سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
سپریم کورٹٓ کے فیصلے میں تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے فل کورٹ بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اظہر حسن رضوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین شامل ہیں۔سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کیا ہے؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ نے 14 مارچ کو کالعدم قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی درخواست میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔ مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کر دیا تھا۔اس سے قبل 3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا تھا۔