انڈیا میں بچوں کا شکار کرنے والے ’پراسرار آدم خور‘ بھیڑیے جنھیں ڈرون بھی نہیں روک پا رہے

اپریل کے وسط سے انڈیا کے باہریچ ضلع میں تقریبا 30 دیہات دہشت زدہ ہیں کیوں کہ نیپال کی سرحد سے جڑے اس علاقے میں اب تک بھیڑیے نو بچوں سمیت 10 افراد کو اسی طرح رات کی تاریکی میں دبوچنے کے بعد ہلاک کر چکے ہیں۔
انڈیا
Getty Images

چار سالہ ساندھیا کچی جھونپڑی کے باہر سو رہی تھیں جب 17 اگست کی رات بجلی چلی گئی اور پورا گاؤں اندھیرے میں ڈوب گیا۔

نیپال کی سرحد سے جڑا انڈیا کی اترا پردیش ریاست کے اس گاؤں کی رہائشی ساندھیا کی والدہ سنیتا کہتی ہیں کہ ’بجلی جانے کے دو منٹ کے اندر بھیڑیے نے حملہ کر دیا۔ جب تک ہمیں سمجھ آیا کہ کیا ہو رہا ہے، وہ اسے لے جا چکے تھے۔‘

سندھیا کی لاش اگلے دن ان کی جھونپڑی سے تقریبا 500 میٹر دور گنے کے کھیت سے ملی۔ رواں ماہ کے آغاز میں ایک اور قریبی گاوں میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔

آٹھ سالہ اتکارش مچھروں سے بچنے کے لیے ایک نیٹ کے نیچے سوئے ہوئے تھے جب ان کی والدہ نے جھونپڑی میں ایک بھیڑیے کو گھستے ہوئے دیکھا۔

انھیں یاد ہے کہ ’وہ جانور تاریکی سے چھلانگ مار کر آیا تو میں چلائی کہ میرے بیٹے کو چھوڑ دور۔ ہمارے ہمسائے دوڑے چلے آئے اور بھیڑیا بھاگ گیا۔‘

اپریل کے وسط سے انڈیا کے باہریچ ضلع میں تقریبا 30 دیہات دہشت زدہ ہیں کیوں کہ نیپال کی سرحد سے جڑے اس علاقے میں اب تک بھیڑیے نو بچوں سمیت 10 افراد کو اسی طرح رات کی تاریکی میں دبوچنے کے بعد ہلاک کر چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں سب سے کم عمر ایک سال کا بچہ بھی شامل ہے جب کہ ایک 45 سالہ خاتون بھی ان بھیڑیوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان کے علاوہ کم از کم 34 افراد ان بھیڑیوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔

متاثرہ دیہات میں خوف اور ہیجان کی فضا پائی جاتی ہے جہاں بہت سے مکانات کچے ہیں اور دروازوں پر تالہ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں بچوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا اور رات کے وقت دیہاتوں میں مرد پہرہ دیتے ہیں۔

حکام نے ڈرون اور کمیرے لگا دیے ہیں، جبکہ انھیں پکڑنے کے لیے پھندے نصب ہو چکے ہیں اور انھیں ڈرانے کے لیے پٹاخے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اب تک تین بھیڑیوں کو پکڑ کر چڑیا گھروں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

لیکن انسانوں پر بھیڑیوں کے ایسے حملے بہت کم ہوتے ہیں اور اکثر ایسے بھیڑیے ’ریبیز‘ نامی بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس میں ان کا اعصابی نظام متاثر ہو جاتا ہے اور وہ انسانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

ناورے کے ادارے انسٹیٹیوٹ فار نیچر ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق انڈیا سمیت 21 ممالک میں 2002 سے 2020 کے درمیان بھیڑیوں کے حملوں کے 489 مصدقہ واقعات پیش آئے جن میں سے 26 جان لیوا تھے اور مجموعی طور پر 380 افراد متاثر ہوئے۔

50 سالہ ڈیو میک بھیڑیوں کے رویے پر مہارت رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ میں 70 ہزار بھیڑیوں کی آبادی کے باوجود انسانوں پر حملوں میں ہلاکت کے دو ہی مصدقہ واقعات پیش آئے ہیں۔

تو پھر انڈیا میں بھیڑیے انسانوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

دریا اور جنگلات میں گھرا باہریچ بھیڑیوں کا روایتی مسکن رہا ہے۔ 35 لاکھ آبادی والا یہ ضلع اکثر سیلاب کی زد میں بھی آ جاتا ہے۔

انڈیا
BBC

مون سون میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب نے یہاں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے اور جنگلات زیر آب آنے کی وجہ سے بھیڑیے خوراک اور پانی کی تلاش میں باہر نکلتے ہیں۔ یہ بھیڑیے ہرن اور خرگوش کا شکار کرتے ہیں۔

امیتا کنوجا لکھنو یونیورسٹی میں جنگلی حیات کے ادارے میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلی ایک بتدریج عمل ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے بھیڑیوں کا مسکن متاثر ہوتا ہے تو وہ خوراک کی تلاش میں انسانی آبادی کا رخ کرتے ہیں۔‘

لیکن خوراک کی تلاش میں بچے ہی کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟

1996 میں بھی اتر پردیش میں ایسا ہی ایک سلسہ شروع ہوا تھا اور بھیڑیوں کے حملوں میں بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت کے بعد ماہرین جنگلی حیات نے دیکھا کہ ان میں سے زیادہ تر بچے ایسے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں والدین میں سے زیادہ تر صرف ماں ہی ہوتی تھی جو ہر وقت ان کی نگرانی نہیں کر پاتی تھیں۔

انڈیا
BBC

ان غریب دیہات میں مویشیوں کی دیکھ بھال بچوں کے مقابلے میں زیادہ کی جاتی ہے اور اسی لیے جب ایک بھوکا بھیڑیا ایسے بچوں کو سامنے پاتا ہے تو وہ آسان شکار بن جاتے ہیں۔

معروف انڈین سائنسدان یدویندرادیو جھالا نے بتایا کہ ’دنیا میں کسی اور جگہ بچوں پر بھیڑیوں کے حملوں میں اتنا اضافہ نہیں دیکھا گیا۔‘ چار دہائیوں میں اتر پردیش میں بھیڑیوں کے حملوں کی یہ چوتھی لہر ہے۔

1981 اور 1982 میں بہار میں 13 بچے بھیڑیوں کا نشانہ بنے تھے۔ 1993 اور 1995 کے درمیان مبینہ طور پر پانچ بھیڑوں کے غول نے حاضر باغ ضلع میں 80 بچوں پر حملہ کیا۔

سب سے جان لیوا واقعہ 1996 میں آٹھ ماہ کے دوران پیش آیا جس میں اتر پردیش کے 50 دیہات میں 76 بچوں پر حملہ ہوا اور 38 ہلاک ہوئے۔ حکام نے 11 بھیڑیوں کو مارا تو یہ حملے رکے۔ میڈیا نے ان بھیڑیوں کو ’آدم خور‘ قرار دیا تھا۔

انڈیا
BBC

یدویندرادیو جھالا اور ان کے ساتھی دنیش کمار شرما نے ان ہلاکتوں کے بعد ایک تفصیلی تحقیق کی تھی جس کے دوران بچوں کی بچی کھچی لاشوں، بھیڑیوں کے بال، مقامی آبادی اور مویشیوں کے ساتھ ساتھ پوسٹ مارٹم رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔ اتر پردیش میں حالیہ حملوں کی لہر 30 سال قبل ان کی تحقیق کے نتائج سے بہت ملتی ہے۔

دونوں لہروں میں بچوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کو مکمل طور پر نہیں کھایا گیا، ان بچوں کے گلے پر کاٹے جانے کے نشانات تھے اور جسم کے مختلف حصوں پر بھی زخم موجود تھے۔ زیادہ تر حملے رات کے وقت گھر سے باہر سوئے ہوئے بچوں پر ہوئے جنھیں دبوچ کر بھیڑیے فرار ہو گئے اور بعد میں ان کی لاشیں کھلے مقامات جیسا کہ کھیتوں سے ملیں۔

باہریچ کی طرح 1996 میں بھیڑیوں کے حملے دریا کے کناروں پر ہوئے جہاں چاول اور گنے کی فصلیں موجود تھیں۔ دونوں میں ہی غریب خاندان کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ حملے ایک ہی بھیڑیا کر رہا ہے یا پھر کوئی غول ہے۔ 30 سالہ تجربے کی بنیاد پر جھالا کا ماننا ہے کہ 1996 کی طرح ممکنہ طور پر ایک ہی بھیڑیا ان حملوں کا ذمہ دار ہے۔

تاہم دیہاتیوں نے دن کے وقت کھیتوں میں پانچ سے چھ بھیڑیوں کے غول کو دیکھا ہے جبکہ آٹھ سالہ اتکارش کی والدہ کے مطابق انھوں نے ایک ہی بھیڑیے کو اپنے بیٹے پر حملہ کرتے دیکھا تھا۔

ماہرین کے مطابق صدیوں تک انڈیا میں بھیڑیے اور انسان پرامن طریقے سے ساتھ ساتھ جیتے رہے جس کی وجہ سے متعدد تنازعات، جن کی وجہ مویشی تھے، کے باوجود بھیڑیے معاشرے کا حصے بنے رہے۔ لیکن پھر وقت بدل گیا اور حالیہ حملوں کی لہر نے نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔

ماہرین جنگلی حیات کا مشورہ ہے کہ متاثرہ دیہات میں بچوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیا جائے، انھیں بڑوں کے بیچ میں سلایا جائے اور رات کے وقت ٹائلٹ جاتے ہوئے بھی کوئی بڑی عمر کا فرد ان کے ساتھ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو ایسے علاقے میں اکیلے پھرنے نہیں دینا چاہیے جہاں بھیڑیے چھپ سکتے ہوں اور رات کے وقت پہرے کا انتظام ہونا چاہیے۔

جھالا کا کہنا ہے کہ ’جب تک ان حملوں کی اصل وجہ سامنے طے نہیں ہو جاتی، احتیاط ہی لوگوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔‘ دوسری جانب باہریچ میں لوگوں کی ہر رات ہی پریشانی میں بیت جاتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.