ڈاکٹر شاہنواز: ’صحرائی علاقے میں تدفین کی کوشش کی مگر مشتعل لوگوں نے لاش چھین کر آگ لگا دی‘

سندھ کے شہر عمرکوٹ کے سول ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس کے بعد بدھ کی شب (18 ستمبر) کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔

’گاؤں کے باہر لوگ جمع تھے۔ ہم لاش کو صحرائی علاقے میں اپنی زمین پر لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کی۔ وہاں مشتعل لوگ آ گئے۔ ہم وہاں سے بھاگ گئے لیکن انھوں نے لاش کو آگ لگا دی۔‘

صوبہ سندھ کے شہرعمرکوٹ میں یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب توہینِ مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی تدفین کی کوشش کی۔

شاہنواز کنبہار کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔ تاہم 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی۔

ان کی ہلاکت سے قبل 17 اور 18 ستمبر کو عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج بھی ہوا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز کے ایک قریبی رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھیں کسی مقامی قبرستان میں ڈاکٹر شاہنواز کی تدفین کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے لاش کو اپنی ملکیتی زمین پر دفنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صبح چار بجے کے قریب شاہنواز کے والد ایمبولینس میں لاش لے کر آئے لیکن مشتعل لوگوں نے ایمبولینس کو گاؤں میں آنے نہیں دیا۔ جس کے بعد ایمبولینس ڈرائیور نے لاش اتارنے کو کہا۔ ہم نے لاش ایک کار میں ڈالی جس کی کھڑکی سے اُس کے پاؤں بھی باہر تھے۔

ان کے مطابق ورثا میت کو تدفین کے لیے جہانرو لے گئے جو عمرکوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن مذہبی جماعتوں کے کارکن اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بھی پہنچ گئی۔

کسی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم میت کو صحرائی علاقے میں اپنی زمین پر لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کی لیکن وہاں بھی مشتعل لوگ آ گئے اور دھمکیاں دیں۔ لوگوں نے لاش چھین کر اس کو آگ لگا دی جس سے وہ پچاس فیصد جھلس گئی۔‘

ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’لاش پولیس تحویل میں تھی اور علاقے میں صورتحال خراب تھی جس وجہ سے شاہنواز کی تدفین ان کی خاندانی زمین پر کی گئی۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ ’اگر قبرستان میں تدفین ہوتی تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ بعد میں لاش کو نکال کر اس کی بےحرمتی کی جاتی۔‘

عمر کوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو نذرِ آتش کیا گیا تاہم ایس ایس پی عمر کوٹ کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود اس واقعے کی ویڈیوز ایڈٹ کی گئی ہیں اور تدفین پولیس کی موجودگی میں کر دی گئی تھی۔

ڈاکٹر شاہنواز کے رشتہ دار کے مطابق پولیس مشتعل ہجوم کی جانب سے لاش کو آگ لگانے کے بعد بہت دیر سے آئی اور پولیس کے آنے کے بعد ہی ان کے خاندان کے لوگ جمع ہوئے اور تدفین کی گئی۔

توہین مذہب کا الزام کیوں لگا

ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی۔

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ مذکورہ فیس بک آئی ڈی بہت پرانی ہے، جو وہ اب استعمال نہیں کرتے۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’انھوں نے تو فیس بک استعمال کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔‘

انھوں نے اپنے پیغام میں لوگوں سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ ’پولیس، ایف آئی اے یا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں، ہر چیز واضح ہوجائے گی۔‘

جس روز ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اس روز پیغمبرِ اسلام کی ولادت کا دن تھا اور اس سلسلے میں عمرکوٹ میں نکالے جانے والے جلوس نے ڈاکٹر شاہنواز کے خلافپرتشدد احتجاج کی شکل اختیار کر لی تھی اور مشتعل ہجوم نے اس دوران ایک پولیس موبائل کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پولیس مقابلے کی اصلیت پر شکوک

ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ جس مقابلے میں شاہنوازمارے گئے وہ سندھڑی کے مقام پر ہوا اور فائرنگ کے تبادلے کے دوران ملزم ہلاک ہوا۔

ان کے بقول ’اس وقت وہاں پولیس موبائل گشت کر رہی تھی، جب شاہنواز کنبہار نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی تاہم اس دوران وہ اپنے ساتھی کی گولی لگنے سے ان کی ہلاکت ہوئی۔‘

بی بی سی نے جب عمر کوٹ پولیس سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ توہین مذہب کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزم کی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آ سکی تھی تو ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کا کہنا تھا کہ پولیس کوشش کر رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’ملزم کی نشاندہی کراچی میں ہوئی تھی لیکن پھر وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔‘

دوسری جانب شاہنواز کے قریبی رشتے دار کا دعویٰ ہے کہ ’خاندان والوں نے خود رضاکارانہ طور پر ڈاکٹر شاہنواز کو کراچی میں پولیس کے حوالے کیا اور کہا کہ سکیورٹی اب پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود شاہنواز کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔‘

انھوں نے دعوی کیا کہ ’شاہنواز کے والد پولیس حراست میں تھے اور ان کی رہائی بیٹے کی گرفتاری سے مشروط کی گئی تھی۔‘

تاہم ایس ایچ او سندھڑی نے ان الزامات کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ ایسا نہیں کہ ڈاکٹر شاہنواز کو حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’ان کے علاقے میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں اسی لیے وہ وہاں چیکنگ کے لیے موجود تھے۔‘

جمعرات کے روز وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے ڈاکٹر شاہنواز کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو غیرجانبدارانہ انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں۔

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ’تحقیق، چھان بین اور تفتیش کو غیرجانبدار بناتے ہوئے ہر ممکن قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔‘

سندھ
Getty Images

ڈاکٹر شاہنواز ’ذہنی مریض‘ تھے

شاہنواز کے رشتہ دار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دنوں ان کا سڑک پر حادثہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی ادویات بند کر دیں۔ ادویات بند ہونے کی وجہ سے وہ ہائپر (جلدی غصے میں آ جانا) ہو جاتے اور گھر سے نکل جاتے تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شاہنواز کا میڈیکل ریکارڈ بھی شیئر کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ زیرِ علاج تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.