ڈاکٹر شاہنواز کا قتل: ’میرے بیٹے کی لاش باقی نسلوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کی جائے‘

ڈاکٹر شاہنواز کے والد اور ریٹائرڈ ٹیچر صالح محمد کو تعزیت کے لیے گھر میں ہی بندوبست کرنا پڑا کیونکہ مقامی مذہبی علما نے سختی سے تنبیہ کی تھی کہ کوئی باہر نہ بیٹھے۔ تعزیت کے لیے آنے والوں سے شاہنواز کے والد ایک ہی سوال کرتے ہیں: ایسا کیوں ہوا؟

عمرکوٹ کے قصبے جھانرو میں ڈاکٹر شاہنواز کے والد اور ریٹائرڈ ٹیچر صالح محمد کو ابتدائی طور پر تعزیت کے لیے گھر میں ہی بندوبست کرنا پڑا کیونکہ مقامی مذہبی علما نے سختی سے تنبیہ کی تھی کہ کوئی باہر نہ بیٹھے۔ تعزیت کے لیے آنے والوں سے شاہنواز کے والد ایک ہی سوال کرتے ہیں: ایسا کیوں ہوا؟

صالح محمد چاہتے ہیں کہ ’میرے بیٹے کی لاش باقی نسلوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کی جائے تاکہ سندھ کے لوگوں کو خراش بھی نہ آئے۔‘

ڈاکٹر شاہنواز کنبھار پر توہین مذہب کے الزام کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس کے بعد میرپورخاص پولیس نے پولیس مقابلے کے دوران ان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم سندھ کے حکام کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ مقابلہ جعلی قرار دیا گیا اور ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپورخاص اور ایس ایس پی عمرکوٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

عمرکوٹ سے 22 کلومیٹر دور کنری روڈ پر واقع قصبے جھانرو میں ایک ہفتہ قبل تک خوف و ہراس کا ماحول تھا جب ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو گاؤں لایا جا رہا تھا اور مشتعل افراد نے ایمبولینس کو آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

ان کی لاش کو ایک پرائیوٹ کار میں ان کی آبائی زمین پر منتقل کیا گیا جہاں پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پولیس کی موجودگی میں مشتعل ہجوم نے ان کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے اس کو آگ لگا دی تھی۔

صالح محمد
BBC

’اب میں لڑنے کے لیے تیار ہوں‘

شاہنواز کے والد صالح محمد بتاتے ہیں کہ بیٹے کی موت پر تعزیت کے لیے انھوں نے گھر میں بندوبست کیا تھا کیونکہ مقامی مذہبی علما نے سختی سے تنبیہ کی تھی کہ باہر نہیں بیٹھنا۔ شروع میں تعزیت کے لیے کوئی نہیں آ رہا تھا۔

پھر طلبہ رہنما سندھو نواز گھانگھرو، جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما نیاز کالانی، رواداری تحریک کے رہنما پنھل ساریو اور مسعود لوہار نے اعلان کیا کہ وہ تعزیت کے لیے گاؤں جائیں گے اور غائبانہ نمازہ جنازہ ادا کریں گے۔

ان کے ساتھ سندھ کے لوک اور صوفی گلوکار خوشبو لغاری اور مانجھی فقیر جھانرو پہنچے جہاں نہ صرف انھوں نے ڈاکٹر شاہنواز کی غائبانہ نمازے جنازہ ادا کی بلکہ ان کی قبر پر سندھ کی روایتی اجرک چڑھائی اور صوفی گائیکی کے ذریعے مذہبی شدت پسندی کی مذمت کی۔

سول سوسائٹی اور قوم پرست کارکنوں کی حمایت کے بعد اس قصبے کا ماحول تبدیل ہوا۔

محمد صالح بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ان سے صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے رابطہ کیا اور کہا کہ ’آپ گھر کے باہر تعزیت وصول کریں، پولیس سکیورٹی فراہم کرے گی۔‘

جب ہم اس قصبے میں محمد صالح کے پاس پہنچے تو عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ دس قدم پر مسجد واقعہ تھی۔

ڈاکٹر شاہنواز کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ شاہنواز اسی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔

صالح محمد
BBC
سندھ کے کونے کوچے سے لوگ محمد صالح کے پاس تعزیت کے لیے آرہے ہیں، جن میں خواتین ایکٹوسٹ بھی شامل تھیں، شاہنواز کے والد سب سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟

سندھ کے کونے کوچے سے لوگ محمد صالح کے پاس تعزیت کے لیے آ رہے ہیں، جن میں خواتین ایکٹوسٹ بھی شامل تھیں۔

شاہنواز کے والد سب سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ ان کے بیٹے کو انکوائری اور عدالت کے سامنے پیش ہونے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟

جہاں تعزیت وصول کی جا رہی تھی اس کے پیچھے ہی متاثرہ خاندان کے گھر واقع تھے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے کمرے موجود تھے جن کی چھتیں اینٹوں کے بلاک سے بنی ہوئی تھیں۔

وہاں ہم نے ڈاکٹر شاہنواز کی بیوہ نعمت سے ملاقات کی جن کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی خوف و ہراس ہے لیکن ’ایک ہمت جو انھیں ملی ہے وہ سندھ کے لوگوں کی وجہ سے ملی ہے۔‘ اور آج وہ ’بے خوف‘ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم تو اس قدر مایوس ہوچکے تھے کہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اب کچھ ہو پائے گا۔ لیکن سندھ کے بھائیوں، بہنوں اور ماؤں نے ہمیں حوصلہ دیا۔

’اس کی بدولت ہم آج اس حد تک پہنچے کہ میں بے خوف ہوں اور اپنے شوہر کی بے گناہی ثابت کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔‘

ڈاکٹر شاہنواز
BBC

پلاسٹک کے پھول اور امیدوں کا صندوق

ڈاکٹر شاہنواز کے گھر میں جس کمرے میں ہم موجود تھے اس کے ایک کونے میں پلاسٹک کے پھولوں کی دو مالائیں لٹکی ہوئی تھیں۔

شاہنواز کی والدہ نے بتایا کہ بیٹے نے انھیں رواں سال حج پر بھیجا تھا اور واپسی پر انھیں یہ پلاسٹک کے پھولوں کی مالائیں پہنائی گئی تھیں۔

اسی کمرے میں ایک بڑے صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس میں بیٹی کا جہیز جمع کیا تھا اور ڈاکٹر شاہنواز کی موت والے دن سے اگلے اتوار کو شادی کا ارادہ تھا لیکن وہ اتوار آنے ہی نہیں دیا گیا۔

’ہماری امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ میں نے سوچا تھا کہ میرا بیٹا اپنی بہن کو ڈولی میں بٹھا کر بھیجے گا۔ چار بیٹے اور بھی ہیں لیکن وہ خلا کوئی نہیں بھر سکتا اس درد کو کیسے سنبھالوں گی۔‘

انھوں نے بتایا بیٹی کے کپڑے، برتن سب کچھ آچکا تھا جو اس صندوق میں ہیں، فرنیچر بھی لے لیا تھا۔

ان کے مطابق شاہنواز اپنی بہن سے ’بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ میں اس کو جہیز میں فریج دوں گا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ اس وقت بارشیں ہیں، جب شادی میں ایک دو روز رہ جائیں تو پھر خرید لانا۔‘

ان کی والدہ، جو سرکاری ٹیچر ہیں اور حال ہی میں ریٹائر ہوئی ہیں، بتاتی ہیں کہ بہن کی شادی کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کے دو خواب تھے۔

انھوں نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے وہ اپنی والدہ کے ساتھ عمرے پر جائیں گے۔

ان کی والدہ نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کا علاج کروانا چاہتے تھے۔ ’اس کے بیٹے کے دل میں سوراخ ہے جس کا مقامی طور پر علاج تو ہو رہا تھا لیکن وہ اس کو انڈیا لے جانا چاہتا تھا جہاں آپریشن ہوتا ہے۔

’اس نے کہا کہ بہن کی ذمہ داری ادا ہو جائے تو بیٹے کو انڈیا لے جاؤں گا۔ اب یہ خواب کون پورا کرے گا۔‘

’میں نے آج تک لوگوں میں اتنا جنون اور وحشت نہیں دیکھی‘

عمرکوٹ کا شمار سندھ کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں ایک قلعہ ہے جس سے اس شہر نے جنم لیا تھا۔

شہر میں اللہ والا چوک پر 17 ستمبر کو جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے سر کی قیمت پچاس لاکھ مقرر کی گئی تھی۔ شہر میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا جس کے بعد یہاں ایک خوف کی فضا چھائی رہی۔

سندھی کے ادیب میر حسن آریسر کہتے ہیں کہ 17 ستمبر سے لے کر 22ستمبر تک اتنا خوف زدہ عمرکوٹ انھوں نے پہلی بار دیکھا۔ ’ہڑتال والے دن ہر چوک پر مشتعل نوجوانوں کا ایک مجمع تھا جو موٹر سائیکلوں پر لاٹھیاں اور کلہاڑیاں اٹھائے گشت کر رہے تھے۔ اقلیتی ہندو کیا مسلم آبادی بھی اپنے گھروں سے باہر آنے سے کترا رہی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جس طرح خیرات تقسیم ہوتی ہے، اس طرح سے پیٹرول کی بوتلیں بانٹی گئیں تاکہ جیسے ہی ڈاکٹر کی لاش لے کر آگے بڑھیں تو اس کو جلا دیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس دن پولیس کی موبائل گاڑیاں غائب ہو گئیں تھیں۔ میں نے آج تک عمر کوٹ میں لوگوں کا جنون اور وحشت اس درجے پر نہیں دیکھی کہ ایک لاش کو جلایا جائے۔‘

میر حسن آریسر کہتے ہیں کہ عمرکوٹ کے باسیوں کے روح اور دلوں پر بالخصوص اور پورے سندھ کے عوام کے دلوں پر عموعی طور پر جو زخم لگا ہے اگر وہ بھر بھی جائے لیکن اس کا نشان ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سندھ کے شاعر حاجی ساند کہتے ہیں کہ لوگ گھروں تک بند تھے جو ایک خوف کی فضا قائم تھی یہ چار پانچ دن قیامت سے کم نہیں تھے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔‘

عمر کوٹ
BBC

ٹائم بم کی ٹک ٹک

عمرکوٹ پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں کی اکثریتی آبادی ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے اور کاروبار میں بھی ان کا بڑاحصہ ہے۔

میر حسن آریسر کہتے ہیں کہ ’جب ہم مسلمان ڈر رہے تھے تو آپ تصور کریں غیر مسلموں پر کیا بیتی ہو گی۔‘

’یہ اقلیت کا اکثریتی شہر تو ٹائم بم پر کھڑا ہو گیا ہے اور اس کی وقت کی سویاں ٹک ٹک کر کے آخری پوائنٹ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہاں معاملات مزید بگاڑ تک پہنچیں اس سے پہلے عقل کے ناخن لینے ہوں گے ورنہ بہت نقصان ہو گا۔‘

سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کا تعلق عمرکوٹ سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ عمرکوٹ سمیت پورے صوبہ سندھ میں خوف کا عالم تھا۔ ’اس رات موبائل فون پر درجنوں پیغامات آئے کہ جنگل کا قانون ہے، لاقانونیت ہے۔لوگ گھروں سے نہیں نکل رہے تھے۔ بہت سے صاحب اختیار لوگوں کے سوشل میڈیا پر اظہار لاتعلقی حلف نامے آنےلگے کہ اگر ان کی آئی ڈی سے کوئی پیغام آئے تو اس کو ان کا نہ سمجھا جائے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے سندھ کا بنیادی طور پر امن پسندی والا انسانیت والا پہلو جو صوفیائے کرام نے بنایا تھا اس کو مسخ کر دیا ہے۔

’ہمارے پورے تہذیبی تشخص کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اب ہم کہیں بھی یہ بات نہیں کرسکیں گے کہ سندھ امن انسانیت، مذہبی ہم آہنگی کی زمین ہے۔ اب پہلے لوگ یہ واقعہ اٹھائیں گے جو ہماراماضی کا دعویٰ تھا اس کو متاثر کیا ہے۔‘

وہی چوک اور مذمت

عمرکوٹ سمیت سندھ کے کئی شہروں میں ڈاکٹر شاہنواز کے قتل اور لاش کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

بدھ کو ہماری موجودگی میں بھی یہاں احتجاج کیا گیا تھا جس میں کراچی، حیدرآباد سمیت متعدد شہروں سے سیاسی کارکنوں اور ایکٹوسٹس نے شرکت کی تھی۔

اقلیتوں کے حقوق کی کارکن غزالا شفیق رواں سال مارچ کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور ہراسانی کا سامنا کرتی رہیں۔ وہ بھی اس احتجاج میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقلیت پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اب انھوں نے جب اکثریت کے ساتھ یہ ہوتے دیکھا تو کانپ کر رہ گئیں۔ ’پہلے ہجوم حملے کرتا تھا، اب انتہا پسندی نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ پولیس افسر خود مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرے کرنے لگے ہیں۔ کوئٹہ اور عمرکوٹ واقعہ اس کی مثالیں ہیں کہ کیسے پولیس نے جشن منایا۔‘

طلبہ رہنما اور ایکٹوسٹ سندھو نواز نے سب سے پہلے عمرکوٹ پہنچ کر احتجاج کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ سندھ دھرتی امن کی دھرتی ہے۔ ’سندھ کے لوگوں نے مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ ماضی میں بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔‘

’وہ ادارے جن کا کام تحفظ فراہم کرنا ہے، ڈاکٹر کو راتوں رات اٹھا کر لے گئے جبکہ وہ کہتا رہا کہ میری تحقیقات کی جائیں اس کو بات پرکھنے کا موقع دیا جائے لیکن انھیں بات کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔‘

ڈاکٹر سورٹھ سندھو سوشل میڈیا کی ایکٹوسٹ ہیں۔ وہ حیدرآباد سے احتجاج میں شریک ہوئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات دیگر صوبوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن آپ کو یہ مزاحمت نظر نہیں آئے گی یہ ہم آہنگی صرف سندھ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

عمر کوٹ
BBC

شدت پسندی اور مزاحمت

سندھ نے ابھی تک اپنا صوفی تشخص برقرار رکھا ہے، اس صوبے میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے مناسبت سے زیادہ ہندو آبادی رہتی ہے۔

تصوف اور قوم پرستانہ سوچ اور خیال نے ہندو اور مسلم سندھیوں کو جوڑ کر رکھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ سندھ میں مذہبی شدت پسندی کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کیا عارضی ہے یا مستقل رہے گی؟

حیدرآباد آرٹس کونسل کے صدر اور شاعر اسحاق سمیجو کہتے ہیں کہ مذہبی شدت پسندی کے خلاف لوگوں کا ردعمل ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ ’سندھ کے لوگ مذہب اور عقیدے سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے پاس مذہبی شخصیات کا احترام ہے لیکن مذہب کے نام پر جو کاروبار کرنے والے ہیں اور انسانیت کے خلاف مذہب کو خنجر اور تلوار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، سندھ کے عوام ان کے خلاف ہیں۔‘

سندھ یونیورسٹی کے شعبے اینتھروپولوجی کے استاد ڈاکٹر رفیق وسان کہتے ہیں کہ سندھ میں جب مذہبی شدت پسندی کا ابھار ہوتا ہے تو کلچرل فرنٹ سے تصوف اور صوفی ازمکو کاونٹر بیانیے کے طور پر لایا جاتا ہے۔

رفیق وسان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی، نظریاتی اور سکیورٹی ڈھانچہ اتنی خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے کہ اس صورتحال میں مذہبی شدت پسندی کے خلاف کسی بڑی تحریک کی توقع کرنا سوشل سائنس کے اصولوں کے برعکس ہے۔

آئی بی اے کے سوشل سائنس اور لبرل آرٹ کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق چانگ کہتے ہیں کہ ’ایسے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں جس پر سندھی قوم اکٹھا ہوجاتی ہے، اعلان ہوتے ہیں اور ان کو مسترد کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ دن کیس چلتا ہے اس کے بعد ہر کوئی واپس چلا جاتا ہے اس کی مثال سندھی کلچرل ڈے سے بھی لی جاسکتی ہے۔‘

’مسئلے بدستور موجود ہیں لیکن لوگ اکٹھا نہیں۔ یہ الگ الگ مکتب فکر کے لوگ ہیں اور ان کی موقع کی مناسبت سے موجودگی ہے۔ جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو دونوں فریقین ظاہر ہوتے ہیں جس میں ترقی پسند اتنے منظم نہیں اور نہ ہی ان کے پاس ادارے ہیں جبکہ شدت پسندوں کو برتری حاصل ہے ان کے پاس یہ دونوں سہولیات ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.