’عدالتیں ریلیف دیتی ہیں لیکن پھر کسی نئے کیس میں پکڑ لیا جاتا ہے‘: پی ٹی آئی کی زیر حراست خواتین کے اہلخانہ کیا سوچتے ہیں؟

نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پر تشدد واقعات اور حالات پر قابو پانے کے لیے سینکڑوںافراد کو گرفتار کیا گیا جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران زیادہ تر خواتین کو ضمانتوں پر رہا کر دیا گیا تاہم پی ٹی آئی کی چند خواتین ایسی ہیں جو ابھی تک جیل میں بند ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔
نو مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد گرفتار ہونے والی پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان
Getty Images
نو مئی 2023 کی تاريخ نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سمیت کئی خاندانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا

’گزشتہ 13 مہینے میں میری بیٹی اور ہمارا خاندان جس اذیت سے گزرے ہیں وہ صرف میرا خدا جانتا ہے۔ اس بڑھاپے میں مجھے جگہ جگہ مختلف شہروں میں اپنی بیٹی سے ملنے جانا پڑتا ہے۔‘

ان مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی سابق ایم این اے عالیہ حمزہ کی والدہ گوہر بانو کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

یہ صورتحال صرف عالیہ حمزہ اور ان کے خاندان کو ہی درپرپیش نہیں بلکہ ان کی طرح تحریک انصاف سے وابستہ دو اور خواتین ڈاکٹر یاسمین راشد اور صنم جاوید بھی ابھی تک جیل سے رہائی نہیں پا سکی ہیں۔

یاد رہے ان تمام خواتین کو آج سے تقریباً ایک سال قبل اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ان پر نو مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

نو مئی 2023 کی تاريخ نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سمیت کئی خاندانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔

تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد ہی ملک بھر میں احتجاج اور پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے نتیجے میں لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس سمیت کئی سرکاری عمارتوں اور املاک کو نقصان پہنچا جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے اور چند اموات بھی ہوئیں۔

اس وقت حالات پر قابو پانے کے لیے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔

گزشتہ ایک سال کے دوران گرفتار زیادہ تر خواتین کو ضمانتوں پر رہا کر دیا گیا تاہم چند خواتین ایسی ہیں جو ابھی تک جیل میں بند ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔

ان خواتین کے خلاف کیا الزامات ہیں؟

ایڈوکیٹ خاقان میر کے مطابق ان خواتین کو زیادہ تر ان مقدمات میں شامل کیا گیا ہے جو سنہ 2023 میں 9 اور 10 مئی کے روز درج کیے گئے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مقدمات میں لگائی گئی زیادہ تر دفعات ایک ہی نوعیت کی ہیں، جس میں ریاست کے خلاف اکسانے، پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے، گھیراو جلاؤ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت قتل اور دہشت گردی جیسی دفعات بھی شامل ہیں۔

سابق ایم پی اے عالیہ حمزہ کا کیس لڑنے والے وکیل خاقان میر کے مطابق اب تک ان کو پانچ ایف آئیآرز میں شامل کیا گیا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پانچ میں سے ایک کیس میں عالیہ کو رہا کر دیا گیا جبکہ باقی تین کیسز میں ضمانت ہونے کے بعد انھیں گوجرانوالہ میں درج ایک کیس میں شامل کر کے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔‘

صنم جاوید کے والد جاويد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی کو سات مقدمات کا سامنا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ’میری بیٹی کسی ایک مقدمے میں بھی نامزد نہیں جبکہ اس کا نام بعد میں مقدمے کی ضمنی میں ڈال کر اسے گرفتار کیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک بیشتر کیسز میں صنم جاوید کو ضمانت مل چکی ہے لیکن جیسے ہی ان کی رہائی کا حکم نامہ جاری ہوتا ہے تو انھیں دوبارہ کسی نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

انھوں نے مزيد کہا کہ ’ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں باقاعدہ درخواست بھی دائر کی کہ ہمیں بتایا جائے کہ صنم کے خلاف ملک کے کس کس شہر میں مقدمے درج ہیں تاکہ ہم قانون کے مطابق کیسز لڑ سکیں۔‘

صنم اور عالیہ کی طرح ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی مختلف مقدمات کا سامنا ہے تاہم ان کو ایک سے دو کیسز میں باقاعدہ نامزد کیا گیا ہے۔

’پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی‘

گزشتہ 13 ماہ آپ کے خاندان کے کیسے گزرے؟ ڈاکٹر یاسمین راشد کے شوہر ڈاکٹر راشد نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر صاحبہ ہمارے گھر کا اہم ترین حصہ ہیں اور ان کے گھر میں نہ ہونے سے ہماری زندگی رک سی گئی ہے۔ میری والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے میرے خاندان اور گھر کے تمام معاملات سنبھال رکھے تھے۔ ہم سب کی زندگی ان کے گرد گھومتی ہے اس لیے ان کے جیل میں جانے سے کافی کچھ بدل گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’نو مئی کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا۔ میں گھر کی اوپر والی منزل پر سو رہا تھا۔ وہ آئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ موبائل اور کمپیوٹر اٹھایا، پھر مجھے گرفتار کر کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن پھر وہ میرے چھوٹے بھائی کو لے گئے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ڈاکٹر راشد کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر یاسمین کی گرفتاری سے قبل میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا لیکن ان کی گرفتاری کے بعد سب کچھ مجھے ہی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ میں ہی ان کے قانونی معاملات دیکھ رہ رہا ہوں۔ میں ان سے ملنے کبھی عدالت چلا جاتا ہوں تو کبھی جیل۔‘

بچوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا میرے ساتھ ہوتا ہے جبکہ باقی بچے باہر کے ملکوں میں نوکری کر رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی والدہ کے لیے خاصے پریشان رہتے ہیں لیکن ان کے لیے بھی بار بار دوسرے ملک سے آنا آسان نہیں۔‘

ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’وہ کینسر کی مریض ہیں اور بیمار رہتی ہیں تاہم اب تک انتظامیہ ہمارے ساتھ ان کے چیک اپ کے لیے تعاون کر رہی ہے۔ حال ہی میں ان کے کندھے نے کام کرنا چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے انھیں خاصی تکلیف ہے۔‘

انھوں نے مزيد بتایا کہ ’جیل میں اس وقت وہ اکیلی ہیں۔ پہلے صنم جاوید ان کے ساتھ ہوتی تھیں لیکن انھیں بھی گوجرانوالہ منتقل کر دیا گیا۔‘

نو مئی کے پر تشدد واقعات
BBC

’میں سمجھتا ہوں یہ قانونی نہیں بلکہ ذاتی لڑائی ہے‘

صنم جاوید کے والد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’نو مئی کے بعد پہلے چند مہینے ان کے اور ان کے خاندان کے لیے خاصے مشکل تھے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’متعدد بار پولیس نے صنم اور میرے گھر پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ وہ استعمال شدہ کپڑے اور جوتے بھی ہمارے گھر سے لے گئے۔‘

گزشتہ ایک سال میں ہونے والے چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ صنم کی گرفتاری کے بعد ہمیں اپنا گھر بھی تبدیل کرنا پڑا کیونکہ پچھلا گھر عدالت سے خاصا دور تھا۔

’اس لیے ہم نے شہر کے اس علاقے میں شفٹ ہو گئے جہاں سے ہماری رسائی عدالت تک آسان ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری زندگیاں نو مئی کے واقعے کے بعد خاصی تبدیل ہوئی ہیں۔ انھوں نے میری بیٹی کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد اس کے شوہر کو گرفتار کرکے آٹھ ماہ تک جیل میں رکھا۔ اس وقت صنم کے بچے میں اپنے پاس لے آیا۔ یہی نہیں دوسری بیٹی سے میرا ملنا مشکل ہو گیا۔ اس کے شوہر کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایسی صورتحال میں، میں اپنی بچیوں کو بھوکا مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‘

صنم جاوید کے والد نے یہ بھی کہا کہ ’سیاسی طور پر میں کبھی بھی عمران خان کی سیاست کا مداح نہیں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرا صنم کے ساتھ سیاسی اختلاف بھی تھا لیکن ہمارے گھر میں ایک دوسرے کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے سپورٹ کرے۔ اسی طرح میں پرتشدد سیاست کا بھی حامی نہیں ہوں لیکن نو مئی کے واقعے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں شفاف انکوائری ہونی چاہیے اور جس کا قصور ہو اسے سزا ملی چاہیے۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ان خواتین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلخصوص صنم کو۔ یہ لڑائی سوشل میڈیا سے شروع ہوئی اور آج اس نے قانونی نہیں ایک ذاتی لڑائی کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اور ان کی بیٹی کو بار بار مختلف ذریعے سے یہ پیغامات پہنچائے گئے کہ صنم مریم نواز کی ایما پر جیل میں ہیں۔

انھوں نے مزيد کہا کہ ’آپ دیکھ لیں کہ عدالتیں ریلیف دیتی ہیں لیکن پھر کسی نئے کیس میں پکڑ لیا جاتا ہے۔‘

ان کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری کا کہنا تھا ’مریم نواز اور پنجاب پولیس کا ان خواتین کے کسی کیس اور گرفتاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مریم نواز تو ان خواتین کو جانتی بھی نہیں۔ یہ خواتین قانون کے مطابق کیسز کا سامنا کر رہی ہیں۔‘

’میری بیٹی کو پولیس نے گھر سے بچوں کے سامنے گرفتار کیا‘

عالیہ حمزہ کی والدہ گوہر بانو نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’مجھے تو ٹی وی دیکھ کر پتا چلا تھا کہ عالیہ کو پولیس نے گھر سے اس کے بچوں کے سامنے گرفتار کیا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’میں لاہور گئی، سرگودھا گئی، گوجرانوالہ گئی۔ یہاں ہم پریشان ہیں، مشکل میں ہیں اور جیل میں میری بیٹی پریشان ہے۔ وہ بیمار ہوئی اسے ملیریا ہوا، اس کا آٹھ کلو وزن کم ہوا، اس نے بھوک ہڑتال کی، ایک مرتبہ وہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئی۔ دوسری جانب اس کی بچیاں ماں کے بغیر اکیلی زندگی گزار رہی ہیں۔ عالیہ کا شوہر کینسر کا مریض کا ہے۔ اس کو کاروبار میں نقصان ہوا۔ ہمارے لیے تو صرف پریشانی ہی پریشانی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پچھلے ایک سال میں عالیہ کو جن مقدموں میں شامل کیا گیا، وہ زیادہ تر ایک ہی دن کے ہیں۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص ایک ہی دن میں لاہور، میانوالی، سرگودھا اور گوجرانوالہ میں کیسے موجود ہو سکتا ہے۔ ہم تو انصاف کے منتظر ہیں۔‘

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ عدالتی معاملات چل رہے ہیں جبکہ دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات میں ضمانت بنیادی حق نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پر ریاست کے خلاف واقعات میں ملوث ہونے جیسے الزامات ہوں اور آپ ان سے بچنے کے لیے عورت کارڈ کا استعمال کریں۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.