یونانی کوسٹ گارڈز پر تارکینِ وطن کو بحیرہِ روم میں پھینکنے کا الزام: ’انھوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارتے سُنا مگر مدد نہیں کی‘

بی بی سی کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کے نتیجے میں مبینہ طور پر 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم یونانی کوسٹ گارڈ نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے تمام الزامات مسترد کرتے ہیں۔
Graphicised image showing a Greek coastguard with gun, with Greek flag behind
BBC

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز تین سال کے عرصے میں بحیرہِ روم میں درجنوں تارکین وطن کی ہلاکت کا سبب بن چکے ہیں، جن میں سے نو افراد کو جان بوجھ کر پانی میں پھینک دیا گیا تھا۔

بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ نو افراد ان 40 سے زائد افراد میں شامل تھے جو مبینہ طور پر یونان کی سمندری حدود سے بے دخل کیے جانے یا یونانی جزیروں پر پہنچنے کے بعد سمندر کی جانب واپس دھکیل دیے جانے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔

یونانی کوسٹ گارڈ نے بی بی سی کی تحقیقات کے دوران اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے تمام الزامات مسترد کرتے ہیں۔

ہم نے یونانی کوسٹ گارڈ کے ایک سابق سینیئر افسر کو وہ فوٹیج دکھائی کہ جس میں ایک یونانی کوسٹ گارڈ 12 افراد کو کشتی میں لاد کر ایک ڈنکی پر چھوڑ آتے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد جب وہ جانے کے لیے اپنی کرسی سے اٹھے تو اُن کے گریبان پر لگا مائیک ابھی چل رہا تھا، جس پر اُن کے یہ جُملے ریکارڈ ہوئے اور واضح طور پر سُنے گئے کہ یہ ’واضح طور پر غیر قانونی‘ اور ’بین الاقوامی قوانین کے تحت سنگین جُرم‘ ہے۔

واضح رہے کہ ڈنکی لکڑی یا ربڑ سے بنی ایک چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں۔

یونانی حکومت پر طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ جبری طور پر تارکینِ وطن کو مُلک میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے انھیں ترکی کی جانب دھکیل دیتے ہیں، جہاں کی سرحد وہ پہلے ہی پار کر چکے ہوتے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔

لیکن یہ پہلا موقع ہے جب بی بی سی نے ان واقعات کی تعداد کا تخمینہ لگایا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔

ہم نے مئی 2020 سے مئی 2023 کے درمیان پیش اںے والے 15 واقعات کا تجزیہ کیا جن کے نتیجے میں 43 لوگوں کی موت ہوئی۔ ابتدائی ذرائع بنیادی طور پر مقامی میڈیا، این جی اوز اور ترک کوسٹ گارڈ تھے۔

اس طرح کے بیانات کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایسے بیانات دینے والے گواہ اکثر غائب ہو جاتے ہیں، یا پھر بولنے سے ڈرتے ہیں۔ تاہم ہم چار معاملات میں عینی شاہدین سے بات کرکے بیانات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہے۔

ہماری تحقیق جو بی بی سی کی ایک نئی دستاویزی فلم، ’ڈیڈ کالم: کلنگ ان دی میڈ؟‘ میں شامل ہے نے ایک واضح نمونہ تجویز کیا۔

An interviewee migrant from Cameroon
BBC
کیمرون سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ اانھیں کوسٹ گارڈ نے سمندر میں پھینک دیا تھا، اُس وقت ان کے دو ساتھی ڈوب گئے تھے۔

ان میں سے پانچ واقعات میں تارکینِ وطن کا کہنا ہے کہ انھیں یونانی حکام نے براہ راست سمندر میں دھکیل دیا تھا۔ ان میں سے چار معاملات میں انھوں نے وضاحت کی کہ وہ یونانی جزیروں پر کیسے اترے تھے اور انھیں کیسے پکڑا گیا تھا۔

کئی دیگر واقعات میں تارکین وطن کا کہنا تھا کہ انھیں بغیر موٹروں کے انفلیٹ ایبل رافٹس یعنی ربڑ کی بنی ایسی کشتیوں میں سوار کروا دیا گیا کہ جن میں ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے، جو بعد میں پھٹ گئیں یا ایسا لگتا ہے کہ انھیں پنکچر کر دیا گیا تھا۔

سب سے زیادہ پریشان کن کہانی افریقی مُلک کیمرون سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے سُنائی، جن کا کہنا ہے کہ ستمبر 2021 میں ساموس کے جزیرے پر اترنے کے بعد یونانی حکام نے انھیں دبوچ لیا تھا۔

ان تمام لوگوں کی طرح جن کا ہم نے انٹرویو کیا، انھوں نے کہا کہ وہ یونانی سرزمین پر پناہ کے متلاشی کے طور پر اندراج کرنے کا ارادہ رکھتے ت۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہم بمشکل لنگر انداز ہوئے ہی تھے کہ پیچھے سے اچانک پولیس آگئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دو پولیس اہلکار سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھے اور تین دیگر سویلین لباس میں تھے۔ وہ نقاب پوش تھے، جس کی وجہ سے آپ صرف ان کی آنکھیں دیکھ سکتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انھیں اور دو دیگر افراد جن میں کیمرون سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اور آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص شامل تھا، کو یونانی کوسٹ گارڈ کی کشتی میں منتقل کیا گیا، جہاں واقعات نے خوفناک رخ اختیار کر لیا۔‘

انھوں نے کیمرون سے ہی تعلق رکھنے والے دوسرے فرد کی کہانی سے بات کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ ’انھوں نے اسے پانی میں پھینک دیا۔ آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ ’مجھے بچا لو، میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔ اور پھر آخر کار صرف اس کا ہاتھ پانی سے باہر تھا، اور اس کا جسم آنکھوں سے اوجھل ہو چُکا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ بھی پانی کی لہروں میں گُم ہو گیا اور بس وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔‘

ہمیں انٹرویو دینے والے شخص نے کہا کہ اُنھیں ’اغوا کاروں نے بہت بُری طرح پیٹا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ میرے سر پر گھونسے برسائے جا رہے ہیں۔ یوں گمان ہوتا تھا کہ جیسے وہ کسی انسان کو نہیں بلکہ جانور کو پیٹ رہے ہیں۔‘

اور بس پھر اُن کے ساتھ بھی وہی ہوا۔۔۔ گارڈز نے انھیں بھی بغیر لائف جیکٹ کے پانی میں دھکیل دیا۔ وہ تیر کر ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے لیکن دیگر دو افراد سیڈی کیتا اور ڈیڈیئر مارشل کوآمو نانا کی لاشیں ترکی کے ساحل سے برآمد ہوئیں۔

زندہ بچ جانے والے شخص کے وکلا یونانی حکام سے دوہرے قتل کے مقدمے کی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جون 2023 میں تارکینِ وطن سے بھری ایک اور کشتی یونانی کوسٹ گارڈ کی گشت کرنے والی کشتی کے سامنے الٹ گئی تھی اس وقت اس کشتی پر 600 سے زائد مرد، خواتین اور بچے سوار تھے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور کیا کوسٹ گارڈ غلطی پر تھے؟

یہ بھی پڑھیے

صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ مارچ 2021 میں انھیں یونانی فوج نے جزیرے چیوس پہنچنے پر پکڑ لیا تھا جس کے بعد انھیں یونانی کوسٹ گارڈ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ کوسٹ گارڈ نے انھیں پانی میں دھکیلنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے کرکے باندھ دیے تھے۔

’انھوں نے مجھے سمندر کے بیچ میں ہاتھ باندھ کر پھینک دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ڈوب کر مر جاؤں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی پیٹھ کے بل تیر کر زندہ رہنے میں کامیاب رہے، کیونکہ اس دوران وہ اپنا ایک ہاتھ آزاد کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن سمندر کی لہروں میں اُن کے گروپ میں شامل تین افراد ہلاک ہو گئے۔‘

ستمبر 2022 میں یونان کے جزیرے رہوڈز کے قریب 85 تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی اس وقت مشکلات کا شکار ہو گئی تھی جب اس کی موٹر خراب ہو گئی۔

شام سے تعلق رکھنے والے محمد نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے مدد کے لیے یونانی کوسٹ گارڈ کو فون کیا جنھوں نے ان سب کو ایک ہی کشتی پر لاد کر ترکی کے پانیوں میں واپس دھکیل دیا اور انھیں بس لائف جیکٹس کے سہارے چھوڑ دیا گیا۔ محمد کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی فیملی کو جو کشتی دی گئی تھی، اس کا والو ٹھیک سے بند نہیں تھا۔ (والو وہ مقام کے جہاں سے ربڑ کی کشتی میں ہوا بھری جاتی ہے)

وہ کہتے ہیں کہ ’فوراً ہی ہماری کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا اور ہم پانی میں ڈوبنا شروع ہو گئے، وہ یہ سب دیکھ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ انھوں نے ہم سب کے چیخنے کی آواز سنی اور پھر بھی وہ ہمیں اُس گہرے سمندر میں چھوڑ کر چلے گئے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’مرنے والا پہلا بچہ میرے کزن کا بیٹا تھا۔۔۔ اس کے بعد بس ایک ایک کر سب ڈوبنے لگے۔ ایک کے بعد ایک بچہ پانی میں گُم ہو گیا اور پھر میرا کزن خود گہرے نیلے پانی میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ صبح تک سات یا آٹھ بچے مر چکے تھے۔‘

’میرے بچے صبح ترک کوسٹ گارڈ کے آنے سے کچھ دیر پہلے تک زندہ تھے۔‘

یونانی قانون کے مطابق پناہ کے متلاشی تمام تارکین وطن متعدد جزیروں پر قائم خصوصی رجسٹریشن مراکز میں اپنا دعویٰ درج کرا سکتے ہیں۔

لیکن ہم نے کنسولیڈیٹڈ ریسکیو گروپ کی مدد سے جن تارکینِ وطن کے انٹرویوز کیے اُن کا کہنا تھا کہ انھیں ان مراکز تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑ لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد بظاہر خفیہ طور پر کام کر رہے ہوں گے کیونکہ ان میں سے اکثر بغیر وردی کے اور نقاب پوش ہوتے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ یورپ میں پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد کو غیر قانونی طور پر یونان سے ترکی واپس بھیج کر انھیں بین الاقوامی اور یورپی یونین کے قانون میں دیے گئے پناہ حاصل کرنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ۔

آسٹریا کے سرگرم کارکن فیاض ملا نے ہمیں بتایا کہ انھیں گذشتہ سال فروری میں یونان کے جزیرے لیسبوس میں اس طرح کی خفیہ کارروائیوں کا خود ہی پتہ چل گیا تھا۔

خفیہ اطلاع ملنے کے بعد مبینہ طور پر جبری واپسی کے مقام کی طرف گاڑی چلاتے ہوئے انھیں ہوڈی پہنے ایک شخص نے روکا جس کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ پولیس کے لیے کام کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد پولیس نے ان کے ڈیش کیم سے روکے جانے کی فوٹیج کو حذف کرنے کی کوشش کی اور ان پر ایک پولیس افسر کی مزاحمت کرنے کا الزام عائد کیا۔

لیکن بلآخر اس متعلق مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

Greek police officer who stopped Fayad Mulla from approaching the location of a forced return
Fayad Mulla
فیاض ملا کے ڈیش کیم نے اس لمحے کو ریکارڈ کیا جب انھیں لیسبوس پر جبری طور پر تارکینِ وطن کو واپس بھیجنے کی اطلاع ملنے کے بعد خفیہ پولیس اہلکار نے روکا تھا

دو ماہ بعد اسی طرح کی جگہ پر ملا نے جبری طور پر واپس بھیجے جانے والوں کی فلم بنائی تھی، جسے نیویارک ٹائمز نے شائع کیا تھا۔

خواتین اور بچوں پر مشتمل ایک گروپ کو ایک بے نشان وین سے اتارا گیا اور ایک جیٹی سے نیچے ایک چھوٹی کشتی پر چڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں ساحل سے دور ایک یونانی کوسٹ گارڈ جہاز پر منتقل کیا گیا، سمندر میں لے جایا گیا، اور پھر ایک کشتی پر دھکیل دیا گیا کہ جہاں انھیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ بعد ازاں ترک کوسٹ گارڈ نے انھیں بچایا تھا۔

ہم نے یہ فوٹیج جس کی بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز کے سپیشل آپریشنز کے سابق سربراہ دیمتریس بالٹاکوس کو دکھائی ہے۔

انٹرویو کے دوران، انھوں نے اس بارے میں قیاس آرائی کرنے سے انکار کر دیا کہ فوٹیج میں کیا دکھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے ہماری گفتگو میں انھوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ کو کبھی بھی کچھ بھی غیر قانونی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ایک وقفے کے دوران، انھیں یونانی زبان میں کسی کو یہ کہتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا کہ: ’میں نے انھیں زیادہ کچھ نہیں بتایا، ٹھیک ہے؟ یہ بہت واضح ہے، ہے نا۔ یہ جوہری طبیعیات کی طرح پیچیدہ بات نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے دن کی روشنی میں ایسا کیوں کیا۔۔۔ یہ۔۔۔ ظاہر سی بات ہے کہ ’غیر قانونی‘ ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر ایک جرم ہے۔‘

یونان
Getty Images

یونان کی وزارت برائے میری ٹائم افیئرز اینڈ انسولر پالیسی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فوٹیج کی تحقیقات ملک کی آزاد نیشنل ٹرانسپیرنسی اتھارٹی کر رہی ہے۔

ساموس کے جزیرے سے تعلق رکھنے والی ایک تحقیقاتی صحافی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر کے ذریعے یونانی سپیشل فورسز کے ایک رکن سے بات چیت شروع کی۔

جب انھوں نے انھیں ’ایک خطرناک فرد‘ کے طور پر فون کیا، تو رومی وان بارسین نے ان سے اُن کے کام کے بارے میں مزید پوچھا کہ جب وہ یا ان کی فورسز پناہ گزینوں کی کوئی ایک کشتی دیکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں۔

انھوں نے جواب دیا کہ وہ انھیں واپس بھگا دیتے ہیں اور کہا کہ اس طرح کے احکامات ’وزیر کی طرف سے‘ دیے جاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر وہ کشتی روکنے میں ناکام رہے تو انھیں سزا دی جائے گی۔

یونان نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ نام نہاد ’پش بیک‘ ہو رہے ہیں۔

یونان بہت سے تارکین وطن کے لیے یورپ میں داخلے کا راستہ ہے۔ گذشتہ سال یورپ میں 263,048 سیاح سمندری راستے سے آئے تھے جن میں سے 41,561 یعنی 16 فیصد یونان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ترکی نے 2016 میں یورپی یونین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو یونان میں داخل ہونے سے روکنا تھا، لیکن 2020 میں کہا گیا تھا کہ وہ اب اس پر عمل درآمد نہیں کر سکتا۔

Romy van Baarsen chatting to a Greek special forces member via Tinder
BBC
صحافی رومی وان بارسن کو یونانی سپیشل فورسز کے ایک رکن نے بتایا کہ انھیں کشتیوں کو واپس لے جانے کے لیے حکومت کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

ہم نے اپنی تحقیقات کے نتائج کو یونانی کوسٹ گارڈ کے حوالے کر دیا۔ ان کے جانب سے جواب دیا گیا کہ ان کا عملہ ’انتہائی پیشہ ورانہ مہارت، ذمہ داری کے مضبوط احساس اور انسانی زندگی اور بنیادی حقوق کے احترام کے ساتھ کام کر رہا ہے۔‘ مزید یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’ملک کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی مکمل تعمیل کر رہے ہیں۔‘

یونانی کوسٹ گارڈ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2015 سے 2024 تک ہیلینک کوسٹ گارڈ نے سمندر میں 6161 واقعات میں 250834 پناہ گزینوں یا تارکین وطن کو بچایا ہے۔ اس بڑے مشن کی انجام دہی کو بین الاقوامی برادری نے مثبت طور پر تسلیم کیا ہے۔

اس سے قبل یونانی کوسٹ گارڈ کو بحیرہِ روم میں تارکین وطن کے سب سے بڑے بحری جہاز کے حادثے میں کردار ادا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ برس جون میں یونان کے علاقے ایڈریانا کے ڈوبنے سے 600 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یونانی حکام کا اصرار ہے کہ کشتی کو کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور وہ بحفاظت اٹلی جا رہی تھی، اس لیے کوسٹ گارڈ کی جانب سے اسے بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.