آسام کے وزیر اعلیٰ کا مسلم یونیورسٹی پر ’فلڈ جہاد‘ کا الزام: ’اس کی تعمیر کے لیے کاٹے گئے درخت سیلاب کی وجہ بنے‘

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرما نے دارالحکومت گوہاٹی کے قریب واقع ریاست میگھالیہ میں قائم ایک مسلمیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر ’فلڈ جہاد‘ کا الزام لگاتے ہوئے اسے خطے میں سیلاب کی وجہ قرار دیا ہے۔
ہمنتا بسوا سرما، آسام وزیر اعلی
Getty Images
آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرما نے بہت سے معاملات میں مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھوں نے ریاست میں مدارس پر آج تک کا سب سے بڑا کریک ڈاؤن کیا ہے

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرما نے دارالحکومت گوہاٹی کے قریب واقع ریاست میگھالیہ میں قائم ایک مسلم ادارے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر فلڈ جہاد کا الزام لگایا ہے۔

یہ شمال مشرقی ریاستوں کی واحد نجی یونیورسٹی ہے جو حال میں وزارت تعلیم سے جاری ہونے والی یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہے۔

وزیر اعلٰی ہمنتا سرما نے گوہاٹی میں آنے والے سیلاب کے پیش نظر یونیورسٹیوں کی رینکنگ جاری ہونے سے دو دن قبل اس پر ’فلڈ جہاد‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

لیکن اس کے بعد انھوں نے اس تعلیمی ادارے کو جہاں ’تعلیم کو برباد‘ کرنے کا الزام لگایا ہے وہیں اس کے گنبد نما صدر دروازے کو ’مکہ‘ سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہاں نامگھر (مقامی آسامی عبادت گاہ) اور چرچ بھی ہونا چاہیے۔

دی انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی پر فلڈ جہاد کا الزام لگاتے ہوئے وزیر اعلیٰ سرما کا کہنا تھا کہ ’وہاں جانا شرمناک لگتا ہے، آپ کو ’مکہ‘ کے نیچے سے جانا پڑتا ہے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہاں ایک نامگھر بھی ہونا چاہیے۔ ’مکہ-مدینہ‘، ایک چرچ اور نامگھر تینوں بنائیں۔‘

اس سے قبل انھوں نے یونیورسٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں ہونے والی تعمیرات کی وجہ سے پیڑ کاٹے گئے ہیں جو کہ سیلاب کا سبب بنے ہیں اور یہ کہ ریاست میں برسراقتدار بی جے پی کی حکومت اس کے خلاف نیشنل گرین ٹریبیونل میں جائے گی۔

یہ یونیورسٹی ریاست میگھالیہ سے گوہاٹی شہر میں داخل ہونے والے علاقے میں ایک پہاڑی پر تقریبا 100 ایکڑ میں قائم ہے۔ اسے سنہ 2008 میں ایک بنگالی مسلم محبوب الحق نامی ماہر تعلیم نے قائم کیا تھا اور وہی اس کے چانسلر ہیں۔

12 اگست کو جاری ہونے والی رینکنگ کے بعد دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق محبوب الحق نے کہا کہ ’ایک اچھی خبر ہے۔ جب کبھی جب کو آنکھ میں جلن ہو تو اس میں پانی ڈالنا اچھا ہوتا ہے۔‘

ان کا اشارہ ہمنتا بسوا شرما کے سیلاب جہاد کے حوالے سے دیے گئے بیان کی طرف تھا۔

بہر حال آسام کے وزیر اعلی کا ’فلڈ جہاد‘ کا الزام نیا نہیں ہے اور نہ ہی ان کا مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی نئی بات ہے۔ اس سے قبل گذشتہ سال انھوں نے سبزی کی قیمتتوں میں اضافے کے لیے بھی ریاست کے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

ہر سال برسات اور مون سون کے موسم میں شمال مشرقی ریاستوں سمیت بہار اور مغربی بنگال کے بعض علاقے سیلاب کی زد میں آتے ہیں لیکن آسام کے علاوہ کہیں اور اس کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔

ماضی میں ’فلڈ جہاد‘ کے دعوؤں کی حقیقت

دو سال قبل سنہ 2022 میں جب انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں تباہ کن سیلاب آیا تو اس وقت ایسے دعوے گردش کرنے لگے تھے کہ اس کے ذمہ دار مقامی مسلمان ہیں۔ مگر کیا ان دعوؤں میں کوئی سچائی بھی تھی؟

بی بی سی کی فیکٹ چیک ٹیم نے جولائی 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد آسام کا دورہ کیا تھا اور بی بی سی ڈِس اِنفارمیشن یونٹ کی مدھاوی اروڑا اور مارکو سِلوا نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں مسلمانوں پر ’فلڈ جہاد‘ کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

ان کی رپورٹ کے مطابق جب تین جولائی 2022 کو علی الصبح پولیس نے نذیر حسین لاسکر کے دروازے پر دستک دی تو وہ حیران رہ گئے۔ وہ ریاست میں کئی برسوں سے فلڈ پروٹیکشن یعنی سیلاب کو روکنے کے لیے حفاظتی پُشتے بنانے کا کام کرتے تھے۔

مگر اس صبحپولیس نے انھیں گرفتار کیا اور نذیر حسین پر ’سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے‘ اور ’سیلابی پانی کو آبادی میں گھسنے سے روکنے والے پشتے کو توڑنے کا الزام لگایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں 16 سال سے گورنمنٹ کے لیے پشتے بنانے کا کام کر رہا ہوں۔ میں انھیں نقصان کیوں پہنچاؤں گا؟‘

ضمانت پر رہائی سے قبل نذیر کو سلاخوں کے پیچھے 20 دن گزارنا پڑے۔ اس الزام میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، مگر اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک طوفان برپا ہوا تھا۔

رواں سال اگست کی طرح سنہ 2022 کے مئی اور جون میں آسام میں دو سیلابی ریلے آئے جن میں مجموعی طور پر 192 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ ریاست میں ہر سال سیلاب آتا ہے، مگر اس بار یہ وقت سے پہلے آگیا اور بارشیں بھی زیادہ زوردار تھیں۔

مگر سوشل میڈیا کے صارفین کے خیال میں اس آفت کے پیچھے کسی کا ہاتھ تھا۔

انھوں نے بغیر کسی ثبوت کے یہ دعوے کرنا شروع کر دیے کہ یہ سیلاب انسان کا لایا ہوا ہے، اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے جان بوجھ کر ہندو اکثریت والے شہر سلچر کے حفاظتی بندوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

تین دوسرے مسلمانوں سمیت نذیر حسین کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹوں کا انبار لگ گیا جس میں ان پر ’فلڈ جہاد‘ یعنی سیلابی جہاد شروع کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

’انتظامی نااہلی‘ اور فلڈ جہاد کا الزام

سیلاب
EPA
انڈیا کی مختلف ریاستوں میں سیلاب سے ہرسال بڑے نقصانات ہوتے ہیں

آسام کے گرد 2500 میل لمبے حفاظتی پشتے یا بند بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پرانے ہیں اور پچھلی چھ سات دہائی کے دوران کمزور ہو چکے ہیں۔

23 مئی 2022 کو شمال مشرقی انڈیا اور مشرقی بنگلہ دیش میں بہنے والے دریائے بارک پر بنے ایک بند کو نقصان پہنچا تھا۔ یہ شگاف بیتھوکنڈی کے مسلم اکثریتی علاقے میں پڑا، اور ہندو اکثریت والے علاقے سِلچر میں آنے والے شدید سیلاب کے دیگر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا۔

سلچر کی سپرنٹینڈنٹ آف پولیس رامندیپ کور نے کہا تھا کہ ’دوسری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ شگاف بھی تھا۔ مگر علاقے میں صرف اسی مقام سے پانی داخل نہیں ہوا تھا۔‘

بی بی سی کے خیال میں یہ ہی وہ واقعہ تھا جس کی وجہ سے نذیر حسین اور تین دوسرے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں ایک پانچویں شخص کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کسی کا بھی اس شگاف سے کسی طرح کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔

ممبئی میں قائم جیمسیٹجی ٹاٹا سکول آف ڈیزاسٹر منیجمنٹ سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر نِرمالیا چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بہت سے ایسے شگاف ان پشتوں کی مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پڑتے ہیں۔

’بعض معاملات میں انسانی مداخلت بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر کسی بند میں شگاف ڈال دیا ہو تاکہ سیلابی پانی علاقے میں جمع ہونے کی بجائے نکل جائے۔‘

سلچر پولیس نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا تھا۔

سپرنٹینڈنٹ کورنے کہا تھا کہ ’فلڈ جہاد‘ نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ گزشتہ برسوں میں انتظامیہ خود سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے بندوں میں شگاف ڈالتی رہی ہے۔ اس برس ایسا نہیں ہوا تو بعض لوگوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔‘

پروفیسر چوہدری نے کہا کہ ’اس طرح کا دعویٰ (’فلڈ جہاد‘) فرار کا آسان راستہ ہے۔ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے، اور میرے خیال میں اس کا حل زیادہ سوجھ بوجھ سے نکالنا چاہیے۔‘

مگر یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب مسلمانوں کے خلاف سازشی نظریات کو عام ٹی وی چینلوں پر بھی جگہ ملی تھی۔

عالمی وبا کے دنوں میں انڈین مسلمانوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ جان بوجھ کر کووڈکی وبا پھیلا رہے ہیں (جسے بعض انڈین ذرائع ابلاغ نے ’کورونا جہاد‘ کا نام دیا۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 سے، جب وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے، انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی اور گمراہ کن معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی اس کی تردید کرتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.