ٹرین میں ’گوشت لے جانے کا شبہ‘، معمر مسلم شہری پر تشدد: ’میں زندہ ہوں، کوئی غلط قدم نہ اٹھائے‘

ایک ایکسپریس ٹرین میں گائے کا گوشت لے جانے کے شبے میں ساتھی مسافروں نے ایک معمر مسلمان شخص پر حملہ کر دیا۔ اس سے قبل ایک نوجوان کو گوشت کھانے کے شبے میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔
شکایت درج کرنے کے بعد انھوں نے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی ہے
BBC
شکایت درج کرنے کے بعد انھوں نے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی ہے

ایک ایکسپریس ٹرین میں گائے کا گوشت لے جانے کے شبے میں ساتھی مسافروں نے ایک معمر مسلمان شخص پر حملہ کر دیا۔ اس سے قبل ایک نوجوان کو گوشت کھانے کے شبے میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔

پہلا واقعہ انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناسک ضلع کا ہے جبکہ دوسرا واقعہ دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں مغربی بنگال میں ہوا۔

انڈیا میں مسلم مخالف واقعات اس کثرت سے رونما ہو رہے ہیں کہ دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام احمد شاہ بخاری نے اسی جمعے کو اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی نفرت تقسیم ہند کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی۔

سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ان کا بیان کثرت سے شيئر کیا جا رہا ہے جبکہ اردو اخباروں نے گذشتہ روز اسے نمایاں طور پر شائع بھی کیا۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے 'انڈین مسلمز' ٹرینڈ کر رہا ہے اور ٹرین میں معمر مسلمان پر تشدد اور ہریانہ میں مسلم نوجوان کی ہلاکت سے متعلق ویڈیوز پر لوگ وزیر اعظم مودی کے ’دوہرے رویے‘ پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس وقت ملک میں عجیب صورت حال ہے کہ اگر ایک جانب درجنوں گائے کو دریا برد کرنے کے الزامات کی تحقیق ہورہی ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کی گائے کے گوشت کے نام پر جان لی جا رہی ہے۔

بذریعہ ٹرین گائے کا گوشت لے جانے کے شبے پر تشدد

مہاراشٹر کے اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد ریلوے پولیس (جی آر پی) نے اس کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی جانب سے معمر شخص پر تشدد کی تصدیق کی گئی ہے۔

وائرل ویڈیو میں ایک درجن افراد ٹرین کے اندر ایک معمر شخص پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

جی آر پی کے مطابق جلگاؤں ضلع کے رہنے والے 72 سالہ حاجی اشرف منیار اپنی بیٹی کے گھر کلیان جا رہے تھے کہ اگت پوری کے قریب ان کے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں نے انھیں اس شبے میں زدوکوب کرنا شروع کر دیا کہ وہ گائے کا گوشت لے جا رہے ہیں۔

یہ واقعہ 28 اگست کا بتایا جا رہا ہے اور حاجی اشرف نے ایک پولیس سٹیشن میں اس واقعے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

حاجی اشرف اور ان کے اہل خانہ کی شکایت کی بنیاد پر اس معاملے میں کل پانچ سے چھ مشتبہ افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ریلوے کے ڈی سی منوج نانا پاٹل کے مطابق اس معاملے میں تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

شکایت درج کروانے کے بعد ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں متاثرہ اشرف بتاتے ہیں کہ وہ زندہ اور ٹھیک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نام اشرف علی سید حسین ہے۔ میں چالیسگاؤں کا رہنے والا ہوں اور حاجی ہوں۔ میں زندہ ہوں اور میں آپ سب کا شکریہ ادا کر رہا ہوں جو میری فکر کر رہے ہیں۔

’میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔‘

ہریانہ میں نوجوان کی ہلاکت

ہریانہ میں کے چرکھی دادری میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک کوڑا کرکٹ چننے والے نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیے جانے کے معاملے میں پولیس نے کم از کم سات افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں دو نابالغ بھی شامل ہیں۔

انڈین میڈیا کے مطابق چرکھی دادری کی پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) پوجا وششٹ نے کہا کہ 28 اگست کو گرفتار کیے گئے پانچ بالغوں کو اس معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے پولیس ریمانڈ میں لیا گیا ہے جبکہ نابالغوں کو جوینائل جسٹس بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر انھیں جوینائل ہوم بھیج دیا گیا۔

پولیس نے کہا کہ مقتول کے بہنوئی صابر ملک کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے انھوں نے ابھیشیک، رویندر، موہت، کمل جیت اور ساحل کو دو نابالغوں سمیت گرفتار کیا۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق ڈی ایس پی بھرت بھوشن نے بتایا کہ 'پولیس کو 27 اکتوبر کو شکایت موصول ہوئی کہ ایک کچی آبادی میں لوگ گائے کا گوشت کھا رہے ہیں۔‘

’پولیس وہاں پہنچی اور اس نے گوشت ضبط کر لیا جبکہ شکایت کرنے والوں نے بعد میں دو افراد کو اغوا کر لیا جن میں سے ایک کی موت ہو گئی اور ایک زخمی ہے۔‘

ان واقعات پر بڑھتی تشویش

مذکورہ دونوں واقعات پر سوشل میڈیا پر ہزاروں کمنٹس نظر آ رہے ہیں۔ آل انڈیا اتحاد المسلمین کے سینيئر رہنما امتیاز جلیل نے ٹویٹ کیا: ’ہم محض خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب سیکولر انڈینز ان طاقتوں کو شکست دینے کے لیے اکٹھے ہوں۔

’ان لوگوں میں کتنا زہر پھیلا ہوا ہے اور وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں جو شاید ان کے دادا کی عمر کا ہو۔۔۔‘

شاہی امام سید احمد بخاری نے جمعے کے خطاب میں کہا کہ ملک میں لاتعداد ’مسلم کش فسادات‘ ہوئے، اس کے باوجود نفرت کا زہر اس طرح نہیں پھیلا جس طرح آج پھیلا ہوا ہے۔

'ایک ایسا ملک جس کی شناخت تمام مذاہب، تہذیبوں، زبانوں، رنگ ونسل کے مساوی احترام کی تھی، آج اس پر آنچ آئی ہوئی ہے۔۔۔ یہ ہندو اور مسلمان کا سوال نہیں، یہ ملک کی عزت، ملک کی بقا اور سلامتی کا سوال ہے۔'

انھوں نے اپنی تقریر کے دوران سوال اٹھایا کہ 'آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اقلیت کی ہرچیز جرم بن گئی اور اکثریت کاغلط بھی صحیح ہوگیا؟'

انھوں نے کہا کہ 'مسلمان اس ملک کی تنہا سب سے بڑی وحدت ہیں۔ جس طرح آج منافرت کا بازار گرم ہے، اس سے پہلے کبھی ایساد یکھنے کو نہیں ملا۔۔۔‘

جبکہ بہت سے لوگ ٹرین میں ستائے جانے والے حاجی اشرف منیار کی مثال دے رہے ہیں کہ اتنی مار کھانے کے بعد بھی وہ مسلمانوں سے کسی غلط قدم اٹھانے سے باز رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

ہم نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حالیہ واقعات پر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر محمد سہراب سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ 'انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کو بہت تیزی کے ساتھ نارمل یا معمول کی چیز بنایا جا رہا ہے تاکہ حکومت اور یہاں کے شہری بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ایک روٹین کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کبھی اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کمی نظر آتی ہے۔'

انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہونے والا کیونکہ اس کا براہ راست تعلق انتخابات سے ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر سہراب نے کہا کہ 'کئی دہائيوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ انڈیا نے ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے اقیلت پر بولنے کا اخلاقی گراؤنڈ کھو دیا ہے کیونکہ جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کیا گیا، بابری مسجد کو مسمار کیا گیا اور انصاف کو ذبح کیا گیا اور یہ سب کام جمہوریت کو ذبح کرکے انجام دیا گيا ۔ تو ایسے میں انڈیا کا کوئی اخلاقی گراؤنڈ نہیں کہ وہ دنیا بھر میں اقلیت پر بولے۔‘

ان کے مطابق انڈیا کی سول سوسائٹی کے لیے یہ بہترین موقع ہے جب وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرے۔

انڈیا میں گائے ذبح کرنے سے متعلق قانون

اب سے پہلے تک کھانے کی لڑائی زیادہ تر گائے کے گوشت تک ہی محدود تھی۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں اور انڈیا کی بیشتر ریاستوں میں گائے ذبح کرنے پر طویل عرصے سے پابندی عائد ہے۔

لیکن 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گائے کے گوشت کے خلاف جنگ تیز ہو گئی ہے۔ ان کی پارٹی نے ایسی ریاستوں جہاں ان کا مضبوط ووٹ بینک ہے، وہاں مذبح خانوں کو بند کر دیا ہے اور دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے یہ مویشی پالنے والے کسانوں کے ساتھ تشدد بھی لیا ہے۔

اگرچہ اونچی ذات کے اکثر ہندو گائے کا گوشت نہیں کھاتے مگر انڈیا بھر میں لاکھوں دلت (جنھیں پہلے اچھوت سمجھا جاتا تھا)، مسلمان اور مسیحی گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔

گائے کا گوشت جنوبی ریاست کیرالہ کی کمیونٹیز میں بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ کیرالہ میں صرف ایک اقلیتی گروہ مذہبی وجوہات کی بنا پر گوشت سے پرہیز کرتی ہے جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں یہ عام ہے جبکہ اسی علاقے سے آنے والے بی جے پی کے ایک رہنما اور وزیر کابینہ کرن ریجیجو نے علی العلان کہا ہے کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔

ہم نے اس بابت پروفیسر محمد سہراب سے بات کی تو انھوں نے گائے کے گوشت کے معاملے پر انڈیا کے موقف کو 'دوغلا' کہا۔

’انڈیا میں ہندوؤں کی کھانے پینے کی عادت سبزی خوری کے فلسفے سے منضبط نہیں ہوتی ہے۔ جتنا مسلمان گوشت کھاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہندو گوشت کھاتے ہیں۔ صرف کھانے اور بنانے کا طریقہ الگ ہو سکتا۔ بہت سے سروے بتاتے ہیں کہ انڈیا میں سبزی خور سے کہیں زیادہ گوشت خور ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’گائے کے گوشت کے معاملے میں واضح طور پر ایک دوغلی پالیسی نظر آتی ہے کیونکہ انڈیا دنیا کا سب سے بڑا بیف سپلائی کرنے والا ملک ہے لیکن دوسری طرف بیف کے نام پر مسلمانوں کے قتل کو نارملائز کیا جاتا ہے جو کہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'بین الاقوامی تجارت پر حکومت کا پورا کنٹرول ہوتا ہے اور حکومت اگر خود گو رکشک (گائے کی محافظ) ہے تو وہ بیف کا ایکسپورٹ بند کرے اور اپنی سچی نیت کا مظاہرہ کرے۔‘

ان کے مطابق 'ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے کسی کو کیا کھانا ہے کیا پینا ہے یہ طے کرنا نہ حکومت کا کام ہے اور نہ کسی دوسرو کو اس کا حق ہے۔ یونیورسل کوڈ آف کنڈکٹ کے طور پر اس اصول کی پیروی ہونی چاہیے۔'


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.