پاکستان میں ایم پوکس کا مشتبہ مریض: یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

عالمی ادارۃ صحت کی جانب سے ’ایم پوکس‘ کو عالمی صحتِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دیے جانے کے بعد پاکستان میں بھی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں اس بیماری کا ایک مشتبہ مریض سامنے آیا ہے۔ جانیے کہ یہ بیماری ہے کیا اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
MPOX
Reuters

عالمی ادارۃ صحت کی جانب سے ’ایم پوکس‘ کو عالمی صحتِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دیے جانے کے بعد پاکستان میں بھی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں اس بیماری کا ایک مشتبہ مریض سامنے آیا ہے۔

جمعرات کی شب صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مردان سے تعلق رکھنے والا متاثرہ شخص ’خلیجی ممالک سے آیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’وائرس کی تصدیق کے لیے قومی ادارہ صحت کو نمونہ بھیج دیا گیا ہے۔ منکی پاکس سے متاثرہ شخص میں معمولی علامات ہیں۔‘

پاکستان کی وزارت صحت نے جمعرات کو اس بیماری کے بارے میں ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’ایئرپورٹس اور داخلی راستوں پر سکریننگ کے نظام کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔‘

وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ کا کہنا ہے کہ وفاقی ہسپتالوں کو پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور وزارت صحت و بارڈر ہیلتھ سروسز ’ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے الرٹ ہیں۔‘

یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے افریقہ کے کچھ حصوں میں ایم پوکس کی وبا کو بین الاقوامی تشویش کا باعث اورصحت عامہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔

اس انتہائی متعدی بیماری سے، جسے پہلے ’منکی پوکس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، جمہوریہ کانگو میں کم از کم 450 افراد ہلاک ہوئے۔

ایم پوکس کی بیماری منکی پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ چیچک جیسے وائرس کے گروپ سے ہے لیکن کم نقصان دہ ہے۔

یہ وائرس اصل میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا لیکن اب انسانوں سے انسانوں کو بھی منتقل ہوتا ہے۔

یہ افریقہ کے جنگلات کے دور دراز دیہات میں جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں سب سے زیادہ عام ہے۔ ان علاقوں میں ہر سال اس بیماری سے ہزاروں کیسز اور سینکڑوں اموات ہوتی ہیں جن میں 15 سال سے کم عمر کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

چارٹ
BBC

ایم پوکس کی کتنی اقسام ہیں؟

ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔

اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔

یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہوائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔

پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی۔ تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔

اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘قسم قرار دیا ہے۔

افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ سنہ 2024 کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 14,500 سے زائد ایم پوکس انفیکشن اور 450 سے زائد اموات ہوئیں۔

یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں انفیکشن میں 160 فیصد اضافہ اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہے۔

اگرچہ ایم پوکس کے 96 فیصد کیسز ڈی آر کانگو میں ہیں لیکن یہ بیماری بہت سے ہمسایہ ممالک جیسے برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگینڈا میں پھیل چکی ہے جہاں یہ عام نہیں۔

ڈی آر کانگو میں ایم پوکس ویکسین اور علاج تک رسائی بہت کمہے اور صحت کے حکام اس بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔

ایم پوکس کی علامات کیا ہیں؟

MPOX
Reuters

ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔

بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔

دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔

یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اورآخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زحموں کا سبب بن سکتی ہے۔

انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن کے درمیان رہتا ہے۔

سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہو سکتے ہیں خاص طور پر منہ ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔

یہ مرض کیسے پھیلتا ہے؟

  • ایم پوکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے۔
  • ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جلد سے جلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے۔
  • یہ وائرس زخمی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔
  • یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔
  • بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے۔
  • سنہ 2022 میں عالمی وبا کے دوران یہ وائرس زیادہ تر جنسی رابطے کے ذریعے پھیلا تھا۔
  • ڈی آر کانگو سے موجودہ وبا جنسی رابطے کی وجہ سے پھیل رہی ہے لیکنیہ دیگر برادریوں میں بھی پائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کسے سب سے زیادہ خطرہ؟

زیادہ تر کیسز اکثر ان مردوں میں پائے جاتے ہیں جو جنسی طور پر فعال ہوتے ہیں اور مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے ہیں۔

ایک سے زیادہ لوگوں سے تعلق رکھنے یا نئے جنسی تعلقات بنانے والے افراد سب سے زیادہ خطرے میں ہو سکتے ہیں۔

لیکن کوئی بھی شخص جس کا اس وبا کی علامات رکھنےوالے کسی شخص کے ساتھ قریبی رابطہ ہے وہ وائرس کی زد میں آ سکتا ہے جس میں ہیلتھ ورکرز اور اہلخانہ بھی شامل ہیں۔

مشورہ یہ ہے کہ اگر وائرس آپ کی کمیونٹی میں ہے تو کسی بھی شخص کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کریں اور اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے صاف کریں۔

جن لوگوں کو ایم پوکس ہے انھیں دوسروں سے اس وقت تک الگ تھلگ رہنا چاہیے جب تک کہ ان کے تمام زخم غائب نہ ہو جائیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد 12 ہفتے تک جنسی تعلق قائم کرتے وقت احتیاط کے طور پر کنڈوم کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

MPOX
Reuters

اس کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟

ایم پوکس کے پھیلاؤ کو انفیکشن روک کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اوریسا کرنے کا بہترین طریقہ ویکسین کا استعمال ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں دوا ساز کمپنیوں سے کہا ہے کہ جن ممالک میں اشد ضرورت ہے وہ اپنی ایم پوکس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے پیش کریں، بے شک یہ ویکسین باضابطہ طور پر منظور شدہ نہ بھی ہو۔

اب جبکہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے، امید ہے کہ حکومتیں اپنے ردعمل کو بہتر طریقے سے مربوط کر کے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں میں طبی سامان اور امداد پہنچانے میں تیزی لائیں گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.