مسئلہ تنظیمی یا ریاستی، پنجاب میں اپوزیشن جماعت بحران کا شکار کیوں؟

image
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں چھ مہینے کے بعد بِالآخر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کو دے دی گئی ہے۔

جمعرات کو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر دوسری بار صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ جس کا زیادہ تر بزنس حکومتی امور سے متعلق تھا۔ تاہم ایوان میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن اپنے لاہور کے صدر شیخ امتیاز کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کروانے کی کوشش کرتی رہی۔

شیخ امتیاز کو پی ٹی آئی کے 22 اگست کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کے لیے گھر سے نکلنے پر گرفتار کیا گیا تھا، اور وہ ابھی تک پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اگر گذشتہ چھ مہینے کی اپوزیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی حکمت عملی سے اسے غیرمتعلق کیا ہوا ہے۔ گذشتہ چھ مہینے کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو اسمبلی کے اندر گالی گلوچ پر اپوزیشن کے 11 اراکین کی رکنیت معطل کی گئی تو اپوزیشن بالکل ہی بے بس ہو گئی۔ کئی مہینے تک وہ صرف اپنے معطل ارکان کی بحالی کے لیے اسمبلی گیٹ کے باہر احتجاج کرتی رہی۔

اسی وجہ سے اسمبلی کا بزنس چلانے کے لیے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں کے لیے اپوزیشن کی تعیناتی چھ مہینے تک رکی رہی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کو مختلف معاملات میں ایسا الجھائے رکھا ہے جس سے وہ ایک مؤثر حزب اختلاف بننے کی بجائے اپنے معاملات کے حل میں لگی ہوئی ہے۔

ایک طرف سے اسمبلی میں مشکلات سے دوچار تحریک انصاف سے وابستہ اپوزیشن سیاسی طور پر بھنور میں ہے۔ تو دوسری طرف پنجاب کے صدر حماد اظہر اور ان کے حمایت یافتہ پارٹی ارکان کے لاہور کی تنظیم سے استعفوں کے بعد انہی کی نشاندہی پر یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے اندر دھڑوں کی سیاست نے صورت حال کو اور کمزور کیا ہے، اور اس کا اثر اسمبلی کے اندر کے معاملات پر بھی براہ راست ہو رہا ہے۔

احمد خان بھچر نے کہا کہ ’ہم نے اسمبلی میں اتنی مؤثر آواز اٹھائی کہ اب وزیراعلٰی پنجاب اسمبلی میں آنے سے کتراتی ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)تاہم اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر اس تاثر کو زائل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی جماعت انتخابات سے پہلے سے زیرِعتاب میں ہے۔

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اور جس طرح سے ہماری پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے، اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کا کردار ہم ٹھیک سے ادا نہیں کر رہے، تو ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اسمبلی میں اتنی مؤثر آواز اٹھائی کہ اب وزیراعلٰی پنجاب اسمبلی میں آنے سے کتراتی ہیں۔‘

’جہاں تک ہمارے پارٹی کے اندر کے معاملات کا تعلق ہے وہ کسی بھی جمہوری پارٹی میں ہوتا ہے۔ عمران خان کی قیادت کے نیچے ہم سب متحد ہیں۔ اختلاف اور دھڑے بندیاں چلتی رہتی ہیں۔‘

البتہ سیاسی تجزیہ وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ ’گذشتہ چند مہینوں میں جو پاکستان تحریک انصاف کے اندر گروہ بندیوں نے جگہ بنائی ہے اس سے اپوزیشن اپنے اصل کام سے غیرمتعلق ہو چکی ہے۔ اور آپس کی لڑائی اور قیادت کے بحران کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں بڑے سخت قوانین پاس ہوئے ہیں لیکن اپوزیشن کچھ نہیں کر سکی، یہ اس پارٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسمبلی میں ان کی قیادت کن افراد کے ہاتھ میں ہے۔‘

اسمبلی کے اندر گالی گلوچ پر اپوزیشن کے 11 اراکین کی رکنیت معطل کی گئی تو اپوزیشن بالکل ہی بے بس ہو گئی۔ (فوٹو: سکرین گریب)ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے اگر ہم تحریک انصاف کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو اصل اپوزیشن کرنے کی جگہ یعنی اسمبلی کی بجائے ان کی توجہ کا مرکز اسمبلی کے باہر اپوزیشن کرنے کا رہا ہے۔ عمران خان سنہ 2013 کے انتخابات میں اسمبلی کے اندر اپوزیشن کرنے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے تو یہ مزاج کی بھی بات ہے۔‘

خیال رہے کہ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کا تعلق میانوالی سے ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سینٹرل پنجاب یا لاہور سے فعال اپوزیشن لیڈر نہ لانا بھی تحریک انصاف کے اندر مسائل کا سبب بنا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینٹرل لیڈر شپ منقسم ہے جس کا اثر ہر چیز پر ہے۔ چاہے وہ جلسوں کی سیاست دوبارہ شروع کرنی ہو یا پھر اسمبلی کے اندر کردار ادا کرنا ہو یہ ان کے لیے اب مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور اس کا فائدہ حکمران پارٹی اٹھا رہی ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.