹ کے آئی ایم ایف شرائط کے تحت بننے پر ماہرین معیشت نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے تحت بننے والا بجٹ ہے تاہم آئی ایم ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے کہ جس کے تحت وہ مزید قرض دے؟

آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سخت مالیاتی اور زرعی پالیسیوں کا عملدرآمد کرے اور انرجی کے شعبے میں بروقت ٹیرف ایڈجسمنٹ یعنی نرخ بڑھائے۔

مہتاب حیدر نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے مطالبات میں دو اہم شعبے ہیں جس میں ایک ملک کا بجٹ خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کا پرائمری بجٹ سرپلس ہو یعنی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد جو بجٹ ہو وہ سرپلس ہو اس لیے وہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے کہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ریونیو بڑھانے کے لیے کہہ رہا ہے۔‘

’دوسرا وہ زرعی پالیسی کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے یعنی ملک میں شرح سود زیادہ ہو۔ اس لیے ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود یہ کم نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے کہتا ہے۔‘

آئی ایم ایف یہ مطالبات کیوں کررہا ہے اس کے بارے میں ماہر معیشت یوسف نذر نے بتایا جب کوئی قرض لیتا ہے تو لازمی طور پر اس کے ساتھ شرائط بھی ہوتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے طور پر تو اصلاحات کر نہیں سکے اور نہ کرنا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ یہ اصلاحات کی جائیں کیونکہ جو قرض دیتا ہے، اسے قرض واپس بھی لینا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ قرض خواہ کی اتنی آمدن ہو کہ وہ قرض واپس کر سکے۔‘

یوسف نے کہا کہ ’آئی ایم ایف گن پوائنٹ پر قرض نہیں دیتا بلکہ ہم خود چاہتے ہیں کہ وہ قرض دے تو پھر لازمی طور پر اس کی شرائط بھی منانا پڑیں گی۔‘

آئی ایم ایف شرائط کی موجودگی میں کیا ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے؟

پاکستان کی معیشت کی شرح نمو گذشتہ دو مالی برسوں میں بہت کم رہی۔ گذشتہ مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 0.29 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو اس سے ایک سال قبل 6.18 پر موجود تھی۔

اس سال پلاننگ کوارڈینیشن کمیٹی کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی شرح 2.6 فیصد تک رہے گی۔

پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح گذشتہ دو سال میں کافی سکڑ چکی جبکہ دوسری جانب ملکی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔

بجٹ، مہنگائی
Getty Images

ملکی برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے تو دوسری جانب حکومت کو ملکی و غیر قرضوں کی آفر کے لیے زیادہ آمدنی چاہیے۔

آئی ایم ایف شرائط کی موجودگی میں کیا ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے؟ اس بارے میں پی ڈی ایم کی گذشتہ حکومت میں وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث بخش پاشا سے بات کی گئی، جو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے گذشتہ پروگرام کے لیے حکومتی ٹیم کا حصہ تھیں۔

آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں ملکی معیشت کو چلانا اور اس میں بہتری کے سوال پر انھوں نے کہا ’فی الحال گروتھ نہیں ہو گی اور اگلے دو تین سال میں ہم بہتری کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ اگلے دو تین سال میں معیشت کو واپس ٹریک پر لانا اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں لوگوں سے سچ بولنا ہو گا اور خوابوں کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا۔‘ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ معیشت کو اس وقت سب سے زیادہ سٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے اور یہ مشکل کام ہے۔

’اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے بات کرنی پڑے گی کہ وہ معقول اور قابل حاصل اہداف مقرر کرے۔ آئی ایم ایف کو تھوڑی لچک دکھانی چاہیے تاکہ ہم اہداف کو حاصل کرسکیں۔‘

آئی ایم ایف شرائط پر بنا بجٹ عام آدمی کو کیسے متاثر کرے گا؟

معیشت کے شعبے کے افراد آئی ایم ایف شرائط کے تحت بجٹ میں ایک عام فرد کے لیے مالی مشکلات دیکھتے ہیں۔

مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ اس بجٹ سے عام آدمی کافی متاثر ہو سکتا ہے جس کی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافے کا مطالبہ ہے، جو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ چیزیں زیادہ مہنگی ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ انرجی سیکٹر میں بجلی و گیس کے بل مزید بڑھ جائیں گے جو مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کے لیے مزید مالی مشکلات پیدا کرے گا۔

ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا نے کہا یہ صحیح ہے کہ لوگوں پر بوجھ بڑھے گا اس کے لیے حکومت کو ٹارگٹڈ پروگرام دینا چاہیے جس سے غریب طبقے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ کوشش کرنی چاہیے کہ عام افراد سے زیادہ اشرافیہ پر بوجھ ڈالا جائے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایک قومی معاشی بحران بہرحال اس وقت ہے اور اس سے نکلنے کے لیے اصلاحات پر عمل کرنا ہو گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.