ڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘

دو دن قبل پیش آنے والے اس واقعے میں ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے ہمراہ موجود عبدالمالک صالح زخمی ہو گئے تھے۔ تاحال اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔

’وہ کلاشنکوف نہیں تھی، کوئی بڑی بندوق تھی جو اتنی طاقتور تھی کہ اس کی گولیاں ویگو گاڑی کی پشت پر نصب باکس، شیشہ اور سیٹ کو چیرتی ہوئی ڈپٹی کمشنر اور مجھے لگیں۔‘

ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ 12 اگست کو تین دیگر افراد کے ہمراہ دو گاڑیوں میں مغرب سے کچھ ہی دیر پہلے کوئٹہ سے پنجگور کے لیے نکلے تھے۔ ان کے ہمراہ ضلع کونسل پنجگور کے چیئرمین اور نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک صالح بلوچ، ان کے چھوٹے بھائی ولید صالح اور ڈپٹی کمشنر کے ڈرائیور بھی تھے۔

عبدالمالک صالح کے بھائی اور رکن بلوچستان اسمبلی رحمت صالح بلوچ نے بی بی سی سے گفتگو میں اس واقعے کی تفصیلات بتائی ہیں جو ان کے مطابق ان کے بھائی نے فراہم کیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’گاڑیاں کھڈ کوچہ کے قریب تھیں جب انھوں نے سامنے مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد دیکھی جنھوں نے دو تین ٹرک روک رکھے تھے۔ خطرہ محسوس کرتے ہوئے گاڑیوں کو روک کر فوری واپس موڑنے کی کوشش کی تو جس گاڑی میں ڈپٹی کمشنر اور عبدالمالک بیٹھے تھے، پھنس گئی۔

’اتنے میں سامنے سے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک مسلح شخص ان کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔ ابھی انھوں نے گاڑی کو موڑا ہی تھا کہ اس شخص نے پیچھے سے فائرنگ کر دی۔‘

دو دن قبل پیش آنے والے اس واقعے میں ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے ہمراہ موجود عبدالمالک صالح زخمی ہو گئے تھے۔

تاحال اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔

وزیر اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے افسران کی نقل و حمل کے دوران مروجہ ایس او پیز پر عمل درآمد سے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اس واقعےکی تفصیلات جاننے کے لیے جب مستونگ کے اسسٹنٹ کمشنر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ واقعہ دہشت گردی کا ہے جسے سی ٹی ڈی دیکھ رہی ہے۔‘ اس حوالے سے سرکاری حکام اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سے بی بی سی نے رابطے کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کال وصول نہیں کی۔

تاہم اس واقعے کی تحقیقات سے وابستہ ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ واقعہ ضلع میں کھڈ کوچہ کے علاقے کنڈ عمرانی میں پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح افراد گاڑیوں کو روک رہے تھے اور ان مسلح افراد کی فائرنگ سے ہی ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچاور مالک صالح زخمی ہوئے جنھیں قریبی ہسپتال پہنچایا گیا لیکن شدید زخمی ہونے کے باعث ڈپٹی کمشنر ہلاک ہو گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حملہ آوروں کی فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر سمیت دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے لیکن ہلاک ہونے والے دوسرا شخص اور تین دیگر زخمی افراد ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ سفر نہیں کر رہے تھے۔‘

'ڈپٹی کمشنر اور ضلع کونسل کے چیئرمین نے کوئٹہ سے اکٹھے سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا'

ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ اپنی سرکاری گاڑی میں لاپتہ افراد کے کیسز کے حوالے سے پنجگور سے کوئٹہ آئے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ وہ 12 اگست کی رات کو ہی پنجگور واپس پہنچ جائیں۔

ضلع کونسل پنجگور کے چیئرمین عبدالمالک اور ان کے چھوٹے بھائی ولید صالح بھی کوئٹہ سے پنجگور جا رہے تھے اس لیے ان لوگوں نے اکٹھے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔

رکن بلوچستان اسمبلی رحمت صالح بلوچ کے مطابق انھیں ان کے زخمی بھائی عبدالمالک صالح نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اپنی گاڑی کی بجائے ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے تاکہ وہ سفر کے دوران مختلف ترقیاتی اسکیموں اور دیگر امور کے بارے میں بات چیت کریں۔

’چھوٹے بھائی ولید صالح اور ڈپٹی کمشنر کے ڈرائیور سرکاری گاڑی میں بیٹھ گئے جس پر کوئی ہوٹر(Hooter) وغیرہ نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ دونوں گاڑیاں کھڈ کوچہ میں جائے وقوعہ کے قریب پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں دو تین ٹرک کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ مسلح افراد کی بھی بڑی تعداد ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ سفر کرنے والے میرے بھائیوں نے بتایا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ مسلح افراد بھی تھوڑی ہی دیر پہلے علاقے میں پہنچے تھے کیونکہ بہت زیادہ گاڑیاں نہیں کھڑی تھیں بلکہ تین چار ٹرک تھے۔‘

رکن بلوچستان اسمبلی کے مطابق ان کے بھائی نے بتایا کہ انھیں اس دوران فائرنگ کی بھی آواز سنائی دی تو انھوں نے اپنے سے آگے والی گاڑی کو رکنے کے لیے لائٹ دی جس میں ڈپٹی کمشنر اور عبدالمالک صالح تھے۔‘

’خطرے کے ادراک کے بعد دونوں گاڑیاں مسلح افراد کی جانب جانے کی بجائے رک گئیں اور فوری طور پر واپس مستونگ کی جانب مڑنے کی کوشش کی۔ چونکہ اس علاقے میں روڈ بن رہا ہے اس لیے موڑنے کی کوشش کے دوران وہ گاڑی جس میں ڈپٹی کمشنر اور عبدالماک بیٹھے تھَے ایک پل کے ساتھ پھنس گئی۔‘

’وہ گاڑی کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ سامنے سے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک مسلح شخص ان کی گاڑیوں کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس دوران وہ گاڑی کو موڑنے میں کامیاب ہوئے لیکن مسلح شخص نے پیچھے سے فائرنگ کی۔‘

’میرے بھائی نے بتایا کہ مسلح شخص کے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں تھا بلکہ اس سے بڑا گن تھا۔ مسلح شخص نے گاڑی پر پیچھے سے فائرنگ کی اور پہلی گولی ڈپٹی کمشنر کو لگی۔ وہ گن اتنا طاقتور تھا کہ اس کی گولیاں ویگو گاڑی کی پشت پر لگی بکس، شیشہ اور سیٹ کو چیرتی ہوئی ڈپٹی کمشنر اور مجھے لگیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ڈپٹی کمشنر اور ضلع کونسل کے چیئرمین زخمی ہو گئے بلکہ فائرنگ سے دونوں گاڑیوں کے ٹائر بھی برسٹ ہو گئے۔ رحمت صالح بلوچ نے بتایا کہ ان کے بھائی عبدالمالک بلوچ کو ٹانگ پر ایک گولی لگی جبکہ ڈپٹی کمشنر کو زیادہ گولیاں لگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ سے دونوں گاڑیوں کے ٹائر برسٹ ہو گئے لیکن ایک محفوظ مقام تک پہنچنے کے لیے انھوں نے گاڑیوں کو ان ٹائروں کے ساتھ تین کلومیٹر تک چلا کر ایک پیٹرول پمپ تک پہنچ گئے۔

اس وقت پمپ پر صرف ایک سوزوکی ہائی روف گاڑی کھڑی تھی جنھوں نے زخمیوں کو مستونگ ہسپتال تک پہنچانے کے لیے فوری حامی بھری اور یہ بتایا کہ اس مقام سے مستونگ شہر اندازاً 33 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

رکن بلوچستان اسمبلی کے مطابق انھیں بھائیوں نے بتایا کہ جب ڈپٹی کمشنر کو سوزوکی میں منتقل کیا جارہا تھا تو ان کی حالت بہت زیادہ تشویشناک تھی اور وہ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

ان کے بھائی کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں اب ان کی حالت بہتر ہے۔

رحمت صالح نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اور ضلع کونسل کے چیئرمین دونوں کے پاس کوئی سیکورٹی نہیں تھی۔

ذاکر بلوچ کون تھے؟

ذاکربلوچ کا تعلق ایران سے متصل ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں آبسر سے تھا۔

انھوں نے میٹرک تک تعلیم تربت سے حاصل کی اس کے بعد ایف جی کالج کوئٹہ سے ایف ایس سی کی۔

بی بی سی نے ذاکر کے چچا علی محمد اور چچازاد بھائی اور ووائس چانسلر ڈاکٹر منصور بلوچ سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ہمارا رابطہ ذاکر کے بچپن اور سکول کے کے دوست عمران بلوچ سے کروایا۔

عمران بلوچ نے بتایا کہ 2009 میں ذاکر نے ہائر ایجوکیشن کی جانب سے سکالرشپس کے لیے امتحان میں حصہ لیا تو وہ مکران ڈویژن میں اوّل نمبر پر آئے۔

ان کا کہنا تھا ذاکر نے یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی لاہور سے پیڑولیم انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انجینیئر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ذاکر نے بعد میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے 17-2016 کے سیشن میں مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا اور بلوچستان سول سروس کے لیے منتخب ہوئے۔

تقرری کے بعد ذاکر بلوچ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ کے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے۔

عمران بلوچ نے بتایا کہ ایران سے متصل پنجگور میں کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے ذاکر کی دوسری تقرری تھی۔

ذاکر بلوچ اپنے چار بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے بڑے بھائی عمان آرمی میں ملازم ہیں جبکہ ان سے چھوٹے دونوں بھائی برطانیہ میں ڈاکٹر ہیں۔

عمران بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ اچھے دوست اور انسان تھے جو نہ صرف خود بہت زیادہ محنت کرتے تھے بلکہ اپنے دوستوں سمیت سب کو ہر وقت محنت کرنے کے لیے ابھارتے تھے۔

رکن اسمبلی رحمت بلوچ نے کہا کہ ذاکر بلوچ ایک انتہائی مہربان، تجربہ کار اور لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار افسر تھے جن کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خدمت کرے۔

ذاکر بلوچ کی ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے سے مذاکرات کے موقع پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔

ویڈیو میں دھرنے کے شرکا سے بلوچی میں اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’وہ اس علاقے اور مکران کے بچے ہیں۔ وہ اس علاقے کے درد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ آپ یقین کریں میں آپ لوگوں کو مایوس نہیں کروں گا۔‘

انھوں نے شرکا کو کہا کہ ’آپ تکلیف ہوئے جس پر میں آپ سے معذرت خواہ ہیں اور میں انشا اللہ بطور ڈپٹی کمشنر آپ کی نمائندگی کروں گا اور میں سرکار کا نمائندہ نہیں ہوں بلکہ آپ کا اور عوام نمائندہ ہوں۔ اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.