سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئی

انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر نظرِ ثانی کے حوالے سے بھیجے گئے نوٹس پر پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں وہ خود اس پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے وہیں انڈیا سے بھی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اس پر کاربند رہے گا۔
سندھ طاس معائدہ
Getty Images

انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر نظرِ ثانی کے حوالے سے بھیجے گئے نوٹس پر پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک نظیر کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں وہ خود اس پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے وہیں انڈیا سے بھی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اس پر کاربند رہے گا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچکی جانب سے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ ایک اہم معاہدہ ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان اور انڈیا دونوں کے لیے کام آتا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ پانی کی تقسیم سے متعلق دوطرفہ معاہدوں کے لیے ایک بہترین معیار ہے اور پاکستان اس پر عمل درآمد کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ انڈیا بھی اس معاہدے پر کاربند رہے گا۔‘

انڈیا نے پاکستان کو گذشتہ ماہ کے اواخر میں سندھ طاس معاہدے کی شق 13(3) کے تحت ایک باضابطہ نوٹس بھیجا ہے جس میں معاہدے پر ’نظرثانی اور تبدیلیوں‘ کے لیے حکومتی سطح پر مذاکرات کی بات کی گئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈین حکومت کی جانب سے 1960 میں طے پانے والے معاہدے میں تبدیلیوں کا مطالبہ سامنے آیا ہو۔

انڈیا نے ڈیڑھ برس قبل بھی پاکستان کو ایک نوٹس بھیجا تھا لیکن اس میں صرف ’تبدیلیوں‘ پر بات چیت کا ذکر تھا تاہم اس بار تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر ’نظرِ ثانی‘ کی بات بھی کی گئی ہے۔

انڈیا نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ معاہدے کے بعد صورتحال بہت بدل چکی ہے۔ انڈیا نے نظرِثانی کے مطالبے کے حوالے سے سرحد پار دہشت گردانہ سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گردی معاہدے کے ہموار طریقے سے کام کرنے میں رکاوٹ ہے۔

انڈین میڈیا میں اس نوٹس کو انڈین حکومت کے اس ارادے سے تعیبر کیا جا رہا ہے کہ جس میں وہ 64 برس پرانے اس معاہدے کو ختم کر کے از سرِ نو ایک نئے معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتی ہے۔

سندھ طاس معائدہ
AFP

پاکستان کو بھیجے گئے اس نوٹس کے بارے انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے کوئی بیان تو جاری نہیں کیا گیا تاہم خبر رساں اداروں کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات اور سرکاری ذرائع کے حوالے سےبتایا جا رہا ہے کہ تازہ ترین نوٹس ’صورتحال میں غیر متوقع اور بنیادی تبدیلیوں کی عکاس ہے جن کے سبب معاہدے کے بنیادی پہلوؤں کا ازسرِنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے انڈیا نے یہ قدم ’آبادیوں میں اضافے، ماحولیاتی ضروریات ، آلودہ نہ کرنے والی صاف انرجی کے حصول اور سرحد پار سے مسلسل دہشت گردی کے مضمرات‘ کے پیش نظر اٹھایا ہے۔‘

جنوبی ایشیائی امور کی تجزیہ کار نروپما سبرامنیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو نظرثانی کا نوٹس دینے کی خبر' سرکاری ذرائع' کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ اس میں ماحولیاتی تبدیلی کی بات ہے ، دریاؤں میں پانی کم ہونے کا سبب دیا گیا ہے اور دہشت گردی کا ذکر ہے۔ اس کے فوری اسباب کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا بہت مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اور یہ صرف قیاس بھی ہو سکتا ہے کہاس کا ایک مقصد ہریانہ جیسی ریاست میں جہاں انتخاب ہورہے ہیں انتخابی فائدہ حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔‘

اس نوٹس کے بارے میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ ’پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا، اپنے ماحول کی حفاظت کرنا اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا جن سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کے پاس انڈس کمشنرز کا ایک طریقہ کار ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے سے متعلق تمام مسائل پر اس میکنزم میں بات کی جا سکتی ہے۔‘

اس نوٹس کے بارے میں جب بی بی سی کے نامہ نگار عماد خالق نے پاکستان میں سندھ طاس معاہدے کے واٹر کمشنر مہر علی شاہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ نیا نہیں ہے اور بہت پرانا چل رہا ہے۔‘

انھوں نے اس بارے میں مزید تفضیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کوئی نیا یا پہلا نوٹس نہیں اور پاکستان اس بارے میں کام کر رہا ہے اور جب کام مکمل ہو جائے گا تو متعلقہ ادارے یا وزارت خارجہ اس متعلق جواب جاری کر دے گی۔‘

اس سوال پر کہ کیا پاکستان سمجھتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے، واٹر کمشنر نے تبصرہ کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں مزید بات نہیں کر سکتے۔

سندھ طاس معائدہ
AFP
انڈیا دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اور دریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کر رہا ہے

سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔

اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔

دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 64 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔

اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔

معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہماگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کریں گی۔

اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔

کشن گنگا اور کشتواڑ کے منصوبوں کا تنازعہ

انڈیا کی جانب سے سنہ 2023 اور اُس کے بعد یہ حالیہ نوٹس ایسے وقت میں بھیجے گئے ہیں جب خود انڈیا کی جانب سے اس کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں بجلی بنانے کے دو منصوبوں کی تعمیر کا تنازع بھی جاری ہے۔

سنہ 2016 میں اوڑی میں ایک فوجی کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے کے ڈیڑھ ہفتے بعد ستمبر میں سندھ طاس معاہدے کی ایک جائزہ میٹنگ ہوئی تھی جس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘

اس تقریر کے دو برس کے اندر مئی سنہ 2018 میں انھوں نے دریائے جہلم کے معاون دریا کشن گنکا (دریائے نیلم) پر 330 میگا واٹ کے ہائیڈل پاورمنصوبے کا افتتاح کیا اور پھر کشتواڑ میں 1000 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کی بنیاد رکھی۔ سنہ 2022 میں انھوں نے کشتواڑ میں دریائے چناب پر پن بجلی کے دو منصوبوں کی بنیاد رکھی۔

ان منصوبوں پر پاکستان کی جانب سے اعتراض کیا گیا ہے تاہم انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ’رن آف دی ریور‘ پراجکٹ ہیں۔ یعنی پانی کے فطری بہاؤ سے بجلی پیدا کی جاتی ہے لیکن اس سے پانی کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔

روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق کئی برس قبل خارجی امور سے متعلق امریکہ کی سینیٹ کمیٹی نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ’انڈیا ان منصوبوں کے توسط سے دریائے سندھ کے پاکستان کے حصے کے پانی کی سپلائی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’ان منصوبوں سے انڈیا اتنے پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا کہ وہ کھیتوں کی سنچائی کے موزوں موسم میں پاکستان کو پانی کی سپلائی محدود کر سکے گا۔‘

ان دونوں تنازعات کے بارے میں دونوں ملکوں کے آبی ماہرین کئی برس سے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ پاکستان نے تجویز پیش کی تھی کہ اس تنازعے کے حل کے لیے ’پرماننٹ کورٹ آف آربیٹریشن‘ کی مدد لی جائے تاہم انڈیا کا کہنا تھا کہ یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی اور اس کی جگہ انڈیا نے غیرجانبدار ماہرین سے مدد لینے کی تجویز دی۔

پاکستان کا کہنا تھا کہ ایسا ہے تو دونوں سے رجوع کیا جائے مگر انڈیا اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

سرکاری ذرائع نے انڈین میڈیا کو بتایا ہے کہ ’پاکستان نے ان تنازعات کے حوالے سے جو موقف اختیار کر رکھا ہے اس سے سندھ طاس معاہدے کے نفاذ اور ضوابط کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے انڈیا کو اس کے بارے میں ازسرِنو مذاکرات کے مطالبے پر مجبور ہونا پڑا۔‘

سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کی دھمکیاں

سندھ طاس معاہدے کے بارے میں انڈیا میں گذشتہ دو عشرے میں بالخصوص بی جے پی دورِ اقتدار میں حکومت کی پوزیشن سخت ہوتی گئی ہے۔

سنہ 2001 اور سنہ 2002 میں انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے جس دوران انڈیا کے آبی وسائل کے جونیئر وزیر بجوئے چکرورتی نے کہا تھا کہ ’پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اںڈیا کئی اقدامات کر سکتا ہے اور اگر ہم نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان خشک سالی کی زد میں آ جائے گا اور وہاں کے لوگوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے بھیک مانگنی پڑے گی۔‘

گذشتہ چند برسوں کے دوران جتنی بار پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوا ہے اتنا ہی سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی باتیں بھی اٹھی ہیں۔

سنہ 2019 میں پلوامہ میں سکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے کے بعد مرکزی وزیر نتن گڈکری نے بیان دیا تھا کہ ’حکومت نے پاکستان جانے والے پانی کی تقسیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ اور اگست سنہ 2019 میں آبی وسائل کے وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کیے بغیر پاکستان جانے والے پانی کو روکنے کے لیے کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔‘

پاکستان میں دریاؤں میں پانی میں کمی
Getty Images

سندھ طاس معاہدے کا خاتمہ ممکن ہے؟

انڈین میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انڈیا نے ’نظر ثانی اور تبدیلیوں‘ کے لیے پاکستان کو نوٹس حکومت کے اندر کافی غور وخوض کے بعد دیا ہے اور اسے ’ایک تاریخی غلطی کو درست کرنے کے‘ مودی حکومت کے عزم سے تعبیر بھی کیا جا رہا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

1993 سے 2011 تک سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے واٹر کمشنرجماعت علی شاہ نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ ’اس معاہدے کی شرائط کے تحت، کوئی بھی اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ یا تبدیل نہیں کر سکتا۔ دونوں ممالک مشترکہ طور پر اس معاہدے میں ترمیم کر سکتے ہیں یا نیا معاہدہ تشکیل دے سکتے ہیں۔‘

تجزیہ کار نروپما سبرامنیم کہتی ہیں کہ ’2023 میں انڈیا نے سندھ طاس معاہدے میں 'ترمیم‘ کے لیے مذاکرات کرنے کا جو نوٹس دیا تھا وہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اسے ختم کرنے اور نئےمعاہدے کے لیے بات کرنا انڈیا کی موجودہ حکومت کی قیادت کی بصیرت سے باہر ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ طاس معاہدہ ایک بہت وسیع بصیرت کا معاہدہ ہے۔ اس کا یہ ویژن تھا کہ جو اپر رائپیرین ہے وہ لور رائپیرین پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتا ۔ پانی کی تقسیم کا ایک بہترین طریقہ وضع کیا گیا۔ دیکھ لیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کتنے مسائل ہیں، ایک بھی ایشو حل نہیں ہو سکے ہیں۔ پانی کا تقسیم کا واحد ایسا ایشو تھا جس پر دونوں ملکوں نے باہمی اتفاق سے معاہدہ کیا اور جو کامیابی سے چلتا آیا ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ برصغیر میں امن کے لیے مشعل راہ بنے گا ۔‘

نروپما نے مزید کہا کہ ’اس میں تناؤ تو رہے گا۔ پاکستان کو لگ سکتا ہے کہ انڈیا اس کا پانی بند کر رہا ہے۔ وہاں اگر سیلاب آتا ہے تو انھیں لگتا ہے کہ ہم نے پانی کھول دیا ہے ۔ یہ سب تو چلتا رہے گا ۔ انھیں حل کرنا ہےلیکن اگر حکومت اسے معاہدے کو ختم کرنے چلی ہے یا وہ کہیں کہ وہ اس پر ازسر نو مذاکرات کریں گے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ حکومت کے بس کے بات نہیں ہے کیونکہ آج کل کی قیادت میں اتنی بصیرت نہیں ہے کہ وہ اس پر دوبارہ بات چیت کر کے اس سے بہتر کوئی معاہدہ لے کر آئیں۔ اسے چھیڑیں گے تو یہ ایسے ہی پڑا رہے گا اور دوسرے مسائل کی طرح یہ بھی ایک رستا ہوا زخم بن جائے گا۔‘

انڈیا
Getty Images

سیف الدین سوز من موہن سنگھ کی حکومت کے دوران آبی وسائل کے وزیر رہ چکے ہیں انھوں نے سندھ طاس معاہدے کے سلسلے میں کافی کام کیا ہے اور اسی سلسلے میں ہونے والے مذاکرات اور بات چیت میں بھی شریک رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک انتہائی آزمودہ اور کامیاب معاہدہ ہے۔ یہ دونوں مُمالک کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ اسے ختم کرنے یا اس میں کسی بڑی تبدیلی کا تصور بی جے پی کے کچھ تنگ نظر رہنماؤں کی سوچ کا نتیجہ ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’دریاؤں کے اپنے راستے ہوتے ہیں ان کا قدرتی راستہ نہیں بدلا جا سکتا۔ انڈیا سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کا پہلے سے ہی بھرپور استعمال کر رہا ہے۔‘

سابق وزیر نے کہا کہ’یہ معاہدہ وقت کی کسوٹی پر کھرا اترا ہے اور دونوں ملکوں کے بدترین تعلقات کے دور میں بھی اس پر آنچ نہیں آئی۔ اگر یہ معاہدہ اس مرحلے پر ختم ہوتا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے لیے بدقسمتی کی بات ہوگی۔‘

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.