ڈاکٹر قیصر بنگالی اور جہانزیب خان کے استعفے، حکومت کو درپیش گورننس کے چیلنجز

image

وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت سے گزشتہ دو روز کے دوران دو استعفے سامنے آئے ہیں جن میں سے پہلا استعفیٰ ڈپٹی پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب خان اور دوسرا تین حکومتی کمیٹیوں کے رکن ڈاکٹر قیصر بنگالی کا تھا۔

اِن استعفوں کے آنے کے بعد ایسا لگ رہا کہ شہباز شریف کی حکومت کو گورننس کے چیلنجز درپیش ہیں یا پھر پہلے سے درپیش چیلنجز کا اب سدباب کیا جا رہا ہے۔

حکومتی حلقے بتاتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں کچھ عہدوں پر ایسی تعیناتیاں ہوئی ہیں جو ن لیگ کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ دوسری جانب چند ایسی شخصیات حکومتی امور میں شامل ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ پسند نہیں کرتی۔

یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کو کسی حد تک گورننس کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور حالیہ استعفے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

مزید یہ کہ موجودہ حکومت میں وزیر داخلہ کے قلمدان کے لیے فیورٹ سمجھے جانے والے حنیف عباسی کی جگہ محسن نقوی کی تعیناتی، وفاقی کابینہ میں محمد اورنگرزیب کی بطور وزیر خزانہ شمولیت، بعد ازاں مشترکہ مفادات کونسل میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جگہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو بطور ممبر شامل کرنا اور وزیر اعظم کے ابتدائی فیصلے میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کی صدارت وزیر خزانہ کو نہ دینے جیسے اقدامات شہاز شریف کی حکومت میں گورننس مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔

اگر ایک نظر ڈاکٹر جہانزیب خان کے بطور چیئرمین ڈپٹی پلاننگ کمیشن کے استعفے پر ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عہدے پر ان کی تعیناتی وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کی مرضی کے خلاف تھی۔ اسی وجہ سے بطور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے پاس مکمل اختیارات نہیں تھے۔

تاہم اس نقطے پر نواز شریف کو راضی کرنے کے بعد احسن اقبال ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کا عہدہ اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ڈاکٹر جہان زیب نے بطور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن مستعفی ہو گئے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق موجودہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات میں کمی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ فوٹو: پی آئی ڈی

حکومتی رائٹ سائزنگ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر قیصر بنگالی کا استعفیٰ

ممتاز معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی وفاقی حکومت کی تین اہم کمیٹیوں کی رکنیت سے مستعفی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنا استعفیٰ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری کابینہ کامران افضل کو بھجوایا ہے۔

انہوں نے حکومت کی کفایت شعاری، رائٹ سائزنگ اور اخراجات میں کمی کی کمیٹیوں کی رکنیت سے استعفی دیا ہے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی کی حکومتی کمیٹیوں میں دی جانے والی تجاویز وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں کو زیادہ پسند نہیں آ رہی تھیں اور ان تجاویز کے برخلاف اقدامات کیے جا رہے تھے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی معاشی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں لانے اور بڑے عہدوں پر فائز افسران کی مراعات میں کمی کے ہامی تھے تاہم فیصلہ ساز ایسی تجاویز کے حق میں نہیں تھے۔

انہوں نے حکومت کی اخراجات کی کٹوتی کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں یہ تجویز دی تھی کہ مخلتف وفاقی وزارتوں میں سینیئر پوزیشنز پر بیٹھے افسران کی مراعات میں کمی اور اگر عام ملازمین کو ملازمت سے نکالے جانے کے بجائے ایسے افسران کو ہدف بنانے کی ضرورت پر زور دیا جو اپنی موجودگی سے اداروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے۔

انہوں نے اپنے استعفے کی وجوہات میں بتایا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات میں کمی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت تینوں کمیٹیوں کی تجاویز کے برخلاف اقدامات کر رہی ہے اور اخراجات میں کمی کے لیے افسران کے بجائے چھوٹے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے حکومت تجاویز کے برخلاف گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے اور محکموں سے گریڈ 17 سے 22 کے افسروں کی نوکریوں کو بچایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق سینیئر سرکاری افسران کو ہٹانے سے سالانہ 30 ارب روپے کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر قیصر بنگالی کی حکومتی کمیٹیوں میں دی گئی تجاویز

اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈاکٹر قیصر بنگالی کی تینوں کمیٹیوں نے مجموعی طور پر 70 سرکاری اداروں اور 17 سرکاری کارپوریشنز کا جائزہ لیا تھا جن کے اخراجات میں کمی کے لیے 17 ڈویژن بند کرنےکی تجویز دی گئی تھی۔ جبکہ اخراجات میں کمی کے لیے 50 سرکاری محکمے بند کرنےکی تجویز بھی شامل تھی۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی سمجھتے ہیں کہ سرکاری محکموں سے بڑے افسران کو ہٹایا جائے تو سالانہ 30 ارب روپے کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جہانزیب خان کے بطور ڈپٹی پلاننگ کمیشن تعیناتی سے گورننس کے مسائل پیدا ہوئے 

وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے معیشت دان اشفاق تولہ کے خیال میں ڈاکٹر جہانزیب کی بطور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن تعیناتی وفاقی حکومت کے لیے گورننس کے مسائل پیدا کر رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے وزیر منصوبہ بندی کے پاس ہی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کا قلمدان ہوتا تھا لیکن احسن اقبال کے پاس یہ چارج نہ ہونے کے باعث وزارت منصوبہ بندی کی فیصلہ سازی متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے ڈاکٹر جہانزیب خان سے یہ قلمدان لینے کا اقدام درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ ڈاکٹر جہانزیب ایک تجربہ کار بیوروکریٹ ہیں لیکن اس عہدے کی وجہ سے انک ے اور احسن اقبال کے درمیان مختلف وزارتی امور پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ وزارت منصوبہ بندی میں مکمل اختیارات ملنے کے بعد اب احسن اقبال مزید اچھے ماحول میں کام کر سکیں گے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے حکومتی کمیٹیوں سے استعفے کے معاملے پر اشفاق تولہ کا کہنا تھا کہ قیصر بنگالی کے استعفے میں بیان کی گئی وجوہات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔

’اس بات کی تحیقیقات ہونی چاہیں کہ کیا واقعی حکومت رائٹ سائزنگ یا کفایت شعاری کے دیگر اقدامات کی روشنی میں صرف چھوٹے ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری کے لیے بنائی گئی کمیٹیاں تب ہی مفید ثابت ہو سکتیں ہیں جب ان کی تجاریز کو سنجیدہ لیا جائے۔‘

اشفاق تولہ نے مشترکہ مفادات کونسل میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جگہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی شمولیت پر کہا کہ سی سی آئی چونکہ ایک آئینی باڈی ہے جس میں تعیناتیاں آئین کے مطابق ہونی چاہیں۔ 

ڈاکٹر جہانزیب خان کی تعیناتی احسن اقبال کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ فوٹو: پی آئی ڈی

اس حوالے سے تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر جہانزیب خان کے استعفے کو حکومت کی معمول کی کاروائی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وزیر اور سیکریٹری کی لڑائی میں جیت وزیر کی ہی ہوتی ہے۔ احسن اقبال چونکہ سینیئر وفاقی وزیر ہیں اس لیے انکا اعتراض سنا گیا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے استعفوں پر اپنے تجزیے میں ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی معاشی مسائل کے لیے منفرد خیالات رکھتے ہیں جن پر عمل درآمد کی سیاسی حکومتیں متحمل نہیں ہو سکتیں۔

’وہ معیشت میں دیرپا بہتری لانے کے لیے جوہری تبدیلیاں لانے کے قائل ہیں۔ انہوں اسی کی روشنی میں اپنی تجاویز بھی دی ہوں گی جن پر عمل درآمد سیاسی حکوتوں کے لیے آسان نہیں ہوتا اور نتیجتاً قیصر بنگالی جیسی شخصیات کو حکومتی امور سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات پر حکومت کی وضاحت

وفاقی حکومت نے  ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ان کی رائے کو رابطے یا سمجھ بوجھ کے فقدان پر مبنی قرار دیا ہے۔

حکومت نے واضح کیا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 نہیں بلکہ 22 تک تمام سرکاری عہدوں کو رائٹ سائز کیا جا رہا ہے۔

’رائٹ سائزنگ کے پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں اور اداروں کا جائزہ لیا گیا اور ایک وزارت کو ختم کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے جبکہ 2 وزارتوں کو ضم کیا جا رہا ہے۔‘

وفاقی حکومت کا مزید کہنا ہے کہ تقریباً 60 ہزار عہدے سرپلس ہو سکتے ہیں جن میں گریڈ 17 سے 22 تک کے عہدے بھی شامل ہیں۔

جواب میں کہا گیا ہے ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی رائے رابطے یا سمجھ بوجھ کےفقدان پرمبنی ہے۔ حکومت 1973 کے سول سرونٹس کے قانون میں ضروری ترمیم کر رہی ہے۔ ایک لازمی ریٹائرمنٹ پیکیج پر کام ہو رہا ہے تاکہ یہ تمام سول سرونٹس پرلاگو ہوسکے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.