حکومتی کام کی تشہیر کرنے پر انعامات اور تنقید پر سزا: اُتر پردیش کی نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کیا ہے؟

ریاستی حکومت کی نئی پالیسی کو حزبِ اختلاف کی جماعتیں، کچھ تجزیہ کار اور سوشل میڈیا انفلونسرز حکومتی تشہیر کے لیے دی جانے والی ’رشوت‘ قرار دے رہے ہیں۔
علامتی تصویر
Getty Images

انڈین ریاست اُتر پردیش میں حکومت نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ریاستی حکومت کی سکیموں کی تشہیر کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کو پیسے دیے جائیں گے، جبکہ فحش، غیر مناسب اور ملک مخالف مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اُتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی حکومت نے نئی ڈیجٹل میڈیا پالیسی کا اعلان رواں ہفتے بدھ کو کیا گیا ہے۔

ریاستی حکومت کی نئی پالیسی کو حزبِ اختلاف کی جماعتیں، کچھ تجزیہ کار اور سوشل میڈیا انفلونسرز حکومتی تشہیر کے لیے دی جانے والی ’رشوت‘ قرار دے رہے ہیں۔

ان کا الزام ہے کہ اس پالیسی کے ذریعے حکومت اپنے ناقدین کو خاموش کروانا چاہتی ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی اُتر پردیش میں بےروزگاری کو ختم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

بی جے پی، انڈیا
Getty Images
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومتی سکیموں سے متعلق مواد ایکس، فیس بُک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر شیئر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی

ڈیجیٹل میڈیا پالیسی میں ہے کیا؟

28 اگست کو اُتر پردیش کے محکمہ انفارمیشن کے پرنسپل سیکرٹری سنجے پرساد کی جانب سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’حکومت کے کام کی تشہیر کرنے والوں کو مراعات دی جائیں گی۔‘

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومتی سکیموں سے متعلق مواد ایکس، فیس بُک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر شیئر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئی پالیسی کے ذریعے اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے روزگار بڑھنے کے امکانات بڑھیں گے۔

بی جے پی کی حکومت کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے تحت ملنے والے فوائد کا دارومدار سبسکرائبرز اور فالورز کی تعداد پر منحصر ہوگا۔ اس سکیم کے تحت سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے زیادہ سے زیادہ معاوضہ پانچ لاکھ روپے رکھا گیا ہے۔

جبکہ یوٹیوب پر حکومتی منصوبوں اور پالیسی کی تشہیر کے لیے زیادہ سے زیادہ معاوضہ آٹھ لاکھ روپے طے کیا گیا ہے۔

نئی پالیسی کے تحت ’قابلِ اعتراض مواد‘ شیئر کرنے پر کارروائی کا عندیہ

اُتر پردیش حکومت کا کہنا ہے کہ ’فیس بُک، انسٹاگرام، ایکس اور یوٹیوب پر قابلِ اعتراض مواد اپلوڈ کرنے کی صورت میں ایجنسیوں اور کمپنیوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘

’کسی بھی صورت میں یہ مواد غیر اخلاقی، فحش اور ملک مخالف نہیں ہونا چاہیے۔‘

تاہم حکومت کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کسی قسم کے مواد کو ملک مخالف تصور کیا جائے گا۔

اس حوالے سے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نئی پالیسی کی آڑ میں سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کو دبانا چاہتی ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کروانا چاہتی ہے۔

ہائی کورٹ کے وکیل منوشریستھا مشرا نے اس حوالے سے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’پہلے انڈین پینل کوڈ کےسیکشن 124 اے کے تحت غداری کی سزا تین برس سے عمر قید تک ہو سکتی تھی، لیکن انڈین جوڈیشل کوڈ 2023 میں غداری سے متعلق کوئی دفعہ شامل نہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہقانون میں موجود دفعہ 152 اس سے ملتی جُلتی ہے جس کے تحت انڈیا کی خودمختاری کے خلاف کام کرنے والوں کو عمر قید یا سات سال کی سزا سُنائی جا سکتی ہے۔

’اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر فحش گوئی کرنے پر آئی ٹی ایکٹ کی دفعات 66 (ای) اور 66 (ایف) کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔‘

حزب اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نئی پالیسی کے تحت سوشل میڈیا پر مواد کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اس قدم سے جمہوریت کمزور ہوگی۔

ریاستی حکومت کے محکمہ اطلاعات کے مطابق نئی پالیسی کے تحت انفارمیشن ڈائریکٹر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ غیراخلاقی اور ملک مخالف مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کر سکے۔

انفارمیشن ڈائریکٹر کے پاس یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ کسی کے خلاف مقدمہ درج کروا سکے، سوشل میڈیا پوسٹ حذف کروا سکے یا سرکاری اشتہارات بند کروا سکے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

حکومت کی فیکٹ چیک ٹیم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’نفرت انگیزی کے معاملے پر عمر قید کی باتیں افواہیں ہیں۔‘

بی جے پی، انڈیا
Getty Images
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نئی پالیسی کے تحت سوشل میڈیا پر مواد کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے

’سوشل میڈیا پر غیراخلاقی تبصرے کرنے پر عمر قید کی سزا کے حوالے سے گمراہ کُن معلومات شیئر کی جا رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پالیسی میں کسی بھی ایسے پروپوزل کی منظوری حکومت نے نہیں دی۔‘

کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے اُتر پردیش حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’سچ کو دبانے‘ کا ایک اور طریقہ ہے۔

کانگریس کے ترجمان اکھیلیش پراتاپ سنگھ نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ جمہوریت کے لیے درست نہیں، سوالات اور تنقید جمہوریت کی روح ہیں۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ یہ ’آمرانہ برتاؤ‘ ہے اور ’ہم اس کے خلاف سڑکوں سے لے کر پارلیمنٹ تک آواز بلند کریں گے۔‘

اُتر پردیش کی اسمبلی میں مرکزی اپوزیشن جماعت سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’عوام کے ٹیکس کے پیسے کو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کرپشن کی نئی قسم ہے۔‘

دوسری جانب اُتر پردیش میں بی جے پی کے ترجمان راکیش تریپاٹھی کا کہنا ہے کہ ’اپوزیشن کنفیوژن پھیلا رہی ہے، ڈیجیٹل میڈیا پالیسی نئی ملازمتیں پیدا کرے گی۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلا کر قانون کے ساتھ کھیلتے ہیں ان کو سخت سزا دی جائے گی۔‘

سوشل میڈیا انفلونسرز کیا کہتے ہیں؟

اُتر پردیش حکومت کی نئی پالیسی کے حوالے سے سوشل میڈیا انفلونسرز دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔

دھروو راٹھی کہتے ہیں کہ ’ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا استعمال کرنے ہوئے قانونی طور رشوت دی جا رہی ہے، اگر کوئی انفلونسر ایسا کرتا ہے تو اسے عوامی سطح پر شرمسار کرنا چاہیے۔‘

دوسری جانب جتیندر چترویدی نامی یوٹیوبر کہتے ہیں کہ ’یہ پالیسی ایسی ہی ہے جیسے اخبارات کو اشتہارات دیے جاتے ہیں یا سرکاری اشتہارات ٹی وی پر نشر کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی خرابی نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور راجستھان میں کانگریس نے بھی ایسی ہی پالیسیاں متعارف کروائیں لیکن کسی نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا۔

دیگر انڈین ریاستوں میں ڈیجیٹل میڈیا پالیسیاں

اُتر پردیش کی حکومت سے پہلے پنجاب، راجستھان، کرناٹک، ہریانہ اور دیگر انڈین ریاستیں بھی ڈیجیٹل میڈیا پالیسیاں متعارف کروا چکی ہیں۔

ان ریاستوں کی پالیسیوں میں بھی لوگوں کو مراعات دینے کے لیے پیسے دینے کی شق شامل ہے۔

جب کانگرس کے ترجمان اکھیلیش پرتاپ سنگھ سے راجستھان حکومت کی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ریاستی حکومت (کے کاموں) کے فروغ کے لیے متعارف کروائی گئی تھی، نہ کہ لوگوں کو ڈرانے کے لیے۔‘

پنجاب میں ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے حوالے سے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’پنجاب کی حکومت چاہتی ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کا حکومت مخالف مواد نہ پوسٹ ہو۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انھیں اشتہارات نہیں دیے جاتے۔‘

دوسری جانب پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے ترجمان نیل گرگ اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں میڈیا کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں۔‘

’جہاں تک اُتر پردیش حکومت کے بِل (ڈیجیٹل میڈیا پالیسی) کا تعلق ہے تو ہم اس کے مخالف ہیں کیونکہ جمہوریت کے لیے میڈیا کی آزادی ضروری ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.