وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طلبا شامل ہوں گے؟ 

image

'میرے پاس موبائل ہے نہ لیپ ٹاپ، چناںچہ میں یونیورسٹی ورکشاپس اپنے بھائی کے موبائل پر اٹینڈ کرتی رہی ہوں۔ بھائی کے کام کے دنوں میں اگر ورکشاپ ہوتی تو انہیں چھٹی کرنی پڑتی یا وہ ورکشاپ کے بعد کام پر جاتے۔ پھر بھائی کو کام کے لیے بیرون شہر جانا پڑا جس کے باعث میں ورکشاپ میں شرکت نہ کر سکی اور مجھے سمسٹر میں فیل کر دیا گیا۔' 

یہ کہنا ہے سکردو سے تعلق رکھنے والی گریجویشن کی طالبہ اُمِ ہانی کا جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ وہ حکومت کی جانب سے وزیراعظم کی لیپ ٹاپ سکیم سے اوپن یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کو شامل کیے جانے کی منتظر ہیں لیکن انہیں بتایا گیا ہے کہ اس بار بھی اوپن یونیورسٹی کے طلبا کو لیپ ٹاپ نہیں ملیں گے۔ 

حکومت نے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت ملک بھر کی سرکاری جامعات کے طلبہ و طالبات کو ایک لاکھ 20 ہزار لیپ ٹاپ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سال 2023 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا سکیم میں نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے اُم ہانی کچھ زیادہ پرامید نہیں۔ 

طلبہ نے وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کے اعلان کے بعد جب اپنی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ افیئرز ڈائریکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی حکومت اور ایچ ای سی کے سامنے اس معاملے کو اٹھا رہی ہے۔ 

خیال رہے کہ نواز شریف دور میں بھی جب لیپ ٹاپ سکیم کا آغاز کیا گیا تھا تو اس وقت بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو ابتدائی طور پر اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا تاہم طلبہ کی جانب سے احتجاج کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طلبہ طالبات میں بھی لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے تھے۔ لیکن سال 2023 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بجائے زیادہ تر نجی جامعات کے طلبا میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔ اس وقت بھی طلبا نے احتجاج کیا لیکن  کام بن نہ سکا۔ 

حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو لیپ ٹاپ سے محروم کرنے کے گزشتہ سال کے فیصلے نے ملک کے دور افتادہ علاقوں سے فاصلاتی نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو مایوس کیا تھا جس کی وجہ سے طلبا اب بھی غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، جس میں زیرتعلیم طلبا کی تعداد ملک کے کسی بھی دوسرے تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان لوگوں کے لیے ہمیشہ سے امید کی ایک کرن رہی ہے جو روایتی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا، ورکنگ پروفیشنلز اور وہ افراد جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، اس یونیورسٹی کے ذریعے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے دور دراز علاقے سکردو سے تعلق رکھنے والی طالبہ ام ہانی جو کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں گریجویشن کی طالبہ ہیں، نے بتایا کہ ’ہمارے مالی حالات اس قابل نہیں کہ کسی بڑی یونیورسٹی میں باقاعدہ داخلہ لے سکوں۔ اس لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ اس کے لیے مجھے کسی یونیورسٹی میں جانا تو نہیں پڑتا لیکن یونیورسٹی کی آن لائن ورکشاپ میں شریک ہونا ضروری ہے۔ میرے پاس موبائل یا لیپ ٹاپ نہیں تھا اس لیے میں اپنے بھائی کا فون استعمال کرتے ہوئے ورکشاپ اٹینڈ کرتی تھی۔ میرے بھائی مزدور ہیں اور جب کبھی مجھے ورکشاپ اٹینڈ کرنا ہوتی تو وہ یا تو کام سے چھٹی کرتے تھے یا پھر میری ورکشاپ ختم ہونے کے بعد اپنے کام پر چلے جاتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا، ’میں جب تیسرے سمسٹر میں زیرتعلیم تھی تو بھائی کا شہر سے باہر کام  ہو گیا جہاں سے اچھے پیسے ملنے تھے لیکن اس وقت بھی ہمارے پاس نیا فون خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ ساتھ ہی ورکشاپ شروع ہو گئی اور میں وہ ورکشاپ اٹینڈ کرنے سے محروم رہی۔ جس وجہ سے مجھے اس سمسٹر میں فیل کر دیا گیا۔' 

انہوں نے مزید کہا کہ 'مجھے امید تھی کہ اگر وزیراعظم کی جانب سے لیپ ٹاپ سکیم کا آغاز کیا گیا ہے تو ایسے میں مجھے بھی لیپ ٹاپ مل جائے گا لیکن  پتہ چلا ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سکیم میں شامل نہیں۔‘

امِ ہانی کا کہنا تھا 'اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ لیپ ٹاپ کی ضرورت ہم فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو ہوتی ہے کیونکہ ہم اپنے گھروں میں رہتے ہوئے یونیورسٹی  لیکچرز اٹینڈ کرتے ہیں اور ورک شاپس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم میں سے اکثر طالب علم چھوٹی موٹی ملازمت کر کے گزاراہ کر رہے  ہیں اس لیے اگر لیپ ٹاپ مل جائیں گے تو ہم فری لانسنگ سمیت کئی ایک کام کر کے اپنا روزگار حاصل کر سکتے ہیں.'

صرف امِ ہانی ہی نہیں بلکہ بھکر سے تعلق رکھنے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ ماریہ اختر جو پچھلے سال لیپ ٹاپ سے محروم کر دی گئی تھیں، اب کی بار بھی کچھ زیادہ پرامید نہیں اور خدشات کا شکار ہیں۔ 

پاکستان میں حکومت کی جانب سے ہر سال طلبہ کو سکیم کے تحت لیپ ٹاپ دیے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پیانہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’علامہ اقبال یونیورسٹی کا انتخاب ہی اس لیے کیا تھا کہ کسی اور یونیورسٹی کی فیس اور ہاسٹل وغیرہ کے اخراجات برداشت کرنا والدین کے بس کی بات نہیں تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’فاصلاتی نظام اور آن لائن کلاسز کی وجہ سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے ایک بہترین ذریعہ نظر آیا۔ میں موبائل پر آن لائن کلاسز اٹینڈ کرتی ہوں لیکن جب کبھی پریزنٹیشن دینی ہو یا کوئی اسائنمنٹ بنانی ہو تو لیپ ٹاپ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن میرے پاس لیپ ٹاپ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے لیے کبھی کسی دوست یا رشتے دار کا لیپ ٹاپ استعمال کیا لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ مل جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ 'مجھے امید تھی کہ حکومت کی جانب سے مجھے بھی لیپ ٹاپ مل جائے گا لیکن اپلائی کرتے وقت پتہ چلا کہ ہماری یونیورسٹی کو اس سکیم سے نکال دیا گیا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے کیونکہ جن یونیورسٹیوں کو یہ لیپ ٹاپ دیے گئے وہاں کے طلبا و طالبات تو اس طرح کے کئی لیپ ٹاپ افورڈ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سے اپیل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اب کی بار ہمیں بھی لیپ ٹاپ دیے جائیں تاکہ ہم اپنی تعلیم کا سلسلہ بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔‘

انڈیا کی سرحد سے صرف چار کلومیٹر دور شکر گڑھ کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی کے ایک اور طالب علم سجاول انصاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک چھوٹی سی ملازمت کرتے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ نہ لیتے تو وہ اپنا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھا نہیں سکتے تھے کیونکہ باقاعدہ داخلہ لینے کے لیے ملازمت چھوڑ کر اور جائیداد فروخت کر کے لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا۔ کیونکہ اس وقت نارووال میں بھی یونیورسٹی نہیں تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ 'میرے پاس ایک لیپ ٹاپ تھا جسے میں کئی برسوں سے استعمال میں لا رہا تھا لیکن کچھ ماہ پہلے وہ خراب ہو گیا اور اس کو ٹھیک کرانے میں اتنے پیسے لگنے تھے کہ میرے پاس وہ پیسے جمع نہیں ہو سکے۔ میں اس لیے بھی رُک گیا تھا کہ مجھے اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم پھر سے شروع ہونے جا رہی ہے. لیکن اب بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ہمارے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔‘

اس حوالے سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی انتظامیہ بات کرنے کو تیار نہیں تاہم ایک اعلٰی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو یہ بتایا کہ ابتدائی طور پر اوپن یونیورسٹی کو لیپ ٹاپ سکیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ طلبا نے اس سلسلہ میں انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انھیں انتظار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکام کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے طلبہ کو لیپ ٹاپ سکیم میں شامل کرنے کے لیے ای میل کی گئی ہے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ 

اس حوالے سے جب اردو نیوز نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’اس بار سکیم میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں شامل نہیں ہیں۔‘

ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تو پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے تو اس کو سکیم میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ تو پہلے ہی فاصلاتی نظام کے تحت تعلیم دے رہے ہیں۔‘

 ان سے جب استفسار کیا گیا کہ فاصلاتی نظام تعلیم کے لیے تو لیپ ٹاپ زیادہ ضروری ہیں مگر انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ 

تاہم ایچ ای سی کے ترجمان نے کہا کہ ’کم وسائل کی حامل جامعات کی فہرست سردست جاری نہیں کی گئی۔ لیپ ٹاپ کی خریداری کا عمل جاری ہے، جس کے بعد فہرست جاری کی جائے گی اور طلبا سے رجسٹرڈ ہونے کے لیے کہا جائے گا۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد فہرست جاری کی جائے گی۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.