پارلیمنٹ لاجز ’سب جیل‘ قرار: تحریک انصاف کے 10 ارکان کی ’غیر معمولی گرفتاری پر سپیکر کا غیر معمولی فیصلہ‘

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے گرفتار ارکان کے لاجز کو سب جیل قرار دیا ہو۔ اس بے مثل اقدام کے بعد یہ سوال سامنے آیا ہے کہ اس فیصلے کا مطلب کیا ہے اور کیا یہ کوئی نئی پارلیمانی روش کو جنم دے سکتا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار 10 ارکان کے لاجز کو سب جیل قرار دے دیا ہے جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے گرفتار ارکان پارلیمان کے لاجز کو ’سب جیل‘ قرار دینے کا فیصلہ قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے طریقہ کار 2007 کے قاعدہ 108 کے ذیلی قاعدے تین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت جاری کیا ہے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے ایک درخواست میں زیر حراست تمام 10 اراکین کی سکیورٹی کے پیش نظر پارلیمنٹ لاجز میں ان کے فلیٹس کو سب جیل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کا الزام ہے کہ نو ستمبر کی شب اس کے 10 ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے گرفتار کیے گئے پی ٹی آئی ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ اس معاملے پر سارجنٹ قومی اسمبلی اور چار سکیورٹی اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے گرفتار ارکان کے لاجز کو سب جیل قرار دیا ہو۔

اس اقدام کے بعد یہ سوال سامنے آیا ہے کہ اس فیصلے کا مطلب کیا ہے اور کیا یہ کوئی نئی پارلیمانی روش کو جنم دے سکتا ہے۔

ایاز
Getty Images

پارلیمنٹ لاجز کو سب جیل قرار دینے کا مطلب کیا ہے؟

سپیکر نے یہ فیصلہ قومی اسمبلی کے 2007 کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے رول 108 کے تحت کیا ہے جو کہ ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز کے بارے میں ہے۔

اس کے مطابق سپیکر پارلیمنٹ لاجز یا اسلام آباد میں کسی اور مقام کو ’سب جیل‘ قرار دے سکتا ہے۔

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب اس سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے لیے بھی یہ بہت حیرانی کی بات تھی جب میں نے یہ خبر سنی کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ ماضی میں کبھی کسی سپیکر نے ایسا فیصلہ کیا ہو۔‘

ماضی میں بھی زیرِ حراست سیاستدانوں کی رہائش گاہوں یا کسی اور جگہ کو عدالت یا انتظامیہ سب جیل قرار دیتی رہی ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز کو پارلیمنٹ کا حصہ قرار دے دیں یعنی جو قوانین یا قاعدے پارلیمنٹ کے احاطے پر لاگو ہوتے ہیں وہ یہاں بھی لاگو ہو جائیں۔

تاہم ان کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے خرابی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے پارلیمنٹ لاجز کی اپنی پرائیویسی اور احترام متاثر ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سب جیل قرار دیے جانے کے بعد وہاں جیل کا عملہ تعینات ہو جاتا ہے اور اس فیصلے سے پارلیمنٹ لاجز میں مختلف فلیٹس کے باہر اب پولیس تعینات رہے گی جس سے دیگر ارکان کو بھی مشکل ہو سکتی ہے۔

ان کی رائے میں اس سے ’پارلیمنٹ لاجز کے احترام میں کمی آ سکتی ہے اور اس کا کوئی اور اچھا حل ہو سکتا تھا۔‘

’یہ فیصلہ اس وقت بہتر ہوتا کہ اگر منسٹر انکلیو میں کسی خالی گھر میں سب کو رکھ کر سب جیل قرار دے دیا جاتا۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی کے اس فیصلے کے پیچھے وہ تحفظات ہو سکتے ہیں جن کا مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے ارکان کی گرفتاریوں کے بعد نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بھی اظہار کیا ہے۔

’پارلیمنٹ سے ارکان کی گرفتاری کا واقعہ بھی غیر معمولی تھا اور ایسا بھی پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘

انھوں نے اس بارے میں مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے سپیکر قومی اسمبلی ان ارکان کو مطمئن کرنا چاہتے ہوں۔

حکومت یا اسمیبلشمنٹ کی جانب ممکنہ ردعمل یا دباؤ کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے اثرات اسی صورت میں آئیں گے اگر حکومت اعتراض کرتی مگر وہ ایک ہی جماعت سے ہے، اس لیے حکومت کوئی ردعمل نہیں دے گی۔

ان کے مطابق اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی دباؤ آیا تو شاید وہ اس کو ’ہینڈل‘ نہ کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے اس فیصلے سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مشاورت کر کے یہ فیصلہ کیا ہو۔

تاہم ان کی رائے میں اس فیصلے سے ایک ایسی روایت کا آغاز ہو سکتا ہے جو ’بہت اچھی نہیں‘ کہ ارکان پارلیمنٹ کو کوئی بھی سپیکر اس فیصلے کی نظیر میں پارلیمنٹ لاجز میں ہی سب جیل قرار دے دے۔

وہ کہتے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف بطور کسٹوّڈین آف ہاؤس اس پارلیمانی اصولوں اور روایات کو اپنانے جن میں ارکان کی عزت و تکریم کا خیال رکھنا، فوری پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اور معاملے کی فوری انکوائری کروانے جیسے اقدام ایک مثبت چیز ہے۔

دوسری طرف صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ دنیا بھر میں پارلیمان کیونکہ قانون سازی کرتی ہیں اس لیے اس کو کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اور دنیا بھر میں سپیکر اسمبلی بطور کسٹوڈین آف ہاوس اپنے ارکان کی عزت و تکریم کا خیال رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا یہ فیصلہ پارلیمانی روایات کے عین مطابق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق بلند ہو گا۔

وہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے یہ ضرور ہے کہ انتظامیہ اور اسٹیبشلمنٹ یا عدلیہ اس فیصلے سے ناراض ہو اور حکومت یا سپیکر پر دباؤ پڑے۔

وہ کہتے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی اسٹیبشلمنٹ کے ’پسندیدہ رہے ہیں اور اور وہ مصلحت پسند ہیں۔ انھوں نے اتنا ہی اقدام کیا ہے جتنا ضروری تھا اور میرا نہیں خیال کہ وہ بھی اس سے آگے جائیں گے۔‘

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پی ٹی آئی کے تحفظات اور ناراضی دور کرنے کی بھی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔

سب جیل کیا ہوتی ہے؟

سنہ 1894 کے جیل قوانین کے تحت حکومت خصوصی احکامات کے ذریعے کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دے سکتی ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ کسی جیل میں مقررہ گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں اور قیدی کو حفاظت میں وہاں نہیں رکھا جاسکتا، یا کسی جیل میں وبائی امراض پھیل سکتے ہیں یا کسی اور وجہ کے باعث کسی بھی ملزم کو عارضی شیلٹر یا محفوظ حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس یہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دے کر کسی شخص کو وہاں قید رکھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں متعدد بااثر ملزمان کے گھروں کو ہی سب جیل قرار دیتے ہوئے انھیں وہاں پر قید رکھنے کی مثالیں موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم سابق فوجی صدر پرویز مشرف ہیں جنھیں نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے اور ججز کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں چک شہزاد میں واقع اُن کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دے کر وہیں رکھا گیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بھی پانامہ کیسز میں گرفتاری کے بعد پولیس اکیڈمی سہالہ کے گیسٹ ہاؤس میں سب جیل قرار دے کر رکھا گیا تھا۔

اسی طرح اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی بنی گالہ میں واقع رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیتے ہوئے سابق خاتون اوّل بشریٰ بی بی کو وہاں منتقل کر دیا تھا۔

اسی طرح تھری ایم پی او کے تحت مختلف سیاسی قائدین اور اہم شخصیات کی گھروں میں نظربندی کے سینکڑوں نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکے ہیں۔

سب جیل میں کیا قیدی کو زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں؟

محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے ایک اہلکار کے مطابق سب جیل میں مقید شخص پر بھی وہی قواعد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں جو سینٹرل یا ڈسٹرکٹ جیل میں موجود قیدیوں پر ہوتے ہیں اور سب جیل میں قیدی کو کھانا فراہم کرنا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری متعلقہ جیل انتظامیہ کی ہی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق عمومی طور پر سابق وزیر اعظم، ان کے اہلخانہ اور ممبران پارلیمان کو بی کلاس دی جاتی ہے جس میں قیدی کو ایک مشقتی (روزمرہ کے کام کرنے والا) بھی دیا جاتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ سب جیل قرار دیے جانے کے بعد کیا قیدی اپنی مرضی کا کھانا بنوا سکتا ہے، محکمہ جیل کے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کے لیے متعلقہ عدالت کے علاوہ جیل انتظامیہ سے بھی پیشگی اجازت لینا ہوتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.