نو برس قبل پراسرار ’سروالی چوٹی‘ پر لاپتہ ہونے والے تین پاکستانی کوہ پیماؤں کی لاشیں کیسے ملیں؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشی تین دوست عمران جنیدی، عثمان طارق اور خرم راجپوت جن کی دوستی کی وجہ ان کا مشترکہ شوق کوہ پیمائی اور ایڈونچر سپورٹس تھا آج تک نا قابل سر صرف 6326 میٹر بلند سر والی چوٹی کو پہلی مرتبہ سر کرنے کا ریکارڈ بنانے کی کوشش میں 31 اگست اور یکم ستمبر 2015 کی درمیانی رات کو لاپتا ہوتے ہیں اور ان کی لاشیں تقریبا دس سال بعد اسی پہاڑ سے ملتی ہیں۔

اس کہانی کا آغاز تین پاکستانی دوستوں کی ایک ایسی پہاڑی چوٹی سر کرنے کی جستجو سے ہوتا ہے جسے کوہ پیماؤں کی تنظیموں کے ریکارڈز کے مطابق آج تک کوئی سر نہیں کر سکا اور اس کہانی کا اختتام نو برس بعد ان تین کوہ پیما دوستوں کی میتوں کی اسی چوٹی سے واپسی پر ہوا۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشی تین دوست عمران جنیدی، عثمان طارق اور خرم راجپوت 6326 میٹر بلند ’سروالی چوٹی‘ کو سر کرنے کا ریکارڈ بنانے کی کوشش میں 31 اگست اور یکم ستمبر 2015 کی درمیانی رات لاپتہ ہو گئے تھے۔

گذشتہ ہفتے لگ بھگ نو سال بعد پاکستانی کوہ پیماؤں کی ایک ٹولی ان دوستوں کی لاشیں اُسی پہاڑ پر ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یقیناً یہ ایک حیران کن بات ہے کہ دنیا میں ’کے ٹو‘ او ’نانگا پربت‘ جیسی خطرناک چوٹیوں سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں جنھیں سینکڑوں مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ لیکن ’سروالی چوٹی‘تاحال سر نہیں ہو سکی اور پاکستان کی کوہ پیما کمیونٹی میں اس چوٹی کی پراسراریت کے بارے میں آج بھی بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔

شاید اسی بات نے اِن تین دوستوں کو برف سے ڈھکی اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو میں مبتلا کیا ہو گا اور اسی جستجو میں وہ اگست 2015 میں اس مہم پر نکل پڑے۔

پھر ان تین کوہ پیماؤں کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا جس کے بعد وہ نو برس تک لاپتہ رہے۔ اس واقعے کو کوہ پیمائی کی تاریخ کے پراسرار واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

بی بی سی نے ان تین کوہ پیماؤں کے اہلخانہ سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ تینوں نہ صرف کوہ پیما تھے بلکہ راک کلائمبر بھی تھے جبکہ عمران جنیدی نے راک کلائمنگ میں قومی ایوارڈ بھی جیت رکھا تھا۔

ان تینوں دوستوں کے ’سروالی چوٹی‘ پر لاپتہ ہونے سے متعلق کہانیاں سننے کے بعد ہی صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما عمران عارف نے اپنے ساتھیوں عدنان سلطان، الطاف احمد اور محمد رفیق کے ساتھ مل کر تہیہ کیا کہ وہ اس معمے کا حل نکالیں گے اور سنہ 2015 میں چوٹی پر لاپتہ ہونے والے دوستوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

عمران عارف اور ان کے ساتھی اپنی پہلی کوشش میں تو ناکام ہوئے تھے لیکن گذشتہ ہفتے وہ تینوں کوہ پیماؤں کی لاشوں کو چوٹی سے نیچے لانے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد ان کی تدفین اسلام آباد میں کر دی گئی ہے۔

تو یہ دوست سروالی چوٹی پر لاپتہ کیسے ہوئے اور عمران عارف اور ان کی ٹیم چوٹی پر ان کی میتوں کو ڈھونڈنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

’4800 میٹر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا‘

عمران عارف ماضی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں سر کرتے رہے ہیں۔ ’سروالی چوٹی‘ اور تینوں دوستوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر وہ کئی سالوں سے معلومات حاصل کر رہے تھے۔

عمران عارف بتاتے ہیں کہ 'عمران جنیدی، عثمان طارق اور خرم راجپوت کا مشن 22 اگست 2015 کو شروع ہوا تھا۔ 28 اگست کو انھوں نے پہاڑ سے آٹھ کلو میٹر پیچھے بیس کیمپ بنایا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اپنا سفر شروع کرنے کے بعد 31 اگست کو یہ 4800 میٹر کی بلندی تک پہنچ گئے۔ لیکن پھر 31 اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی شب کے بعد اُن کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’بیس کیمپ میں دو لڑکے موجود تھے جن میں عثمان طارق کے بھائی علی طارق اور ایک فلم میکر اویس خٹک شامل تھے۔ علی اور اویس کو ان تینوں کوہ پیماؤں نے کہا تھا کہ اگر ہمارے ساتھ تین دن تک رابطہ نہیں ہوتا تو اس میں پریشانی کی بات نہیں ہے۔ البتہ تین دن کے بعد ہماری تلاش شروع کر دینا۔‘

عمران عارف بتاتے ہیں کہ انھیں علی طارق نے بتایا کہ 31 اگست اور یکم ستمبر 2015 کی درمیانی رات کو رابطہ منقطع ہونے کے بعد وہ پریشان تو ہوئے مگر انھیں ہدایات پر عمل کرنا تھا۔

'تین دن تک بھی رابطہ نہیں ہوا تو بیس کیمپ پر موجود دونوں لوگ اوپر 4100 میٹر تک گئے جہاں پر تینوں کوہ پیما دوستوں نے اپنا ایڈونس کیمپ بنایا تھا۔ مگر انھیں وہاں پہنچنے پر کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔‘

عمران کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انتظامیہ کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور 5 ستمبر 2015 کو تینوں دوستوں کی تلاش کا کام شروع کیا گیا جس میں پاکستان کے نامور کوہ پیما حسن سدپارہ، صادق سدپارہ، زاہد راجپوت اور دیگر نے حصہ لیا۔

اُس ابتدائی ریسکیو آپریشن میں ہیلی کاپٹر نے بھی حصہ لیا اور تلاش کا کام کیا گیا مگر ایک ہفتے تک جاری رہنے والے تلاش کے کام میں ناکامی کا سامنا ہوا۔

عمران عارف کے مطابق ’سال 2016 میں ایک بار پھر تلاش کا کام کیا گیا مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ ان تینوں افراد کے لواحقین کو اس دورانیے میں اُن کی موت کا یقین نہیں ہو رہا تھا چنانچہ انھوں نے ان کی تلاش کے لیے مِسنگ پرسنز کمیٹی سے بھی رجوع کیا۔

’سروالی چوٹی جانے والے واپس نہیں آتے‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’میں نے اور میرے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نہ صرف سروالی چوٹی کو سر کریں گے بلکہ ماضی میں یہاں لاپتہ ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کو بھی تلاش کریں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیا ہے کہ چھ ہزار سے زائد میٹر کی بلندی کو سر نہیں کیا جا سکتا اور اس پر لاپتہ ہونے والوں کی تلاش کا کام بھی نہیں ہو پا رہا۔‘

’اس کے لیے ہم نے ایک تحقیقاتی آپریشن شروع کیا۔ وہاں کے مقامی لوگوں سے ملے، اُن سے بات کی تو ہمیں وہاں پر تمام مقامی لوگوں نے کہا کہ نہیں اس طرف نہیں جانا کیونکہ جو سروالی چوٹی کی طرف جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔ اس کے بعد مقامی افراد نے ہمیں ان ہی تینوں لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کی مثالیں دیں۔‘

عمران اور ان کی ٹیم نے پہلا مشن جون 2022 میں شروع کیا۔

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’ہم نے سروالی میں اپنا بیس کیمپ قائم کیا۔ ہمارے پاس ڈرون وغیرہ موجود تھے۔ یہ چوٹی سر نہیں ہوئی تھی اس لیے ہمیں اس کا روٹ بھی بنانا تھا اور باقی سب کچھ بھی کرنا تھا۔ مگر جب ہم 4100 میٹر کی بلندی پر پہنچے تو اس وقت موسم انتہائی خراب ہو گیا اور برفباری شروع ہو گئی۔‘

خراب موسم کے باعث عمران اور اُن کی ٹیم نے واپسی کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔

’پہلی لاش 4400 میٹر کی بلندی پر ملی‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ 'اب ہمیں سروالی کا کچھ تجربہ ہو چکا ہے۔ اس تجربے کی بنیاد پر ہم نے فیصلہ کیا کہ اس چوٹی کو سر کرنے اور یہاں پر تلاش کا کام کرنے کے لیے بہترین وقت ستمبر کا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ رواں برس ہم نے ستمبر کے ماہ میں دوبارہ اپنا آپریشن شروع کیا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ 'اب تو سروالی کچھ دیکھی بھالی تھی۔ ہم نے بیس کیمپ اور ایڈوانس کیمپ قائم کیے۔ ڈرون کی مدد سے پوری پہاڑی کا جائزہ لیا، اپنا روٹ طے کیا اور اس دوران جب ہم چار ہزار میٹر سے اوپر پہنچے تو ہم نے لاپتہ افراد کی تلاش شروع کر دی۔‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’ہم ڈرون اور دیگر طریقوں سے تلاش کا کام کر رہے تھے۔ اس دوران ہمیں 4400 میٹر کی بلندی پر ایک لاش ملی۔ اس لاش کا معائنہ کیا گیا تو اس میں جو نشانیاں ہمیں بتائی گئیں وہ ساری کی ساری موجود تھیں۔ ہمیں پتا چل گیا کہ یہ ایک کوہ پیما کی ہی لاش ہے۔‘

’اب ہمارا حوصلہ بڑھ گیا تو ہم نے اسی مقام کے اردگرد دوسری لاشوں کی تلاش بھی شروع کر دی۔ ہمیں دوسری دونوں لاشیں 4700 میٹر کی بلندی پر ملیں۔ یہ دونوں لاشیں قریب قریب ہی موجود تھیں۔ ان کے بھی شناختی کپڑے اور نشانیاں دیکھ کر ہم نے ان کو ایک محفوظ مقام پر رکھا۔ ہمارا ایک مقصد حل ہو گیا۔ مگر اب ہمیں سر والی کو بھی سر کرنا تھی۔‘

’سروالی میں بھی ایک بوٹیل نیک ہے‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’لاشوں کو محفوظ مقام پر رکھنے کے بعد ہم نے دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا، ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید ہم اس دفعہ سروالی کو سر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

’ہم لوگ 5700 میٹر کی بلندی پر پہنچے تو وہاں پر ایک بار پھر موسم خراب ہو گیا۔ تیز ہوائیں اور برفباری شروع ہو گئی تھی۔ برفباری اور ہوائیں اتنی تیز تھیں کہ ہمیں واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا۔‘

عمران عارف کہتے ہیں کہ ’سروالی کی چوٹی ہمارے سامنے تھی۔ ہمیں اس چوٹی کے قریب پہنچ کر سمجھ میں آیا کہ کیوں اس کو ابھی تک سر نہیں کیا جا سکا۔‘

’اصل میں سروالی نانگاپربت کے قریب واقع ہے اور اس کے دو راستے ہیں۔ ایک کشمیر سے اور دوسرا نانگا پربت سے ہے۔ اس وجہ سے اس پر نانگا پربت کا موسم بہت اثر کرتا ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ کس وقت موسم خراب ہو جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا یہ کہ اس کی چوٹی میں بھی بالکل کے ٹو کی طرح انتہائی خطرناک بوٹیل نیک ہے۔ یہاں پر ایسے برف جمی ہے جس پر بڑی آسانی سے پھسلن ہوتی ہے۔ کوئی بھی بڑی آسانی سے پھسل سکتا ہے۔‘

عمران عارف کہتے ہیں ’اس کے ساتھ اوپر سے لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے اور بڑے بڑے برفانی تودے گرتے رہتے ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ ممکنہ طور پر ان تینوں کوہ پیماؤں پر بھی کوئی برفانی تودا آن گِرا ہو گا۔‘

’وہ تینوں کوہ پیما جس روٹ سے اس کو سر کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے خیال میں وہ ایک لمبا اور مشکل روٹ ہے جبکہ ہم نے اپنے دو تجربوں سے ایک مختصر اور آسان روٹ تلاش کر لیا ہے۔‘

'ہم نے لاشیں تلاش کرنے کا کام تو کر لیا ہے مگر سروالی کو ابھی تک سر نہیں کیا، ممکنہ طور پر ہم اس کو آنے والے سال میں سر کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

’واپس لوٹا تو بات پکی کر لوں گا‘

سال 2015 میں ہلاک ہونے والے کوہ پیما خرم راجپوت تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔

ان کے کزن احمد رسول بتاتے ہیں کہ ’جب وہ سروالی کے مشن پر جا رہے تھے تو اُس وقت ان کی والدہ نے ایک رشتہ دیکھا تھا اور اس پر ان کے گھر میں روز ہی بات ہو رہی تھی۔

’خرم راجپوت کو اس رشتہ پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ گھر والے چاہ رہے تھے کہ بات پکی ہو جائے تو اس پر خرم نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی مشن پر جانے دیں واپسی پر بات بھی پکی کر لوں گا۔‘

احمد رسول کہتے ہیں کہ ’خرم راجپوت کو جنون کی حد تک کوہ پیمائی کا شوق تھا۔ وہ انتہائی دلیر اور بہادر تھے۔ کئی سال گزر چکے ہیں ان کے والدین ابھی تک یہ یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے والدین نے مسنگ پرسنز کمیشن میں بھی شکایت درج کروائی ہوتی تھی۔‘

’انھیں اصل میں یہ یقین کرنے کے لیے کوئی ثبوت چاہیے تھا کہ ان کا بیٹا اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔‘

احمد رسول کہتے ہیں کہ خرم کی والدہ اپنے بیٹے کی یاد میں اتنا روئی ہیں کہ ان کی ایک آنکھ کی بینائی ہی چلی گئی ہے۔

دوسرے کوہ پیما عمران جنیدی کے بڑے بھائی اکرام جنیدی کہتے ہیں کہ ’ہم سب بہن بھائیوں میں عمران جنیدی کو سب سے کنجوس سمجھا جاتا تھا کہ وہ بالکل بھی پیسے نہیں خرچ کرتا تھا کیونکہ وہ یہ پیسے اپنی مہم جوئی کے لیے بچا کر رکھتا تھا۔‘

’تقریباً دس سال تک میری والدہ یہ امید کرتی رہیں اور یہ دعا کرتی رہیں کہ ان کا بیٹا کبھی نہ کبھی واپس آ جائے گا۔ مگر اب یہ امید ٹوٹ چکی ہے اور اب اس کے ملنے کی دعا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مغفرت کی دعا ہوتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.