گالف ٹورنامنٹ میں ایک شاٹ نے کیسے ’کیڈی‘ محمد قاسم کی زندگی بدل دی

45 سالہ محمد قاسم کو معلوم تھا کہ کراچی میں یہ گالف ٹورنامنٹ شاید ان کی زندگی کا پہلا اور آخری موقع ہوگا۔ انھوں نے 186 یارڈ کی ’ہول ان ون شاٹ‘ لگانے سے قبل دعا مانگی اور پھر ’اللہ نے یہ موقع ضائع نہیں کیا، تحفہ دیا۔‘

’ہول اِن ون پرائز بانڈ ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاٹ لگانا ہوتا ہے۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں میں کوئی ایک شاٹ ہول کے اندر جاتی ہے۔ میری خوش قسمتی تھی، خدا نے انعام دینا تھا۔‘

ان جذبات کا اظہار 45 سالہ محمد قاسم نے کراچی میں منعقدہ گالف ٹورنامنٹ میں 186 یارڈ کا ’ہول ان ون شاٹ‘ لگا کر کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی جیتنے کے بعد کیا۔

انھوں نے یہ کارنامہ پاکستانی بحریہ کے سالانہ چیف آف نیول سٹاف گالف ٹورنامنٹ میں انجام دیا جس میں ملک میں گولف کے بہترین کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد قاسم درحقیقت ایک ’کیڈی‘ کا کام کرتے ہیں۔ یعنی وہ گالف کورس میں کھلاڑیوں کا سامان اٹھاتے ہیں اور گالف کورس پر کھیل کے دوران ان کی معاونت کرتے ہیں۔

غربت کے باعث کم عمری میں بال بوائے اور کیڈی کا فیصلہ

محمد قاسم کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو میں ملازمت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی پسماندگی میں گزاری کیونکہ ’والد کی آمدن سے گزارا نہیں ہو رہا تھا۔‘

ان کی عمر نو سال کے قریب تھی اور وہ پہلی جماعت میں پڑھتے تھے لیکن خاندان تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ لہذا انھوں نے خود کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے بڑے بھائی سے مشورہ کیا کہ ہم کیا کریں۔ اس کے مشورے سے گالف کلب جانا شروع کیا۔ یہ 1992 کا وقت تھا۔ اس نے کہا تھا کہ آٹھ، دس روپے ملتے ہیں۔ ان دنوں وہ رقم بڑی چیز تھی۔‘

محمد قاسم بتاتے ہیں کہ انھوں نے پہلے ٹینس کورٹس میں بال بوائے کا کام کیا۔ پھر کیڈی یعنی گالف کے کھلاڑیوں کا سامان اٹھانے کا کام شروع کردیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کیڈیز کا کام ہوتا ہے سامان اٹھانا، بال یعنی گیند کی نظر داری، سٹک صاف کرنا، اچھا پروٹوکول دینا تاکہ ممبر خوش ہو کر جائے۔

’اگر ممبر خوش ہو گا تو ظاہر سی بات ہے کہ دو روپے اضافی ملیں گے۔‘

ہماری محمد قاسم سے کراچی گالف کلب میں ملاقات ہوئی جہاں ان جیسے کئی کیڈیز سامان کندھوں پر لیے آ اور جا رہے تھے۔

قاسم نے بتایا کہ اس بیگ میں پندرہ سے بیس کلو وزن ہوتا ہے اور کم از کم پانچ گھنٹے کا راؤنڈ ہوتا ہے۔ اس کے دوران ’آپ نے پانچ گھنٹے دھوپ میں چلنا بھی ہے۔ افسر کی باتیں بھی سننی ہیں۔ لائن بھی دیکھنی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بال گم جائے تو آپ کا سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ کیڈی کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بال پر نظر جمائے رکھتا ہے۔

’اگر بال گم ہوجائے تو اس سے کھلاڑی کو دُکھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کا فوکس نہیں رہتا۔ لہذا آپ اچھا کام کریں گے تو آپ کا کھلاڑی اچھا کھیلے گا۔ آپ کے روز گار میں برکت پڑے گی۔ وہ جیتیں گے، کامیاب ہوں گے تو آپ کو اچھی دیہاڑی ملے گی۔‘

یاد رہے کہ گالف کے قواعد کے مطابق اگر شاٹ کے بعد بال کھو جائے تو کھلاڑی پر جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ اس لیے کیڈی کی بنیادی ذمہ داری اس کی نگرانی بھی ہوتی ہے۔

محمد قاسم
BBC

کیڈی سے گالف پلیئر

کیڈی کا کام کرتے کرتے فطری طور پر محمد قاسم میں بھی گالف کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے استاد شاہد علی بنے جو منگلا گالف کلب سے تھے۔ انھوں نے پرانی سٹک انھیں دیں تاکہ پہلے ان کے ساتھ کھیلیں جس سے انھوں نے پریکٹس شروع کی۔

قاسم بتاتے ہیں کہ 1998 میں انھوں نے ملتان میں پہلا ٹورنامنٹ کھیلا جس میں انھوں نے کوالیفائی کیا۔ اس سے ان کا اعتماد بڑھا کہ وہ بھی کچھ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کراچی چلے جاؤ وہاں بزنس مین ہیں۔ اچھے کھیلنے والے ہیں اور سپورٹ بھی کرتے ہیں۔‘

1999 میں وہ کراچی آ گئے اور یہاں ڈی ایچ اے میں اپنی انٹری کرائی۔ محمد قاسم ڈی ایچ اے گالف کلب میں کیڈی کا کام بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں وہاں اپنی پریکٹس اور کوچنگ بھی کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کیڈی کی فیس کم ہے جس سے گزارا مشکل ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’ہر کلب کی مختلف فیس ہے۔ کوئی آٹھ سو روپے دیتا ہے، تو کوئی ہزار روپے دیتا ہے۔ کیڈی غریب ہیں، دور سے آتے ہیں، کھانا بھی کلب میں کھاتے ہیں۔

’اگر ہزار روپے کمائیں گے تو دو سو روپے کا کھانا کھا جائیں گے۔ سو روپے کرایہ لگ جائے گا۔ تو ان کے پاس بچے گا کیا؟‘

’یہاں صبح آ جائیں 70، 80 کیڈی ملیں گے۔ ان میں سے 20، 25 کیڈیز کی دیہاڑی لگتی ہے۔ صرف سنیچر اور اتوار کو پچاس کیڈیز کو روزگار ملتا ہے۔‘

محمد قاسم کے مطابق یہ ہر کیڈی کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ گالفر بننا چاہتا ہے کہ صرف مزدور رہنا چاہتا ہے۔ ’جو کلب میں آتا ہے وہ ایک مرتبہ کلب سٹک پکڑ لے تو اس کا شوق ہوتا ہے کہ میں گالفر بنوں۔ کھیلیں بھی اور کھلائیں بھی۔‘

محمد قاسم
BBC

’فیس کے پیسے نہیں تھے‘

پاکستان میں گالف کلبز میں صرف ان کے رکن ہی کھیل سکتے ہیں۔ جبکہ گالف کی کٹ کم از کم پچاس ہزار روپے مالیت کی ہے۔

محمد قاسم کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ یہ مہنگا کھیل ہے لیکن جو آپ کے ساتھ کے لوگ ہوتے ہیں، وہ سپورٹ کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں جب میچ کھیلنے آیا تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ افورڈ کر سکوں۔ کسی نے مدد کی۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میرا نام شامل ہوگا کیونکہ میں نے بہت گندا کھیلا تھا۔

’ملتان میں ٹورنامنٹ کے دوران مجھے ہیٹ سٹروک ہو گیا۔ وہاں ہسپتال میں داخل تھا۔ مجھے کنولا لگا ہوا تھا، پھر بھی چار راؤنڈ پورے کیے۔‘

محمد قاسم نے بتایا کہ ان کا نام شامل ہوا اور انھوں نے ’ہول ان ون‘ کا شاٹ مارنے سے پہلے دعا کی کہ یہی پہلا اور آخری موقع ہے۔ ’بس اللہ نے موقع ضائع نہیں کیا اور تحفہ دیا۔‘

یاد رہے کہ گالف میں ’ہول ان ون‘ اس شاٹ کو کہا جاتا ہے جس میں کھلاڑی ایک لانگ شاٹ کھیل کر بال ہول میں بھیجنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

محمد قاسم کو ہول ان ون کے انعام میں ٹویوٹا کی لگژری گاڑی ’فارچونر‘ ملی ہے جس کی مالیت دو کروڑ سے زائد ہے جبکہ ٹورنامنٹ جیتنے کا انعام 12 لاکھ روپے ہے۔

قاسم نے ہول ان ون کراچی گالف کلب کے ریڈ کورس کے ہول نمبر تین پر کیا۔

محمد قاسم
BBC

گاڑی تو مل گئی مگر ’پیٹرول کہاں سے لائیں‘

محمد قاسم کراچی کی غریب بستی قیوم آباد کے رہائشی ہیں۔ اپنی ایک پرانی موٹر سائیکل پر گالف کی بھاری کٹ لے کر گالف کلب کھیلنے اور کھلانے جاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس گاڑی کا ایک، دو روز شو دیکھیں گے۔ اس کے بعد اس کو فروخت کریں گے اور اس رقم سے بچوں کے لیے اچھا سا گھر لیں گے اور ان کی بہتر تعلیم کا بندوبست کریں گے۔

وہ کہتے ہیں ’تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جو میں نہ کر پایا وہ (بچے) اس سے محروم نہ رہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ مہنگی گاڑی ہے۔ ہم تو اس کا پیٹرول بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے خرچے پورے نہیں کر پاتے، اس کا پیٹرول کہاں سے لائیں گے؟

’اس لیے اس کو رکھنا بہت مشکل کام ہیں۔ اس کو فروخت کریں گے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.