نواز شریف اور نریندر مودی کا دوستی اور تلخی کا تعلق: کیا پیغامات کا تبادلہ بات چیت کی جانب پیشرفت ہے؟

نریندر مودی کو لاہور کا دورہ کیے قریب ایک دہائی گزر چکی ہے اور کئی برسوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی سرد مہری جاری ہے مگر اب نریندر مودی کے تیسری بار انڈین وزیر اعظم منتخب ہونے پر پاکستانی قیادت کی جانب سے انھیں امن کا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
نواز شریف، نریندر مودی
Getty Images

اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری ہفتے کے دوران پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون اس وقت حیرت میں مبتلا ہوئے جب انھیں سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اچانک فون کر کے بتایا کہ وہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان میں رسیو کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

یہ بات 25 دسمبر 2015 کی ہے جب نریندر مودی نے پاکستان کے شہر لاہور کا اچانک دورۂ کیا تھا اور اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی۔

اُس دور کے انڈین ہائی کمشنرراگھون نے اپنی کتاب ’دی پیپل نیکسٹ ڈور‘ میں لکھا کہ مودی کابل سے دلی واپس آ رہے تھے اور لاہور کا یہ دورہ اس شیڈول کا حصہ نہیں تھا مگر انڈین وزیر اعظم نے لاہور آ کر ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی تھی۔‘

نریندر مودی کو لاہور کا دورہ کیے قریب ایک دہائی گزر چکی ہے اور کئی برسوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی سرد مہری جاری ہے مگر اب نریندر مودی کے تیسری بار انڈین وزیر اعظم منتخب ہونے پر پاکستانی قیادت کی جانب سے انھیں امن کا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

پیر کو پہلے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مودی کو مبارکباد دی گئی جس کے بعد ان کے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’میں مودی جی کو مسلسل تیسری بار انڈیا کا وزیر اعظم بننے پر گرم جوشی سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

نواز شریف، جنھوں نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نریندر مودی سے متعدد ملاقاتیں کی تھیں، نے کہا کہ ’الیکشن میں مسلسل تیسری بار کامیابی انڈین عوام کے آپ (مودی) پر اعتماد کا اظہار ہے۔‘

’آئیں ہم اس خطے میں نفرت کو اُمید سے بدل کر یہاں بسنے والے دو ارب لوگوں کی ترقی اور فلاح کا سوچیں۔‘

انڈین وزیر اعظم نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’میں نیک تمناؤں پر آپ کا شُکر گُزار ہوں۔ انڈیا کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ ہماری ہمیشہ یہی ترجیح رہے گی کہ ہم اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو آگے بڑھائیں۔‘

خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔

تاہم حالیہ عرصے کے دوران پاکستان کے ساتھ امن اور بات چیت سے متعلق سوالات پر انڈین قیادت کی جانب سے سرحد پار دہشتگردی اور سکیورٹی جیسے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔

نریندر مودی، نواز شریف
EPA

مودی اور نواز شریف کے درمیان دوستی اور تلخی کا تعلق

نواز شریف کے 2013 اور نریندر مودی کے 2014 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ خوشگوار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ اپنی کتاب ’اینگر مینجمنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ مودی نے 2014 میں اپنی تقریب حلف برداری سے پہلے ہی پاکستانی قیادت سے رابطہ کر لیا تھا تاکہ نواز شریف کو باقی سارک رہنماؤں سمیت تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا جا سکے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’سیکریٹری خارجہ سوجاتا سنگھ نے ہائی کمشنر راگھون کو فون کر کے پوچھا تھا کہ آیا وزیر اعظم نواز شریف تقریب حلف برداری میں شرکت کر سکیں گے، جس پر انھوں نے ان (سوجاتا سنگھ) سے پوچھا کہ آیا پاکستانی وزیر اعظم مہمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ آفیشل سطح پر دعوت نامہ قبول کرنے سے پہلے ہی نواز شریف ’ایک انفارمل چینل کے ذریعے اپنی شرکت کے لیے رضا مندی ظاہر کر چکے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

اس تقریب میں نواز شریف کی شرکت پر نریندر مودی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’ایک بار پھر میں میری والدہ کو ساڑھی بھیجنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘ مودی نے نواز شریف کو لکھا تھا کہ ’میں آپ کے اور آپ کی حکومت کے ساتھ لڑائی اور تشدد سے پاک ماحول میں کام کرنے کا منتظر ہوں جو ہمارے باہمی تعلقات میں ایک نئے موڑ کا آغاز ہوگا۔‘

اجے بساریہ کے مطابق اس ملاقات کے بعد مودی نے آئندہ 18 ماہ میں مزید پانچ ملاقاتوں کے ذریعے نواز شریف کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کیا۔

ادھر پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ 2014 میں نواز شریف کی جانب سے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے لگتا تھا کہ تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے ’لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

’وہ ایک اچھا موقع تھا۔۔۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہتا تو آج صورتحال بہتر ہوتی۔‘

2014 کی اس ملاقات کے بعد 25 دسمبر 2015 کو مودی نے لاہور کا دورہ کیا اور اجے بساریہ کے مطابق نواز شریف سے ملاقات کے لیے مودی ’ایئر پورٹ سے ایک پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے۔‘

مگر کچھ روز بعد اگلے ہی سال انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پٹھان کوٹ حملے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا۔

اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے 2016 میں تو مودی صاحب نے پاکستان سے رابطہ ہی ختم کر دیا۔ سنہ 2014 سے سنہ 2024 کے درمیان بڑا وقت گزر گیا ہے لیکن تعلقات میں بہتری نظر نہیں آ رہی۔‘

نواز شریف اور مودی کے درمیان مختصر گفتگو کے کیا معنی ہیں؟

مودی اور نواز شریف کے درمیان ایکس پر اس مختصر گفتگو پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات چیت کے دوران کہا کہ ’نریندر مودی کو سوشل میڈیا پر مبارک باد دینا ایک رسمی پیغام تھا۔ سفارتی سطح پر ایسا کیا جاتا ہے۔‘

’ہم نے کون سا اُنھیں محبت نامہ لکھ دیا، جب شہباز شریف وزیر اعظم بنے تھے تو انھوں نے ہمیں مبارکباد دی تھی تو اب ہم نے بھی سفارتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا ہی کیا۔‘

دوسری طرف خارجہ امور پر نظر رکھنے والے انڈین صحافی سدھیندرا کلکرنی نے نواز شریف کی جانب سے کی گئی ٹویٹ اور وزیرِ اعظم مودی کے اس پر فوری جواب کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان ’بیک چینل مذاکرات‘ اور بریک تھرو کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اب ایک بار پھر نواز شریف نے مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جن کے ساتھ ان کا اچھا ذاتی تعلق ہے اور شہباز شریف بھی انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے ماضی میں بات کر چکے ہیں۔‘

ان کی رائے میں یہ بہتر ہوتا کہ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کو بھی بلایا جاتا، ’لیکن اب ٹویٹس کے ذریعے دونوں ممالک کے رہنماؤں میں بات چیت خوش آئند ہے۔‘

ادھر خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی سہاسنی حیدر کا خیال ہے کہ نواز شریف کے پیغام کے مقابلے ’مودی کے جواب میں شاید اتنی گرمجوشی نہیں تھی لیکن یہ ضرور تھا کہ وہ ان کے خیالات کی قدر کرتے ہیں۔‘

اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو اس حوالے سے ڈھیروں متضاد تجزیے دیکھے جاسکتے ہیں۔

جیسے تجزیہ کار عزیر یونس کے بقول نواز شریف کا پیغام انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی ان کی مسلسل کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ رضا رومی ان سے اتفاق کرتے ہوئے مودی اور نواز شریف کے درمیان گفتگو کو ’مثبت‘ قرار دیتے ہیں۔

سردار حمزہ زاہد نامی صارف نے لکھا کہ مودی نے عالمی رہنماؤں کو جواب دینے میں کئی گھنٹے لیے جبکہ نواز شریف کو ’دو گھنٹے بعد ہی جواب دے دیا۔‘

تاہم ایمل کمال نامی صارف کے بقول مودی نے اپنے جواب میں نواز شریف کی ’تضحیک‘ کی۔ کئی انڈین صارفین نے مودی کو ان کے جواب میں سکیورٹی کا ذکر کرنے پر سراہا۔

پاکستانی صارف مدیحہ افضل لکھتی ہیں کہ ’نواز کی طرف سے مودی کے لیے گرمجوشی کے ساتھ مبارکباد کا پیغام۔۔۔ اس کی سمجھ آتی ہے کیونکہ شہباز شریف (کے بارے میں خیال ہے کہ وہ) انڈیا سمیت تمام معاملات پر اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریب ہیں۔‘

کیا اس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکے گی؟

اگرچہ پیغامات کے اس تبادلے کو بات چیت میں بحالی کے اعتبار سے ایک مثبت پیشرفت سمجھا جا رہا ہے تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ابھی بھی برف پگھلنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

انڈین صحافی سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری سے قبل ابتدائی طور پر دونوں ممالک میں ہائی کمشنرز کی بحالی، زراعت کے شعبے میں تجارت اور افغانستان ٹرانزٹ کھولنے جیسے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

جبکہ سدھیندرا کلکرنی کے مطابق دونوں ملکوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کے مسئلے پر بات چیت صرف ’امن اور سکیورٹی کے حوالے سے ہی‘ ہوسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ’ضرورت پڑنے پر بات کرتا ہے۔‘ اس حوالے سے انھوں نے ایل او سی پر کراس فائرنگ کی روک تھام کا حوالہ دیا۔

دوسری طرف سابق پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ ’دیکھنا ہو گا کہ مودی اپنی روش تبدیل کرتے ہیں یا سرحد پار دہشتگردی کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس مرتبہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ملک میں دہشتگردی کا الزام انڈین آپریٹوز پر لگایا جا رہا ہے۔‘

ان کی رائے میں ’دونوں ملکوں کو بات چیت کرنی چاہیے، میرے خیال میں انڈین حکومت کے مفاد میں ہو گا اگر وہ پاکستان سے بات کرے لیکن شاید ان کی کوئی گرینڈ سٹریٹیجی ہے جس کے باعث وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے سب کی نظریں جولائی کے دوران قزاقستان میں ایس سی او اجلاس کے دوران مودی اور شہباز شریف کی شرکت پر رہیں گی۔

خیال رہے کہ چار جون کو انڈین انتخابات کے نتائج اکثر اندازوں اور ایگزٹ پولز کے برعکس آئے تھے جن میں انڈین وزیرِ اعظم نریندرا مودی کو دو تہائی اکثریت ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی تاہم نتائج میں نریندر مودی کو ان کے اپنے اندازوں کے مطابق کم سیٹیں ملیں اور انھیں حکومت بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ کی ضرورت پڑی کیونکہ بی جے پی خود 272 سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہی اور 240 نشستیں ہی حاصل کر سکی۔

تو کیا یہ کمزوری مودی کو پاکستان سے بات کرنے کی طرف راغب کر سکتی ہے؟ اس پر صحافی سدھیندرا کلکلرنی کا کہنا تھا کہ ’الیکشن مہم میں پاکستان مخالف اور مسلمان مخالف ایجنڈا کام نہیں کیا اور بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں۔ اس لیے وہ اب ممکنہ طور پر پاکستان مخالف بیانیے پر فوکس نہیں کریں گے۔‘

’انھیں اب اپنے اتحادیوں سے بات کر کے بھی آگے بڑھنا پڑے گا۔ یہ مودی کا تیسرا دورِ حکومت ہے اور انھیں تاریخ میں ایک ایسے وزیرِ اعظم کے طور پر دیکھا جائے گا جنھوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا تھا۔‘

صحافی سہاسنی حیدر کا ِخیال ہے کہ یہ ’وزیرِ اعظم مودی کا اپنا فیصلہ ہو گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوبارہ بات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ ان کی ٹیم اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی جس میں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر بھی شامل ہیں۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے سیاستدان پرویز رشید نے بی بی سی کے نامہ نگار عماد خالق کو بتایا کہ ’دنیا کے کسی بھی ملک کے دو افراد خواہ وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں یا کتنے ہی بااختیار کیوں نہ ہوں، وہ نہ تعلقات اچھے کر سکتے ہیں نہ ہی خراب کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تجربے نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ جب تک دونوں طرف ایک وسیع حلقے کی یہ خواہش نہ ہو کہ ہم نے تلخیاں، جنگیں اور دشمنی کی حد تک ایک دوسرے سے اختلاف کر کے کیا حاصل کیا، حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہم نے دہائیوں کے اس اختلاف سے اپنے لوگوں کے ساتھ اچھا کیا اور کیا اب ہمیں مختلف راستہ اختیار کر لینا چاہیے۔‘

’ایک راستہ تو ہم نے اپنا کے دیکھ لیا اور کوشش کے باوجود ہم اسے تبدیل نہیں کر سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ابھی تو ہمارا انڈیا کے ساتھ ہمسایوں کے طور پر بھی تعلق نہیں، اب کم سے کم ہم ہمسایوں کے طور پر ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھ لیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.