خلیفہ ہارون الرشید کے یورپی حکمران شارلیمین کو دیے وہ تحائف جن کا صدیوں تک چرچا رہا

یہ کہانی دو طاقتور حکمرانوں، ایک ہاتھی اور گھڑی جیسے تحائف سے متعلق ہے۔ خلیفہ کے بھیجے گئے تحائف نہ صرف ان کی ریاست کی خوشحالی بلکہ اس کی ثقافتی دولت اور سائنسی ترقی بھی ظاہر کرتے ہیں۔
Getty Images
Getty Images
ہارون الرشید گھوڑے پر سوار شارلیمین کے سفارتی وفد کا استقبال کر رہے ہیں

سنہ 797 میں مغربی یورپ کے سب سے طاقتور آدمی نے کچھ غیر معمولی کیا۔

شارلیمین نے اسلامی سلطنت کے سربراہ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں اپنے سفیر بھیجے۔

ایسا کرنے کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے، اس پر بڑے پیمانے پر بحث ہوئی ہے۔

تاریخ دان سیموئیل اوٹول سولسبی کہتے ہیں ’اس کے پیچھے وجوہات کیا تھیں، اس کا جواب ہمیں اس ُزمانے میں رہنے والے ایک شخص سے ملتا ہے جنھوں نے شارلیمین کی سوانح عمری لکھی ہے۔‘

آئن ہارڈ جنھوں نے ویٹا کرولی میگنی (لائف آف شارلیمین) لکھی ہے، نہ صرف ایک ماہر تعلیم تھے بلکہ انھوں نے فرانکس کے بادشاہ کے دربار میں خدمات دیں اور ان کے ساتھ دوستی کا تعلق بھی قائم کیا۔

آئن ہارڈ لکھتے ہیں کہ اس وقت خلیفہ ہارون الرشید کی ریاست زمین پر سب سے زیادہ خوشحال تھی اور ان کا مرکز بغداد تھا۔ شارلیمین بادشاہ سے کچھ چاہتے تھے لہذا انھوں نے اپنے نمائندے بھیجے۔

وہ ایک ہاتھی سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے تھا اور وہ انھیں مل بھی گیا۔ لیکن ہارون نے انھیں مزید تحائف بھی بھیجے۔

خلیفہ کے بھیجے گئے تحائف نہ صرف ان کی ریاست کی خوشحالی بلکہ اس کی ثقافتی دولت اور سائنسی ترقی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اس ریاست کے عروج کے زمانے میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں تھا۔

یہ کہانی دو طاقتور حکمرانوں کی ہے۔۔۔ایک ہاتھی، ایک گھڑی اور اگر آپ نے ’دی عربین نائٹس‘ پڑھی ہے تو اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔

میرے دشمن کا دشمن

’دا ایمپرر اینڈ دا ایلیفینٹ: کرسچنز اینڈ مسلمز ان دا ایج آف شارلیمین‘ کے مصنف اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ شارلیمین کی درخواست ’کافی دلیرانہ‘ تھی۔

وہ بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ اس سے قبل شارلیمین اور ہارون کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔

کتابوں میں ایسی کہانیاں ضرور موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ مغرب کے مسیحی شہنشاہ کو ہاتھی کیوں چاہیے تھا اور خلیفہ ہارون نے ان کے پاس ہاتھی کیوں بھیجا تھا۔

ان میں سے ایک کا تعلق دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک قسم کے اتحاد سے جوڑا جاتا ہے۔

Getty Images
Getty Images
ہارون الرشید تین حکیموں کے ساتھ اپنے خیمے میں موجود ہیں

یونیورسٹی آف سیئول میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر ایمیلیو گونزالیز فیرن بتاتے ہیں کہ ہارون نے تجارتی طور پر بازنطين کو بلاک کر دیا تھا جو ان کا بڑا دشمن تھا۔

ہارون نے فیصلہ کیا کہ وہ اس علاقے میں ایک بڑی طاقت بننے جا رہے ہیں تاہم ان کی ریاست کی حدیں مصر سے آگے کبھی نہیں پہنچی پائیں کیونکہ وہ منگولوں یا ترکوں جیسے فاتح نہیں تھے۔

گونزالیز فیرن کا کہنا ہے کہ ’بہت سے افسانوی حوالوں میں ہارون الرشید کو سیزر (رُومی شہنشاہوں کا لقب) کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔‘

اس کی عکاسی ’دا تھاؤزینڈ اینڈ ون نائٹ‘ میں بھی ہوئی ہے جس میں انھیں طاقتور اور عادل بادشاہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔‘

Getty Images
Getty Images
عربین نائٹس مشرق وسطیٰ کی روایتی کہانیوں کا مجموعہ ہے

’جو بات افسانوی نہیں ہے وہ یہ ہے ہارون نے اس حکمتِ عملی کو سمجھا کہ ’میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘ اور اگر بازنطین ان کا دشمن تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شارلیمین جو مغرب میں بازنطین کا مدِمقابل تھا، وہ ہارون کا کا دوست ہو سکتا ہے۔‘

گونزالیز فیرن کہتے ہیں ’یہاں دو مختلف مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک تجارتی حل ہے: ہارون نے سوچا ہو گا کہ میرے سرحدی علاقوں سے اناج کون چھین کر لے جا رہا ہے اور میں اس کے دشمن کی مدد کرتے ہوئے خود کو فائدہ کیسے پہنچاؤں۔‘

سیئول کی پابلو ڈی اولاویڈ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی علوم کے پروفیسر حنان صالح حسین بتاتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کا ایک اور مشترکہ مقصد قرطبہ کے اموی سلطنت کو زیر کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

یورپ کو تحفے میں پہلا ہاتھی ملا

مورخین شارلیمین کو ’یورپ میں مسیحیوں کے باپ‘ کا لقب بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے ہارون سے کیوں رابطہ کیا، اس کے پیچھے اس حوالے سے ایک اور مفروضہ بھی ہے۔

اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ ہارون سلطنت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مسیحی تھے اور ان کی سلطنت میں مقدس سرزمین بھی شامل تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ شارلیمین نے یروشلم کے مسیحیوں کو مدد کے لیے پیسے بھیجے۔ لیکن مورخین کا ماننا ہے کہ یہ بہت بعد میں ہوا۔

اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم شارلیمین کی بات پر اعتبار کرتے ہیں کہ وہ بس ایک ہاتھی چاہتا تھا اور میرے خیال میں یہی مقصد کافی تھا۔

Getty Images
Getty Images
مورخین شارلیمین کو ’یورپ میں مسیحیوں کے باپ‘ کا لقب بھی دیتے ہیں

پروفیسر حنان صالح حسین کے مطابق مسیحی بادشاہ نے تین سفیر بھیجے لیکن واپسی کے سفر میں ان میں سے دو وفات پا گئے۔

وہ بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ ’بس فرینکش یہودی مترجم آئیزیک بچ گئے تھے جو خلیفہ کی خواہش کو پورا کرنے کے ذمہ دار تھے اور وہ بحیرہ روم کے ساحل پر ہاتھی اور اس کے نگراں کی رہنمائی کر رہے تھے۔‘

اور پھر 801 میں شارلیمین کو خبر ملی کہ ہاتھی قریب پہنچ چکا ہے اور انھوں نے اسے لینے کے لیے لوگوں کو بھیجا۔

ہاتھی ’ابو العباس‘ 802 میں جرمنی کے شہر آخن میں واقع شارلیمین کے دربار میں پہنچا۔

سولسبی کہتے ہیں ’یہ شارلیمین کے لیے بہت بڑی بات تھی۔ آنے والے زمانوں کے لوگ کئی دہائیوں تک اس کا ذکر کریں گے اور دیکھ لیں ہم آج بھی اس پر بات کر رہے ہیں۔‘

گونزالیز کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے اس پراسرار مخلوق کو ہارون الرشید کی طاقت سے جوڑا۔‘

یہ پہلا ہاتھی تھا جسے شارلیمین کے یورپ میں لوگوں نے دیکھا تھا۔

صدیوں پہلے ہینیبال اور کارتھیجین کی فوج نے جزیرہ نما آئبیرین کے لوگوں اور شمالی اٹلی میں رومی فوج کے خلاف اپنی جنگوں میں ہاتھیوں کا استعمال کیا تھا۔

ایک طویل سفر

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہاتھی ایشیائی تھا۔

سولسبی کہتے ہیں ’ہارون کے زمانے کے ریکارڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ ریاست میں پالے گئے ہاتھی ہندوستان سے لائے گئے تھے۔‘

Getty Images
Getty Images
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہاتھی ہندوستان میں پیدا ہوا تھا

’اس کا مطلب یہ ہے کہ شارلیمین کے دربار میں جانے سے پہلے وہ ہاتھی غالباً ہندوستان سے ہارون کے دربار تک کا سفر طے کر چکا تھا۔‘

لیکن جرمنی کا طویل سفر ہی وہ واحد تھکا دینے والی چیز نہیں تھی جس سے اس جانور کو گزرنا پڑا۔

حسین کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ہاتھیوں کو جنگوں میں حملے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا اور شارلیمین، ابو عباس کو وائکنگز کے خلاف اپنی مہم پر لیجانا چاہتے تھے۔

اس کے علاوہ موسم میں تبدیلی اور ہاتھی کی قدرتی رہائشگاہ کا نہ ہونا بھی وہ عوامل تھے جنھوں نے جانور کی صحت کو نقصان پہنچایا اور اسے نمونیا ہو گیا۔

810 میں ایک دن شمال مغربی جرمنی میں ہاتھی گر کر مر گیا۔

چیلنجز

تاریخ دان سیموئیل اوٹول سولسبی دونوں حکمرانوں یعنی شارلیمین اور ہارون کے درمیان فوجی اتحاد کے نظریے سے پوری طرح قائل نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے کہ آج کے دور کے حساب سے دیکھا جائے تو خلیفہ کے تحفے میں ایک ’سافٹ پاور‘ کی جھلک نظر آتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شاید اقتدار پر ہارون کی گرفت اتنی مضبوط نہیں تھی جتنا ہم آج سمجھتے ہیں۔

’اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک بہت کامیاب حکمران تھے جنھوں نے طویل عرصے تک حکومت کی لیکن انھیں بہت سے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

Getty Images
Getty Images
ہارون الرشید کی خلافت (آٹھویں صدی) میں چاندی کا سکہ

گھڑی اور یورپ میں پہلی شطرنج جیسے تحائف

ہارون 786 میں تخت پر فائز ہوئے۔ 20 سال کی عمر میں انھوں نے ایک ایسی سلطنت کی حکمرانی سنبھالی جو مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔

اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ ’اگرچہ عراقی شہر بغداد سرکاری دارالحکومت تھا لیکن وہ وہاں مقبول نہیں تھے۔ شاید اسی لیے ہارون نے شام کے شہر الرقہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔‘

’فوج کے کچھ دھڑوں میں بھی وہ زیادہ مقبول نہیں تھے اور سلطنت کے کچھ حصوں میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہارون کبھی اس کا جواب طاقت کے ساتھ دیتے لیکن وہ عوام سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔‘

سولسبی کہتے ہیں کہ ’وہ خود کو ایک منصف جنگجو اور ایک مذہبی آدمی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‘

’اور مجھے لگتا ہے کہ اس شبہیہ کو بنانے میں کہیں نہ کہیں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ان کے معاملات ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے چین میں سفیر بھیجا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چینی ریکارڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی طور پر بڑا سفارتی وفد تھا جو تحائف کے ساتھ آیا اور تحفے لے کر واپس گیا۔‘

’میرے خیال میں شارلیمین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ہارون کو اپنی طاقت دکھانے کے ساتھ ساتھ اس احترام کا بھی احساس تھا جو دور دراز کے حکمران ان کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔‘

اور مسیحی شہنشاہ کے ایلچی ان کے لیے تحائف لے کر آئے تھے۔

گونزالیز کہتے ہیں کہ ’ان تحائف کا ایک مشرقی حکمران کی شان سے کوئی تعلق نہیں ہے جو مغرب پر اپنی ثقافتی برتری جانتے ہوئے انھیں غیر معمولی تحائف بھجتا ہے۔‘ مثلاً ایک اور وفد کے ہمراہ خلیفہ نے عطر، مسالے اور شاندار کپڑے بھیجے۔

گونزالیز یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے شطرنج کا ایک سیٹ بھی بھیجا جو یورپ میں پہلا تھا۔ اور ایک گھڑی بھی تھی۔

علم و دانش کا مرکز

گھڑی کے بارے میں بات کرنے سے قبل گونزالیز کہتے ہیں کہ ہارون کے نزدیک ’طاقت کو قانونی شکل دینے کا بہترین طریقہ ثقافت کے ذریعے تھا۔‘

ہارون نے محسوس کیا کہ علم حاصل کرنے اور عوام کی خدمت کے لیے ریاست کو ایک مخصوص ادارہ ’دی ہاؤس آف وزڈم‘ یعنی ایوانِ حکمت بنایا چاہیے۔

اسے بعد میں بغداد کی عظیم لائبریری کے نام سے بھی جانا گیا۔

یہ جگہ علم و دانش کا مرکز بن گئی جسے اسلام کے سنہری دور کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Getty Images
Getty Images
ایوانِ حکمت جس کی بنیاد بغداد میں رکھی گئی تھی۔ بدقسمتی سے آج اس کا کوئی نشان باقی نہیں ہے مگر یہ اسلامی سنہری دور میں علم و دانش کا مرکز تھا۔ یہاں سے ایسے ریاضیاتی تصورات سامنے آئے جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

خلیفہ نے قدیم یونانیوں اور فارسیوں کی تخلیقات حاصل کرکے ان کا عربی میں ترجمہ کروایا۔

ان کے دور میں سائنس اور طب میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔

’خلیفہ نے مشرق میں ثقافت کا جو بہترین ثقافت امتزاج قائم کیا، یورپ کا اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔‘

ایک شاہکار

سولسبی کہتے ہیں کہ خلیفہ نے جو پانی سے چلنے والی گھڑی شارلیمین کو بھیجی وہ ’انتہائی شاندار‘ تھی۔

گھڑی کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے سولسبی کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی گھڑی کا ایک گھنٹہ پورا ہوتا اس میں موجود چھوٹی چھوٹی گیندیں نیچے گرتیں اور سنج جیسی آواز پیدا کرتی تھیں۔ اس گھڑی میں 12 گھڑسوار بھی تھے جو 12 گھنٹے پورے ہونے پر گھڑی کی کھڑکی کی طرف لپکتے تھے۔‘

Getty Images
Getty Images
خلیفہ ہارون الرشید کے ایلچی شارلیمین کو گھڑی پیش کر رہے ہیں

اس حوالے سے گونزالیز سینکڑوں چھوٹی چھوٹی بوتلوں کا ذکر بھی کرتے ہیں: جب ایک بوتل بھر جاتی تو وہ نیچے چلی جاتی اور اگلی بوتل بھرنے لگتی تھی اور اس طرح وقت ناپا جاتا تھا۔

ان کے مطابق ’پانی کی ہر بوند ہمیشہ ایک مخصوص رفتار سے گرتی تھی۔‘

وقت ناپنے کے لیے بوتلوں کی تقسیم شاید اتنی پیچیدہ نہیں تھی جتنی ٹائم کا درست تعین کرنے کے لیے گلاس کا حجم اہم تھا۔

’ایک گلاس ایک منٹ، دوسرا ایک گھنٹے، تیسرا ایک دن اور چوتھا ایک ہفتے کے برابر تھا۔ یہ کائنات کے وقت کو ناپنے کا طریقہ تھا۔‘

سولسبی کے مطابق گھڑی تحفے میں دے کر ہارون نے صرف اپنے غیرمعمولی ہنر کا ہی مظاہرہ نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے ’اپنی انجینیئرنگ، سائنس اور کلچر‘ بھی دکھایا تھا۔

’اگر ہاتھی کے ذریعے انھوں نے اپنی غیرمعمولی جانوروں کو حاصل کرنے کی صلاحیتی دکھائی تھیں تو دوسری طرف یہ گھڑی ان کی سلطنت کی نفاست کو ظاہر کرتی تھی۔‘

موسیقی کا آلہ؟

پروفیسر گونزالیز کہتے ہیں کہ یورپ میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس گھڑی کو کیسے جوڑا جائے، اس کام کے لیے ایک شخص کو خصوصی طور پر بغداد تک کا سفر کرنا پڑا تھا۔

’اس وقت یہی تبصرے ہو رہے تھے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ (گھڑی) ہے کیا۔ جب وہ تمام ڈبے چھوٹی بوتلوں کے ہمراہ وہاں پہنچے تو کسی کو سمجپ ہی نہیں آئی کہ وہ ایک گھڑی ہے۔‘

جب ان تمام چیزوں کو جوڑ دیا گیا تو دربار میں ایسے بھی لوگ تھے جو یہ سمجھے کہ یہ گھڑی دراصل کوئی موسیقی کا آلہٰ ہے۔

’وہ سمجھے کہ شاید پانی کے گرنے کی آواز سے کوئی جادوئی عمل ہوتا ہے جو انھیں کسی ماورائی دنیا سے جوڑ دے گا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جادو پر یقین رکھنے والی ذہنیت رکھتے تھے۔‘

Getty Images
Getty Images
ہارون الرشید کے سفیر شارلیمین کو تحائف پیش کر رہے ہیں

’جب وہ شخص آیا جس نے اسے (گھڑی کو) جوڑ دیا اور کہا کہ یہ وقت معلوم کرنے کے لیے ہے تو وہاں موجود سب لوگ دنگ رہ گئے۔‘

تاہم سولسبی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا کہ یورپی لوگ ایسی نواردات سے نابلد تھے۔

’چھٹی صدی میں اٹلی میں اوسٹروگوٹھس کے بادشاہ تھیوڈورِک کے دربار میں بھی ایسی ہی ایک گھڑی تھی۔‘

اس کے علاوہ ’قسطنطنیہ میں بازنطین موسیقی کے آلات اور مکینیکل گھڑیاں بنانے کے لیے مشہور تھے۔‘

سولسبی ان مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ شاید شارلیمین نے ایسے آلات کے بارے میں سُن رکھا ہو، لیکن انھوں ایسی نفیس گھڑی کبھی نہ دیکھی ہو گی جو انھیں ہارون نے بھیجی تھی۔

البتہ شارلیمین کی سلطنت میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو ایسی گھڑی بنا سکتا۔

غیر معمولی گھڑی اور اس سے خوفزدہ درباری

آدھے یورپ کے فاتح کے دربار میں ایک غیر معمولی گھڑی کی آمد کے بارے میں بھی اتنی ہی غیر معمولی کہانیاں بنی ہوئی تھیں۔

پروفیسر حسین ایسی ہی ایک کہانی سناتے ہیں۔

اگرچہ شارلیمین نے اس ’عجیب‘ آلے کی تعریف کی لیکن اس گھڑی نے ’خود شارلیمین کے ساتھ ساتھ اس کے درباریوں کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔

انھوں نے شارلیمین کو کہا کہ اس پر شیطان کا سایہ ہے اور یہ کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اسے تباہ کرنے کے لیے تحفےمیں یہ گھڑی بھیجی ہے تاکہ وہ اس کی سلطنت پر قبضہ کر سکے۔

لہذا انھوں نے اپنی کلہاڑیوں سے اس گھڑی کے اندر سے شیطان نکالنے کی کوشش کی۔

پھر درباریوں نے شارلیمین کو بتایا کہ شیطانفرار ہو گیا ہے۔ بادشاہ کو اس سے بہت دکھ ہوا اور اس نے سائنس دانوں اور ہنر مند کاریگروں کو دربار میں طلب کیا تاکہ گھڑی کی مرمت کرکے اسے دوبارہ جوڑ سکیں مگر ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔

شارلیمین کے کچھ مشیروں نے اس گھڑی کو واپس خلیفہ ہارون الرشید کے پاس بھیجنے کی تجویز دی تاکہ عرب ماہرین کی ٹیم اس کی مرمت کر سکے لیکن شارلیمین اس حالت میں گھڑی کو بغداد کے بادشاہ کو واپس کرنے پر راضی نہیں تھے۔۔ کیونکہ اس سے ہارون کو پتا چل جاتا کہ ان کی نیک نیتی پر شک کیا گیا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.