کولکتہ ریپ کیس: جب پولیس نے ’ٹوٹے ہوئے بلیوٹوتھ‘ سے ملزم کا سراغ لگایا

کولکتہ میں ہسپتال کی ایک ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد سے شہر کے حالات کشیدہ ہیں۔ ریاست کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز احتجاج کر رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ریپ کیس
Getty Images

گذشتہ ہفتے جمعے کو رات گئے جب ایک 31 سالہ خاتون ڈاکٹر انڈین ریاست کولکتہ کے ایک ہسپتال میں سخت دن گزارنے کے بعد ایک سیمینار ہال میں سونے کے لیے گئیں تو یہ آخری بار تھا جب انھیں زندہ دیکھا گیا تھا۔

اگلی صبح ان کے ساتھیوں کو ہال کے پوڈیم کے قریب سے ان کی نیم برہنہ حالت میں لاش ملی جس پر بہت زیادہ زخم تھے۔

کولکتہ کے 138 سالہ پرانے آر جی کار میڈیکل کالج میں اس خاتون ڈاکٹر کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے پر انڈیا بھر میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کرتے ہوئے صحت کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کے تحفظ کے لیے سخت وفاقی قانون کا مطالبہ کیا ہے۔

اس واقعے نے ملک میں صحت کے شعبے سے منسلک افراد کے خلاف تشدد پر ایک بار پھر روشنی ڈالی ہے۔

یاد رہے کہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب، کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج کے سیمینار ہال میں ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر کو اس وقت ریپ اور قتل کر دیا گیا جب وہ سو رہی تھیں۔ اس واقعے کے بعد سے ہسپتال کے ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹوڈنٹس سراپا احتجاج ہیں۔

پولیس کے مطابق ریپ اور قتل کا یہ واقعہ راتتین سے صبح چھ بجے کے درمیان پیش آیا۔

انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ایک پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کو پہلے قتل کیا گیا اور پھر اُن کا ریپ کیا گیا۔

ریپ
Getty Images

دوسری جانب اس واقعے کے بعد آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال کے پرنسپل ڈاکٹر سندیپ گھوش نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’ڈاکٹر سندیپ نے یہ فیصلہ اپنی ایک ایسی طلبہ کے ریپ اور ہلاکت کے بعد کیا جنھیں وہ اپنی بیٹی سمجھتے تھے، نہ صرف یہ بلکہ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کے غم و غصہ اور دباؤ نے بھی انھیں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔‘

اس واقعے کے خلاف ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں احتجاج کیا گیا ہے۔

اتوار کو کولکتہ پولیس کمشنر ونیت گوئل نے میڈیکل کالج کے باہر احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں سے ملاقات کی جس کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ ’پوسٹ مارٹم رپورٹ لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے اور علاقے میں تعینات ایک اسسٹنٹ پولیس افسر کو غفلت برتنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘

ساتھ ہی ہسپتال انتظامیہ نے ڈیوٹی میں غفلت برتنے پر دو سکیورٹی اہلکاروں کو بھی ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔

کولکتہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے خاتون کو ریپ کرنے والے ملزم کو واقعے کے چھ گھنٹے بعد ہی گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کے مطابق اس واردات کے بعد ملزم اپنے گھر گیا اور ثبوت مٹانے کے لیے اپنے کپڑے دھوئے اور پھر وہیں سو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم کا ہسپتال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا تاہم وہ باقاعدگی سے ہسپتال آتا جاتا تھا۔

ملزم کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے وہ کولکتہ پولیس کے ساتھ بوقتِ ضرورت ایک رضاکار کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔

ابتدائی طور پر پولیس نے اس واقعہ کے حوالے سے دائر ہونے والی ایف آئی آر میں قتل کی دفعات لگائیں مگر مقتولہ کے اہلِ خانہ کے اصرار پر اس میں ریپ کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے مقتولہ کے والد نے کہا تھا کہ ’میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی، لیکن کم از کم تفتیش تو ٹھیک سے ہونی چاہیے۔‘

ریپ
Getty Images

پولیس نے ملزم کو کیسے پکڑا؟

پولیس نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی تھی اور ملزم کو تفتیش شروع ہونے کے چھ گھنٹے کے اندر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ سی سی ٹی وی ویڈیو کے علاوہ پولیس کو جائے وقوعہ سے کچھ شواہد ملے تھے جنھوں نے پولیس کو براہ راست ملزم تک پہنچنے میں مدد کی۔

پولیس کو ہسپتال کے سیمینار ہال سے ایک ٹوٹا ہوا بلیوٹوتھ ایئر فون ملا تھا۔ جو دورانِ تفتیش ملزم کے فون سے منسلک یعنی کنیکٹ ہو گیا۔

اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی ملزم کو صبح تقریباً چار بجے ہسپتال کی ایمرجنسی بلڈنگ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس وقت ملزم نے ایئرفون لگائے ہوئے تھے لیکن جب وہ تقریباً 40 منٹ بعد ہسپتال سے نکلے تو اُن کے کانوں میں ایئرفون نہیں تھے۔

ریپ
Getty Images

ملزم نے 2019 میں رضاکار کے طور مقامی پولیس کے ساتھ کام شروع کیا۔ پولیس کے مطابق یہی وجہ تھی کہ ملزمان کو ہسپتال آنے اور جانے میں کسی بھی قسم کی مداخلت یا روک ٹوک کا سامنا نہیں تھا۔

ملزم کولکتہ پولیس کے ساتھ رضاکار کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انھیں کئی بار ہسپتال کے باہر پولیس چوکی پر بھی تعینات کیا گیا تھا۔

پولیس نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ملزم کا تعلق پولیس ویلفیئر ایسوسی ایشن سے بھی تھا جس کی وجہ سے انھیں ہسپتال تک آسانی سے رسائی حاصل تھی۔ انھوں نے ہسپتال میں داخل پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کی بھی دیکھ بھال کی تھی۔

ڈاکٹروں کا احتجاج

ریپ
Getty Images

ملزم کی گرفتاری کے بعد بھی ڈاکٹر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہسپتال کے احاطے میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے اس معاملے نے خواتین کی حفاظت پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

وہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس معاملے میں بیان دیا ہے کہ اگرچہ وہ خود سزائے موت کے خلاف ہیں لیکن وہ اس معاملے میں ملزم کو سزائے موت دینے کی حمایت کریں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس واقعہ کی کسی مرکزی ایجنسی سے تحقیقات کی ضرورت ہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

آر جی کار میڈیکل کالج مغربی بنگال کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ 26ایکڑ پر پھیلے اس ہسپتال میں مریضوں کو داخل کرنے کے لیے 1200 بستر ہیں جبکہ او پی ڈی میں روزانہ اوسطاً 2500 مریض آتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ایک ہزار سے زائد مریض ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں بھی آتے ہیں۔

اس بڑے ہسپتال میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک بھر کے ہسپتالوں کے ڈاکٹر شدید غم اور غصے کی کیفیت میں ہیں۔

ڈاکٹرز ابھی بھی آر جی کار میڈیکل کالج باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں جبکہ مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔

فیڈریشن آف ریذیڈنٹ ڈاکٹرز نے پیر کو ملک بھر میں صحت کی غیر ضروری خدمات کو روکنے کا اعلان کیا۔ دہلی کے سرکاری ہسپتالوں نے بھی پیر سے غیر معینہ مدت تک کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا۔

کئی ہسپتالوں کی جانب سے جاری بیانات میں کہا گیا کہ پیر سے او پی ڈی، آپریشن تھیٹر اور وارڈ ڈیوٹی بند کردی جائے گی۔

مظاہرین صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور متاثرہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.