گوریلاؤں کے وہ ’ٹوٹکے‘ جو انسانوں کی ادویات بنانے میں کام آ سکتے ہیں

افریقی ملک گبون میں محققین نے ان پودوں کا مطالعہ کیا جنھیں جنگلی گوریلے اور مقامی افراد مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چار ایسے پودوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں دوائیوں کی خصوصیات ہیں۔
افریقی ملک گبون کے جنگلوں میں پائے جانے والے بن مانس
Getty Images

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں پائے جانے والے گوریلے نئی ادویات کی دریافت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

افریقی ملک گبون میں محققین نے ان پودوں کا مطالعہ کیا جنھیں جنگلی گوریلے اور دیسی طریقے سے علاج کرنے والے مقامی افراد مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چار ایسے پودوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں دوائیوں کی خصوصیات ہیں۔

لیبارٹری کے مشاہدے کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان پودوں میں اینٹی آکسیڈینٹس اور اینٹی مائکروبیلز خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

ان میں سے ایک پودے میں سپر بگ سے لڑنے کی ممکنہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔

گوریلا
Getty Images

گوریلے شفایابی کی خصوصیات کے حامل پودوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا علاج کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک زخمی اورنگوٹین اپنی چوٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے پودے کا پیسٹ استعمال کرنے کے لیے سرخیوں میں رہا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نباتات نے گبون کے موکلابا-ڈوڈو نیشنل پارک میں پائے جانے والے گوریلوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے پودوں کا مطالعہ کیا۔

محققین نے دیسی طریقوں سے علاج کرنے والوں کی ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر چار درختوں کا انتخاب کیا جن میں ان کو یقین تھا کہ شفایابی کی صلاحیات پائی جاتی ہیں۔

ان درختوں کی چھال کو دیسی علاج کرنے والے پیٹ درد سے لے کر بانجھ پن تک ہر چیز کے علاج کے لیے روایتی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ ان درختوں میں فینول اور فلیوونوائدز جیسے کیمیکل پائے گئے جو عموماً ادویات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

گبون
Getty Images
گیبون حیاتیاتی طور پر دنیا کے سب سے زیادہ متنوع مقامات میں سے ایک ہے۔

تحقیق کے دوران پتہ چلا ہے کہ ان چاروں پودوں میں اینٹی بیکٹیریئل خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ ای کولی کی ایک ایسی قسم کے خلاف بھی مؤثر دکھائی دیتی ہیں جس کے خلاف عمومی طور پر دوائیاں کام نہیں کرتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں سے ایک درخت ای کولی کی تمام قسموں کے خلاف مؤثر ثابت ہوا ہے۔

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کی ماہر بشریات ڈاکٹر جوانا سیچل نے گبون کے سائنسدانوں کے ساتھ اس تحقیق پر کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گوریلے ایسے پودے کھاتے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسطی افریقہ کے برساتی جنگلات کے بارے میں ہماری معلومات کتنی محدود ہیں۔

گبون
Getty Images

گبون میں وسیع رقبے پر پھیلے ایسے جنگلات موجود ہیں جن کے بارے میں سائنسدان آج بھی بہت کم جانتے ہیں۔ یہ جنگلات ہاتھیوں، چمپینزیوں اور گوریلوں کے ساتھ ساتھ لاتعداد پودوں کا بھی گھر ہیں۔

غیر قانونی شکار اور بیماری کی وجہ سے گوریلوں کی ایک بڑی تعداد ان جنگلات سے ختم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچرز کے ریڈ لسٹ پر انھیں انتہائی خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.