پڑھائی اور موسیقی میں گُم رہنے والے انیس الرحمان بلوچ لاپتہ: ’اٹھانے والوں نے جوتے پہننے کا بھی موقع نہیں دیا‘

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ انیس الرحمان کے رشتہ داروں نے ان کی جبری گمشدگی کے حوالے سے ان سے رابطہ کیا ہے اور اس کیس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے ضلع خضدار کے نوجوان انیس الرحمان ایک ہفتہ قبل اس وقت لاپتہ ہو گئے جب وہ گھر سے لائبریری میں پڑھائی کرنے کے لیے نکلے تھے۔ انیس کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ گھر واپسی پر راستے میں ایک ہوٹل سے ان کو پانچ مسلح افراد زبردستی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔

انیس الرحمان کی بازیابی کے لیے جہاں ان کے اہلخانہ نے سرکاری حکام سے رابطہ کیا وہیں اتوار کے روز ان کی بازیابی کے لیے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بھی خضدار میں مختلف مقامات پر دھرنا دے کر بند کیا گیا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ انیس الرحمان کے رشتہ داروں نے ان کی گمشدگی کے حوالے سے رابطہ کیا اور وہ اس کیس کا جائزہ لے رہے ہیں تاہم ابھی تک اس معاملے کی ایف آر درج نہیں ہوئی۔

خضدار پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب انیس الرحمان کے رشتہ داروں نے پہلے روز ان کی گمشدگی کے حوالے سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس سٹیشن میں درخواست دی تو اسی روز اس پر کارروائی شروع کی گئی۔

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ لواحقین سے درخواست لینے کے بعد ضابطہ فوجداری کی دفعہ 2/157 کے تحت انکوائری شروع کر دی گئی اور اس سلسلے میں ایک تفتیشی افسر بھی مقرر کیا گیا ہے۔

سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ ضروری نہیں کہ ہر درخواست پر براہ راست ایف آئی آر درج ہو کیونکہ بعض اوقات پولیس کو کچھ معاملات میں تحقیقات بھی کرنی ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ضابطہ فوجداری کے دفعہ 154 کے تحت براہ راست ایف آئی آر درج ہوتی ہے جبکہ دفعہ 157 کے تحت جو تحقیقات ہوتی ہیں، اسے بعد میں ایف آئی آر میں ہی تبدیل کیا جاتا ہے۔

انیس الرحمان کون ہیں؟

انیس الرحمان کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ 24 سالہ انیس الرحمان نے پرائمری سے ایف سی تک تعلیم خضدار شہر سے ہی حاصل کی۔ امتحانات میں اچھے نمبروں کے باعث وہ سرکاری سکالر شب پر بی ایس کرنے کے لیے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان گئے۔

ان کے ماموں عبدلواحد بلوچ کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کرنے کے بعد انیس اس وقت پبلک سروس کمیشن سے مقابلے کی امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔ مقابلے کے امتحان میں ملازمت نہ ملنے کی صورت میں وہ کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے انیس نے لائبریری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے کیونکہ وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ لائبریری میں ہی گزارتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انیس جہاں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہاں وہ بہت زیادہ خود دار بھی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ آگے اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کوئی کاروبار بھی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انیس الرحمان خضدار شہر میں جوس کا ایک چھوٹا پلانٹ بھی لگانا چاہتے ہیں، جس کے لیے انھوں نے پنجاب کے علاقے خانیوال سے مشینری کا بھی آرڈر کر رکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ نہ صرف کاروبار کے ذریعے اپنی پڑھائی کے اخراجات پورا کرنا چاہتے ہیں بلکہ آگے کوئی ملازمت نہ ملنے کی صورت میںکاروبار کو ہی ذریعہ معاش بنانا چاہتے ہیں۔

انیس الرحمان کے کزن بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ تعلیم پر بھرپورتوجہ دینے کے ساتھ ساتھ انیس کو موسیقی کا بھی شوق ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے کتابوں کے علاوہ ان کے کمرے میں ایک گٹار بھی ہوتا ہے اور وہ کتابوں کی طرح موسیقی میں بھی گم ہوتے ہیں۔

’انیس کو جوتے پہننے کا موقع بھی نہیں دیا‘

عبدلواحد بلوچ نے بتایا کہ چار جون کو انیس الرحمان حسب معمول خضدار شہر میں لائبریری گئے تھے جہاں سے وہ گھر آنے سے پہلے دوستوں کے ساتھ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع ایک ہوٹل پر رکے تھے کیونکہ وہ ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ چائے پینا چاہتے تھے۔

’ہوٹل پر موجود لوگوں نے بتایا کہ اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرنے کے بعد انیس نے ہوٹل کے سامنے بنے چبوترے پر بیٹھنے کے لیے اپنے جوتے اتارے ہی تھے کہ وہاں پر پہلے سے ایک کرولا کار میں موجود پانچ افراد ان کو زبردستی اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر موجود لوگوں نے بتایا کہ یہ پانچوں افراد نقاب پوش تھے، جن میں سے دو کالے رنگ کی وردی میں تھے جبکہ تین سویلین کپڑوں میں تھے۔‘

عبدلواحد بلوچ کے مطابق انیس کو لے کر جانے والوں نے اتنا بھی موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے جوتے پہن سکیں اور وہ ان کو ننگے پاؤں کھینچتے ہوئے لے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

انیس الرحمان کی بازیابی کے لیے احتجاج

عبدالوحد بلوچ نے بتایا کہ انیس کی جبری گمشدگی سے نہ صرف ان کے والدین صدمے سے دوچار ہیں بلکہ پورا خاندان پریشان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لواحقین اور دیگر مظاہرین نے مجبوراً اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے اتوار کو خضدار میں کوئٹہ کراچی شاہراہ کو مختلف مقامات پر بند کیا۔

احتجاج کے باعث اس اہم شاہراہ پر ٹریفک رات تک بند رہی جس کے باعث لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم رات کو پولیس اور سویلین حکام سے مذاکرات کے بعد مظاہرین نے شاہراہ کو کھول دیا۔

عبدلواحد بلوچ نے بتایا کہ مذاکرات میں انتظامیہ اور پولیس نے انیس کی بازیابی کے لیے تین روز کی مہلت مانگی جس پر احتجاج کو تین روز کے لیے مؤخر کیا گیا۔

جہاں خضدار میں انیس کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا گیا وہاں کوئٹہ شہر کے علاوہ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر میں بھی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔

کوئٹہ میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے باہر تربت سے تعلق رکھنے والے ایف ایس سی کے طالب علم فاروق بلوچ کی بازیابی کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دھرنا دیا گیا۔

فاروق بلوچ کے بھائی رحیم داد نے بتایا کہ 16سالہ فاروق میڈیکل کالجوں میں داخلے کی ٹیسٹ کی تیاری کے لیے کوئٹہ آئے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ فاروق کو پانچ دیگر طالب علموں کے ساتھ مبینہ طور پر 28 مئی کو اے ون سٹی بروری روڈ سے ان کے کمرے سے اٹھایا گیا۔ باقی پانچ طلبا کو چھوڑ دیا گیا لیکن فاروق تاحال لاپتہ ہیں۔

انھوں نے فاروق کی جبری گمشدگی کا الزام کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پر عائد کیا تاہم ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورائیہ نے اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی کے تحویل میں نہیں۔

ادھر تربت شہرمیں 12 لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھی گذشتہ ہفتے پانچ روز تک دھرنا دیا گیا، جن کے شرکا میں سے بعض نے بلیدہ سے تربت تک لانگ مارچ بھی کیا تھا۔

دھرنے میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے نویں جماعت کے طالب علم مسلم عارف کے والد عارف غلام بھی شامل تھے۔

عارف غلام نے بتایا کہ ان کا بیٹا 15جون 2023 کو لاپتہ ہوا اور ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے لیکن وہ تاحال بازیاب نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کیچ سے دھرنے کے شرکا کے مذاکرات ہوئے جس میں لواحقین کو تین دن میں مثبت پیش رفت کی یقین دہانی پر دھرنے کو ختم کیا گیا۔

Balochistan
BBC

سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟

ان واقعات کے حوالے سے جب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان مخصوص واقعات کے بارے میں تاحال معلومات نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے ان کی تفصیل کوشیئر کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے کہنے کے مطابق ان کے خاندانوں نے الزام عائد کیا ہے تو یہ ابھی تک ایک الزام کے مرحلے میں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ویسے محکمہ داخلہ میں حکومت بلوچستان نے لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک کمیشن قائم کیا جو باقاعدگی سے کام کر رہا ہے۔ اس کمیشن کا ہرماہ ایک اجلاس بھی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ کیسز اس کمیشن میں آئے تو کمیشن اپنے طور پر ان کے ریکارڈ اور ان کی صداقت کو بھی چیک کرسکتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر خضدار عارف زرکون نے بتایا کہ انیس الرحمان کی گمشدگی کے حوالے سے ان کے خاندان کے افراد نے انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔

جب خضدار پولیس کے سربراہ عبدالعزیز جھکرانی سے انیس الرحمان کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس وقتمظاہرین سے مذاکرات میں مصروف تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ اس سلسلے میں اچھے نتائج کے لیے پر امید ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.