سٹرابیری والا پاستہ اور دلیے والا پیزا: کیا آپ مصنوعی ذہانت کی بتائی ترکیب سے کھانا بنائیں گے؟

کئی شیف اپنے کھانوں میں جدّت لانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے کچھ پکوان لوگوں کو پسند ائے تاہم کئی کو دیکھ کر لوگوں کو جھرجھری آ گئی۔
One of the pizzas that AI created for Dodo Pizza
Dodo Pizza
ڈوڈو پیزا نے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ بلیو بیری اور ناشتے میں استعمال ہونے والے دلیے سے بنے پیزا کو ابھی فروخت کے لیے پیش نہیں کیا۔

کیا مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) ریستوراں کے مالکان کو اپنے گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے لذیذ نئے مینو بنانے میں مدد کر سکتی ہے، یا پھر یہ بنا بنایا کاروبار بھی لے ڈوبے گی؟

شہر کے ریستوراں اور ڈلیوری چین ڈوڈو پیزا کی شاخ کے مینو ڈویلپمنٹ کے سربراہ سپارٹیک ارتیونیان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے (مشہور اے آئی چیٹ بوٹ) چیٹ جی پی ٹی سے ایک ترکیب تیار کرنے کے لیے کہا، دبئی کے لیے ایک بہترین پیزا۔‘

’اس نے ہماری خواہش کے مطابق ایک پیزا کی ترکیب تیار کی۔ ہم نے اسے لانچ کیا لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور یہ اصل میں ایک بہت بڑی ہٹ تھی، جس کا ثبوت اس کا اب بھی مینو میں شامل ہونا ہے۔‘

اروتیونیان کا کہنا ہے کہ دبئی کی 30 لاکھ آبادی میں سے 90 فیصد تارکین وطن ہیں اور ان تارکین کی وجہ سے یہاں بہت سی ثقافتیں آباد ہیں۔ ان میں انڈین، پاکستانی، فلپائنی، عرب لوگ اور یورپ کے رہنے والے شامل ہیں۔

انھوں نے چیٹ جی پی ٹی سے ایک پیزا تیار کرنے کے لیے کہا جو اس ثقافتی امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ جواب میں ہمیں ایک ایسا پیزا ملا جس پر عرب چکن شوارما، انڈین گرلڈ چیز پنیر، چند جڑی بوٹیوں اور تاہنی ساس کا استعمال کیا گیا تھا۔

آرتیونیان کا کہنا ہے کہ ’ایک شیف کی حیثیت سے میں ان اجزا کو پیزا میں کبھی بھی شامل نہ کرتا لیکن پھر بھی ذائقوں کا یہ امتزاج حیرت انگیز طور پر اچھا تھا اور لوگوں کو پسند آیا۔‘

اس کے باوجود مصنوعی ذہانت یا اے آئی کے دیگر پیزا مینو میں جگہ نہیں بنا سکے، مثال کے طور پر ان میں سٹرابیری، پاستا، بلیو بیری اور ناشتے میں کھایا جانے والا دلیہ شامل تھے۔

Spartak Arutyunyan
Spartak Arutyunyan
سپارٹک ارتیونیان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ پیزا جو انھوں نے فروخت کے لیے پیش کیا تھا وہ ’اُسے بہت زیادہ پسند‘ کیا گیا۔

امریکہ سے دور وینسیا ولیس نے اسی طرح کا مصنوعی ذہانت کا تجربہ ڈیلاس کے ویلویٹ ٹیکو میں کیا جہاں وہ کھانے کی تیاری کی نگرانی کرتی ہیں۔

وہ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ’واقعی متجسّس‘ تھیں تو ایسے میں انھوں نے چیٹ جی پی ٹی کو سپین کی مشہور ڈش ٹیکوز تیار کرنے پر لگا دیا۔

ولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسے ’آٹھ اجزا کی طرح استعمال کرنے کے لیے کہا تھا اور اے آئی نے ان میں سے صرف ایک ٹارٹیلا اور پروٹین کا انتخاب کیا تھا۔‘

ولیس کہتی ہیں کہ ’کُچھ امتزاج تو انتہائی حد تک مضحکہ خیز تھے، مجھے اس بات کا بلکُل بھی اندازہ اور یقین نہیں تھا کہ سالن، ناریل ٹوفو اور انناس سب ایک ساتھ مزیدار ہوں گے یا نہیں۔ یہ امتزاج بہت لگ رہا تھا۔

لیکن انھوں نے تین تراکیب بنائیں جو زیادہ بہتر لگ رہی تھیں اور آخر کار انھوں نے ان میں سے جھینگے اور سٹیک ٹیکو کو چُنا اور فروخت کے لے پیش کیا۔ جن کھانوں کا انتخاب ولیس نے کیا اُن کے ایک ہفتے کے دوران 22,000 خریدار سامنے آئے۔

ولیس کا مزید کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں مصنوعی ذہانت ایک بہترین ایجاد یا آلہ ہے تب کے لیے جب آپ کو کُچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا بنایا جائے یا لوگوں کے لیے کیا نیا پیش کیا جائے تو ایسے میں یہ اے آئی آپ کے دماغ کو دوبارہ سے دھکا لگانے کا کام کرتا ہے، کہ ہاں یہ کھانے کی ترکیب واقعی کام کرسکتی ہے، آئیے اسے آزماتے ہیں۔‘

تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’یہ بات بھی درست ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی کچھ ایسا تجویز کر سکتی ہے جس کے بارے میں شاید آپ نے کبھی نہ سوچا ہو۔‘

ولیس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’مکمل طور پر مصنوعی ذہانت پر انحصار نہیں کیا جاسکتا اے آئی کی جانب سے سامنے آنے والی کھانے کی تراکیب میں انسانی عملداری انتہائی ضروری ہے۔‘

Venecia Willis
Venecia Willis
وینسیا ولیس کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت نے کچھ ’مضحکہ خیز‘ ٹیکو تراکیب دیں

کھانوں کی تراکیب اور اس صنعت میں ہر کوئی اے آئی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتا۔

لندن سے تعلق رکھنے والے کاک ٹیل بنانے کے ماہر جولین ڈی فیریل کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں مصنوعی ذہانت سے ذرا دور رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ یہ ’بہت متضاد‘ اور کھانوں کی تراکیب میں ایسے اجزا کا استعمال یا مشورہ دیتی ہے کہ جو سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔‘

سیئٹل کی یونیورسٹی آف واشنگٹن میں لسانیات کی پروفیسر ایملی بینڈر نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس کے پاس کوئی ’جادوئی طاقت‘ نہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ اس کی بجائے انھوں نے آن لائن جو کچھ پڑھا ہے اس کی مدد اور تجربے سے زیادہ سیکھا ہے جو فائدہ مند بھی ہے۔

تاہم پروفیسر بینڈر اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت پہلے سے کہیں زیادہ نفیس انداز میں کھانے کی تراکیب کی تخلیق میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’میٹھے یا تیزابیت سے بھرپور کھانے کے اجزا کی درجہ بندی کرے اور اُن اجزا کو تلاش کرے کہ جن کے بارے میں انٹرنیٹ پر موجود معلومات یہ بتاتی ہیں کہ ایک ساتھ ملنے پر ان کا ذائقہ اچھا ہونا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت سے اس طرح کے فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس (مصنوعی ذہانت کو اپنا مقصد سمجھانے کے لیے) انتہائی واضح اور تحقیق پر مبنی سوالات ہونے چاہیں۔‘

کوکیز
Waitrose

سنگاپور میں اطالوی نژاد سٹیفانو کینٹو نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی ایک ایپ تیار کی ہے کے جسے اگر آپ یہ بتائیں کہ آپ کے گھر کی الماری یا فریج میں کونسے اجزا یا کھانوں میں استعمال ہونے والی چیزیں پڑی ہیں تو وہ ایپ اُن کے حساب سے آپ کو کھانوں کی تراکیب بتا سکتی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے بنائی جانے والی اس ایپ کا نام ’شیف جی پی ٹی‘ رکھا ہے۔

سٹیفانو کینٹو جو ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ’انھیں یہ خیال چیٹ جی پی ٹی سے کھانوں کی تراکیب مانگنے کے بعد ہفتے کے آخر میں آیا کہ ’میں تو اطالوی ہوں اور کھانا خود پکاتا ہوں۔‘

کینٹو کا کہنا ہے کہ انھیں اس ایپ کو گذشتہ سال لانچ کرنے کے ڈیڑھ ہفتے کے اندر اندر 30,000 صارفین ملے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’اشتہارات اور سبسکرپشن کے درمیان صحیح توازن اور اسے صارفین کو مفت فراہم کرنے کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

دبئی میں ڈوڈو پیزا کے سپارٹک آرتیونیان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کے لیے زیادہ تفریحی چیز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے نہ کہ کسی ایسی چیز کے طور پر جسے آپ اپنے پورے مینو کی ذمہ داری دے دیں۔

اس کے باوجود ڈوڈو پیزا اب دبئی میں صارفین کو اس قابل بنا رہا ہے، کہ وہ اس ایپ کی مدد سے خود مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایک غیر معمولی پیزا ٹاپنگ کروا سکتے ہیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.