ڈیاگو گارسیا: وہ ’غیر قانونی خفیہ فوجی اڈہ‘ جسے امریکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے

اس جزیرے تک کوئی کمرشل پرواز نہیں جاتی اور یہاں سمندری راستے کے ذریعے جانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اس جزیرے تک داخلے کی اجازت ان ہی کو ملتی ہے جن کی اس فوجی اڈے تک رسائی ہے یا اس جزیرے کو چلانے والے برطانوی ادارے میں جن کے تعلقات ہیں۔ یہاں صحافیوں کے داخل ہونے پر پابندی رہی ہے۔
جزیرہ
Getty Images
بحر ہند میں واقع انتہائی خوبصورت جزیرہ ڈیاگو گارسیا

ڈیاگو گارسیا بحیرہ ہند میں واقع ایک جزیرہ ہے جہاں ہر طرف سبزہ، سفید ریت سے بھرپور خوبصورت ساحل اور چاروں طرف میلوں تک نیلا پانی پھیلا ہوا ہے۔

لیکن یہ کوئی سیاحتی مقام نہیں، بلکہ یہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں دہائیوں سے یہ افواہیں پھیلتی رہی ہیں کہ یہاں امریکہ اور برطانیہ کا ایک خفیہ فوجی اڈہ موجود ہے۔

یہ جزیرہ برطانیہ کے زیرِانتظام ہے اور اس کی ملکیت پر ماریشس اور برطانیہ کے درمیان تنازع بھی ہے۔ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے حالیہ ہفتوں میں مذاکرات میں تیزی آئی ہے۔

رواں مہینے بی بی سی کو اس جزیرے تک رسائی ملی ہے۔

ڈیاگو گارسیا
BBC
ڈیاگو گارسیا کی فضا سے لی گئی تصویر

بحرالجزائر چاگوس میں شامل اس جزیرے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بی بی سی مہینوں سے کوشش کر رہا تھا۔

ہم سری لنکن تمل باشندوں کے حوالے سے ایک تاریخی مقدمے تک رسائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تین برسوں سے اسی جزیرے پر موجود ہیں اور اب انھوں نے پہلی مرتبہ اس جزیرے پر پناہ کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

ان کی یہاں موجودگی پر انتہائی پیچیدہ قانونی جنگ جاری ہے اور جلد ہی ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ہمیں معلوم ہوگا کہ ان تمل افراد کو یہاں غیرقانونی حراست میں رکھا گیا ہے یا نہیں۔

اس سے قبل ہم یہ سٹوری دور سے دیکھ سکتے تھے۔

ڈیاگو گارسیا سے قریب ترین زمینی علاقہ تقریباً 1600 کلومیٹر دور واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کے دور دراز جزیروں میں ہوتا ہے۔

اس جزیرے تک کوئی کمرشل پرواز نہیں جاتی اور یہاں سمندری راستے کے ذریعے جانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اس جزیرے تک رسائی کے لیے اجازت نامے ان ہی کشتیوں کو ملتے ہیں جو بحیرہ ہند کے ذریعے محفوظ راستہ چاہتی ہیں۔

اس جزیرے پر داخلے کی اجازت ان ہی کو ملتی ہے جن کی اس فوجی اڈے تک رسائی ہے یا اس جزیرے کو چلانے والے برطانوی ادارے میں جن کے تعلقات ہیں۔ تاریخی طور پر یہاں صحافیوں کے داخلے پر پابندی رہی ہے۔

برطانوی حکومت کے وکلا نے اس جزیرے پر بی بی سی کو عدالتی سماعت سے روکنے کے لیے قانونی مسائل کھڑے کیے اور جب ہمیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے سبب یہاں داخلے کی اجازت مل گئی تو امریکہ نے اعتراض کیا اور کہا کہ وہ اس مقدمے کے لیے آنے والے ججوں اور وکیلوں سمیت کسی کو بھی کھانے، رہنے کی جگہ یا ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہیں فراہم کرے گا۔

سری لنکا کے تمل باشندے خاموش مظاہرہ کر رہے ہیں
BBC
اس جزیرے پر داخلے کی اجازت ان ہی کو ملتی ہے جن کی اس فوجی اڈے تک رسائی ہے یا اس جزیرے کو چلانے والے برطانوی ادارے میں جن کے تعلقات ہیں

بی بی سی نے وہ دستاویزات دیکھی ہیں جن کا تبادلہ امریکہ اور برطانوی حکومت کے درمیان ہوا ہے اور انھیں دیکھ کر پتا چلا ہے کہ دونوں حکومتوں کو میڈیا کے داخلے پر تحفظات تھے۔

امریکی حکومت کی جانب سے برطانوی حکام کو بھیجے گئے ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ برطانوی حکومت سے اتفاق کرتا ہے کہ پریس کے اراکین کا لندن سے ورچوئلی اس مقدمے کو کور کرنا زیادہ بہتر ہے، اس سے فیسیلٹی (عسکری اڈے) کی سکیورٹی کو کم سے کم خطرات لاحق ہوں گے۔‘

جب مجھے اس جزیرے پر پانچ دن گزارنے کی اجازت دی گئی تو اس کے ساتھ سخت پابندیاں بھی لگائی گئیں۔

جزیرے پر داخلے کے اجازت نامے میں معمولی تبدیلوں کی درخواست بھی امریکی حکومت اور برطانوی حکام نے مسترد کر دی۔

بی بی سی کے اراکین اور عدالتی سماعت کے لیے ڈیاگو گارسیا آنے والے وکیلوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کمپنی جی فار ایس کے اہلکاروں کو بھی بھیجا گیا تھا۔

تمام تر پابندیوں کے باوجود میں اس جزیرے پر ان تمام تفصیلات کا مشاہدہ کر پائی جنھیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیاگو گارسیا دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ پابندیاں ہیں۔

طیارے سے جزیرے کا منظر
BBC
جب مجھے اس جزیرے پر پانچ دن گزارنے کی اجازت دی گئی تو اس کے ساتھ سخت پابندیاں بھی لگائی گئیں

جب ہم جہاز کے ذریعے یہاں آئے تو ہماری نظر دور دور تک ناریل کے درختوں اور سبز و زرد پتّوں پر پڑی اور یہاں سفید رنگ کی عسکری عمارتیں بھی تھیں۔

ڈیاگو گارسیا چاگوس جزائر یا ’برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری‘ کے 60 جزائر میں سے ایک ہے جو کہ برطانیہ نے 1965 میں ماریشس سے جُدا کیے تھے۔ یہ جزیرہ مشرقی افریقہ اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہے۔

جیسے ہی ہم سُرمئی فوجی جہاز سے نیچے اُترے تو وہاں امریکی اور برطانوی جھنڈوں تلے ایک ہینگر پر لکھا تھا کہ: ’ڈیاگو گارسیا۔ آزادی کے قدموں کے نشان۔‘

سنہ 1960 میں ابتدائی طور پر اس جزیرے کو لیز کے ایک معاہدے کے تحت 50 برسوں کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس مدت میں 20 برس کی توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

پھر اس معاہدے میں توسیع کردی گئی اور اب اس کی مدت سنہ 2036 میں ختم ہوگی۔

میں جیسے ہی ایئرپورٹ سکیورٹی کے درمیان سے گزری مجھے وہاں امریکی اور برطانوی آثار نظر آئے۔

ایک ٹرمینل کے دروازے پر برطانوی جھنڈا بنا ہوا تھا اور دیواروں پر ونسٹن چرچل سمیت متعدد اہم برطانوی شخصیات کی تصاویر آویزاں تھی۔

جزیرے پر مجھے برطانوی پولیس کی گاڑیاں نظر آئیں اور وہاں ایک ’برٹ کلب‘ نامی نائٹ کلب بھی تھا جس پر بُل ڈاگ کا لوگو بنا ہوا تھا۔ پھر ہم راستے میں بریٹینیا وے اور چرچل روڈ نامی سڑکوں پر سے بھی گزرے۔

لیکن ان سڑکوں پر امریکی طرز کی کاریں چل رہی تھیں۔ ہمیں ایک زرد بس میں سفر کروایا گیا جو کہ کسی امریکی سکول بس کی طرح نظر آتی تھی۔

یہاں پر امریکی ڈالر چلتا ہے اور ہرطرف نظر آنے والے بجلی کے سوکٹس بھی امریکی ہیں۔

پانچ دنوں میں جو ہمیں کھانا مہیا کیا گیا اس میں ’ٹیٹر ٹوٹس‘ نامی امریکی ڈش بھی شامل تھی جو کہ تلے ہوئے آلو سے بنتی ہے۔ ہمیں یہاں کھانے کے لیے امریکی بسکٹ بھی دیے گئے۔

ڈیاگو گارسیا کا سوئمنگ پول
Getty Images
1981 کی تصویر

اگرچہ یہ جزیرے لندن کے زیرِانتظام ہے لیکن یہاں زیادہ تر اہلکار اور وسائل امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے اس جزیرے تک رسائی کے لیے برطانوی حکام کو بھیجے گئے سوالات انھوں نے آگے امریکی حکام کو بھیجے۔

جب رواں برس امریکہ نے ڈیاگو گارسیا پر ہونے والی عدالتی سماعت کو روک دیا تو وزارت دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا تھا کہ برطانیہ کے پاس ہمیں ’رسائی دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘

انھوں نے دفتر خارجہ کو ایک ای میل میں لکھا ’امریکی سلامتی سے متعلقہ معلومات خفیہ ہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس جزیرے پر ان کا سخت کنٹرول ہے۔

برٹش انڈین اوشن ٹیریٹری کے قائم مقام کمشنر کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ برطانوی علاقہ ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ کے مابین کیے گیے معاہدے کی شرائط کے تحت ان کے لیے امریکہ کی تعمیر کردہ فوجی سہولت کے کسی بھی حصے تک رسائی فراہم کرنے کے لیے ’امریکی حکام کو مجبور کرنا‘ ممکن نہیں ہے۔

حالیہ برسوں میں برطانیہ نے اس جزیرے پر کروڑوں پاؤنڈز خرچے کیے ہیں جس کا زیادہ تر حصہ سری لنکن مہاجرین پر آنے والے اخراجات ہیں۔

جولائی میں بی بی سی نے دفتر خارجہ کے حکام کی جو دستاویزات دیکھی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سری لنکا کے تمل افراد کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’اخراجات بڑھ رہے ہیں اور تازہ ترین پیشن گوئی یہ ہے کہ یہ سالانہ اخراجات 50 ملین پاؤنڈ تک پہنچ سکتے ہیں۔‘

تاہم جزیرے کا ماحول پر سکون ہے۔ فوجی اور ٹھیکیدار اپنی اپنی سائیکلوں پر میرے پاس سے گزر رہے تھے اور میں نے شام کے وقت کئی افراد کو ٹینس کھیلتے یا ونڈ سرفنگ کرتے دیکھا۔

سبز پولو شرٹ پر امریکی بحریہ کا بیج
BBC
ڈیاگو گارسیا کی خفیہ نوعیت کے باوجود پولو شرٹس اور دیگر تحائف جزیرے پر فروخت ہو رہے ہیں

میں نے ایک سینیما ہال کی دیوار پر ایلین اور بارڈر لینڈز فلموں کا اشتہار دیکھا۔ حتیٰ کہ یہاں ایک باؤلنگ ایلی اور ایک میوزیم بھی ہے جس میں ایک گفٹ شاپہے مگر مجھے اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

ہم ایک فاسٹ فوڈ ریستوران کے پاس سے گزرے جس پر ’جیکس پلیس‘ کا بورڈ لگا ہے۔

آگے سمندر کے ساتھ ایک خوبصورت جگہ بنی ہے جہاں ایک سائن بورڈ پر لکھا ہے ’یہ ایریا سوئمنگ اور پکنک کے لیے ہے۔‘

اس جزیرے پر ڈیاگو گارسیا برانڈڈ ٹی شرٹس اور مگ بھی فروخت ہو رہے ہیں۔

اس سب کے باوجود ہر چیز آپ کو اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ یہاں موجود اڈہ کتنا حساس ہے۔ صبح سویرے سے ہی فوجی مشقوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور ہمارے رہائشی بلاک کے قریب ایک باڑ والی عمارت ہے جس کے متعلق بتایا گیا کہ یہاں اسلحہ رکھا جاتا ہے۔

امریکی اور برطانوی فوجی حکام ہر وقت عدالتی کارروائی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ڈیاگو گارسیا کے ایک ساحل کا دلکش منظر
Getty Images
ڈیاگو گارسیا کے ایک ساحل کا دلکش منظر

اس جزیرے میں حیرت انگیز قدرتی خوبصورتی ہے اور یہ خوبصورتی آپ کو سرسبز پودوں سے لے کر سفید ساحل تک ملے گی۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کے سب سے بڑے زمینی آرتھروپوڈ یعنی ناریلی کیکڑے کا گھر بھی ہے۔ فوجی اہلکار ارد گرد کے پانیوں میں شارک کے خطرات سے خبردار کرتے دیکھے جاتے ہیں۔

بایوٹ کی ویب سائٹ اس بات پر فخر کرتی ہے کہ ’برطانیہ اور اس کے سمندر پار علاقوں میں سب سے زیادہ سمندری حیاتیاتی تنوع‘ یہاں پائی جاتی ہے ’نیز یہاں دنیا کے کچھ صاف ترین سمندر اور صحت مند ترین ریف سسٹم ہیں۔‘

لیکن وہاں ایسے سراغ بھی ہیں جو وہاں کے سفاک ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

جب برطانیہ نے سابق برطانوی کالونی ماریشس سے چاگوس جزائر پر کنٹرول حاصل کیا تو اس نے فوجی اڈے کا راستہ بنانے کے لیے وہاں کی 1,000 سے زائد آبادی کو تیزی سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ جزائر کے اس سلسلے میں ڈیاگو گارسیا سب سے جنوب میں واقع ہے۔

کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مڈغاسکر اور موزمبیق سے لوگوں کو غلام بنا کر جزائر چاگوس لایا گیا تاکہ وہ فرانسیسی اور برطانوی حکمرانی کے تحت ناریل کے باغات میں کام کریں۔ اگلی صدیوں میں انھی لوگوں نے وہاں اپنی زبان، موسیقی اور ثقافت کو قائم کیا۔

یہ تصویر سنہ 1960 میں لی گئی ہے
Getty Images
یہ تصویر سنہ 1960 میں لی گئی ہے اور اس میں چاگوس کے رہنے والے ایک باشندے کو ناریل کی فصل کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے

مجھے جزیرے کے مشرق میں ایک سابقہ باغ نظر آیا جہاں عمارتیں خستہ حال نظر آئيں۔ باغات کے مینیجر کے بڑے سے گھر کے باہر ایک سائن بورڈ لگا ہے جس پر لکھا ہے: ’خطرہ، یہ عمارت غیر محفوظ ہے۔ اندر داخل نہ ہوں۔ برٹ ریپ (برطانوی نمائندے) کے حکم کے مطابق۔‘ اس دوران ایک بڑا کیکڑا ایک لاوارث گیسٹ ہاؤس کے دروازے پر رینگتا نظر آتا ہے۔

باغات کے اندر موجود چرچ میں صلیب کے نیچے ایک تختی لگی ہے جس پر فرانسیسی زبان میں ایک لکھا ہے: ’آئیے اپنے چاگوسی بھائیوں اور بہنوں کے لیے دعا کریں۔‘

اس علاقے میں جنگلی گدھے اب بھی گھومتے ہیں۔ مصنف ڈیوڈ وائن اپنی کتاب ’آئیلینڈ آف شیم: دی سیکرٹ ہسٹری آف دی یو ایس ملٹری بیس آن ڈیگو گارشیا‘ میں ان گدھوں کو ’معاشرے کی ایک ایسی باقیات‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں جو وہاں تقریباً 200 سال سے موجود تھے۔

سنہ 1966 میں دفتر خارجہ کے ایک میمو میں کہا گیا کہ اس منصوبے کا مقصد ’کچھ چٹانیں حاصل کرنا ہے جو ہماری ہی رہیں گے۔ یہاں بحری بگلے کے علاوہ کوئی مقامی آبادی نہیں ہوگی۔‘

ایک اور سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جزیروں کا انتخاب ’نہ صرف ان کے عسکری محل وقوع کے لیے کیا گیا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہاں عملا کوئی مستقل آبادی نہیں تھی۔‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امریکیوں نے خاص طور پر اس آزادی کو بہت اہمیت دی ہے جو کہ ایسی کسی آبادی پر لاگو ہونے والے عام تصورات سے الگ ہے۔‘

مسٹر وائن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے ایسے وقت میں سامنے آئے جب ’نو آبادیاتی نظام کے خلاف تحریک پھیل رہی تھی اور تیز ہو رہی تھی‘ اور امریکہ دنیا بھر میں فوجی اڈوں تک رسائی کھونے کے بارے میں فکر مند تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈیاگو گارسیا ان بہت سے جزیروں میں سے ایک تھا جن پر غور کیا گیا تھا لیکن یہ بحیرہ ہند کے وسط میں نسبتاً کم آبادی اور عسکری اہمیت کے مقام کی وجہ سے ’اہم امیدوار‘ بن گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے لیے یہ امریکہ کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات برقرار رکھنے کا موقع تھا، اگر چہ وہاں نام کی ہی ’برطانوی موجودگی‘ کیوں نہ ہو۔ ان کے مطابق اس کے ساتھ اس میں مالی حوصلہ افزائی بھی شامل تھی۔

امریکہ نے ان جزائر کے متعلق کیے جانے والے خفیہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر برطانیہ کو پولارس جوہری میزائلوں کی خریداری پر 14 ملین ڈالر کی رعایت پر اتفاق کیا تھا۔

بایوٹ نے فرسٹ ڈے کور کا ٹکٹ سنہ 1969 میں جاری کیا
Getty Images
بایوٹ نے فرسٹ ڈے کور کا ٹکٹ سنہ 1969 میں جاری کیا

سنہ 1967 میں چاگوس جزائر سے تمام باشندوں کی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوا۔ پالتو جانوروں سمیت کتوں کو پکڑ کر مار دیا گیا۔ چاگوس کے باشندوں نے مال بردار بحری جہازوں میں ٹھونسے جانے اور ماریشس یا سیشلز لے جانے کے احوال بیان کیے ہیں۔

برطانیہ نے سنہ 2002 میں کچھ چاگوسیوں کو شہریت دی، اور ان میں سے بہت سے برطانیہ میں رہنے کے لیے آئے۔

برسوں بعد انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو دی گئی گواہی میں چاگوس کے لسبی ایلیسے نے کہا کہ جزیرہ نما کے لوگوں نے ایک ’خوشنما زندگی‘ گزاری تھی جس میں بے دخلی سے پہلے ’کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔‘

انھوں نے کہا: ’ایک دن منتظم نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنا جزیرہ چھوڑنا ہے، اپنے گھر بار چھوڑ کر جانا ہے۔ سارے لوگ اس سے ناخوش تھے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

’انھوں نے ہمیں کوئی وجہ نہیں بتائی۔ کوئی بھی ایسی کسی جگہ سے اس طرح اکھاڑ پھینکا جانا پسند نہیں کرے گا جہاں وہ پیدا ہوا ہو کہ انھیں جانوروں کی طرح نکال پھینکا جائے۔‘

بحرالجزائر چاگوس والے اپنی زمین پر واپسی کے لیے برسوں سے لڑ رہے ہیں۔

ماریشس نے سنہ 1968 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس کا یہ موقف ہے کہ یہ جزائر اس کے ہیں اور اس کے ان دعووں پر قوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک مشاورتی رائے میں فیصلہ دیا ہے کہ برطانیہ کی اس علاقے کی انتظامیہ ’غیر قانونی‘ ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کو اپنے ’ڈی کالونائزیشن‘ کو مکمل کرنے کے لیے جزائر چاگوس کو ماریشس کے حوالے کیا جانا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ کے سینیئر قانونی مشیر کلائیو بالڈون کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے چاگوس والوں کی زبردستی نقل مکانی، نسل کی بنیاد پر ان پر ظلم و ستم، اور ان کی وطن واپسی پر جاری روک تھام انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔‘

’یہ سب ایسے سنگین جرائم ہیں جن کے لیے ایک ریاست ذمہ دار ہے۔ یہ اس وقت تک ایک جاری، نوآبادیاتی جرم ہے جب تک کہ چاگوسیوں کو گھر واپس جانے سے روکا جاتا ہے۔‘

ڈیاگو گارسیا کا نقشہ
BBC
زیادہ تر تمل تارکین وطن کو سنسہ 2021 سے جزیرے پر روکے رکھا گیا ہے

برطانوی حکومت ماضی میں یہ بیان دے چکی ہے کہ اسے اس جزیرے کی ملکیت پر کوئی شبہ نہیں جو 1814 سے مسلسل برطانیہ کے زیر تسلط رہا ہے۔

تاہم 2022 میں برطانوی حکومت ماریشس سے اس خطے کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات پر راضی ہوئی تھی اور اس وقت کے سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا تھا کہ وہ ’تمام معاملات حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

رواں ماہ کے آغاز میں برطانوی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے چیف آف سٹاف جوناتھن پاول کو ماریشس سے ان جزائر سے متعلق مذاکرات کرنے کے لیے مرکزی کردار دیا گیا ہے۔

حالیہ سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ ’مشترکہ امریکی اور برطانوی فوجی اڈے کے طویل المدتی، محفوظ اور فعال آپریشن اور برطانیہ کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے کسی سمجھوتے پر پہنچا جا سکتا ہے۔‘

برطانوی دفاعی تھنک ٹینک رسی سے تعلق رکھنے والے میتھیو سیول کا کہنا ہے کہ ’ڈیاگو گارسیا انتہائی اہم اڈہ ہے جس کی وجہ بحیرہ ہند میں اس کا مقام اور سہولیات ہیں جن میں بندرگاہ اور فضائی اڈہ شامل ہیں۔‘

اس مقام سے قریب ترین برطانوی اڈہ 2100 میل دور ہے جبکہ امریکہ کا سب سے قریب عسکری اڈہ 3000 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ میتھیو کا کہنا ہے کہ اس جزیرے کو ’خلائی ٹریکنگ کی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔‘

یاد رہے کہ اسی جزیرے پر موجود اڈے سے ان بمبار طیاروں کو تیل فراہم کیا گیا تھا جنھوں نے ستمبر 2001 میں امریکہ پر ہونے والے حملوں کے بعد افغانستان پر پہلے فضائی حملے کیے تھے۔ اس کے بعد افغانستان کے ساتھ ساتھ عراق پر بمباری کے لیے بھی اس اڈے کا استعمال کیا جاتا رہا۔

میتھیو کے مطابق ’یہ اڈہ دنیا کے ان چند محدود مقامات میں شامل ہے جہاں کسی جنگی آبدوز کو ٹوموہاک جیسے میزائل سے مسلح کیا جا سکتا ہے اور امریکہ نے کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہاں وافر مقدار میں سامان محفوظ کر رکھا ہے۔‘

کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی امور کے سینیئر لیکچرر والٹر لیڈوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’ڈیاگو گارسیا کا فوجی اڈہ بہت سے اہم کام کرتا ہے‘ تاہم انھوں نے کہا کہ ’کسی اور مقام کے مقابلے میں اس اڈے کے بارے میں بہت رازداری سے کام لیا جاتا ہے۔‘

’وہاں تک جانے پر کنٹرول کرنے اور وہاں کی رسائی کو محدود کرنے پر یہ بہت زیادہ توجہ رہی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں موجود اثاثوں، صلاحیتوں اور اکائیوں کے بارے میں عوامی طور پر ہم جتنا جانتے ہیں وہاں اس سے کہیں زیادہ کچھ ہے۔‘

جتنے دنوں میں جزیرے پر تھی اس دوران مجھے سرخ وزیٹر پاس پہننے کی ضرورت تھی اور ہر وقت میری نگرانی کی جاتی رہی۔ میری رہائش گاہ کی 24 گھنٹے حفاظت کی جاتی ہے اور باہر کے آدمی اس بات کا نوٹ رکھتے کہ میں کب باہر نکلتی ہوں اور کب واپس آتی ہوں۔ میرے ساتھ ہمیشہ کوئی موجود ہوتا تھا۔

سنہ 1980 کی دہائی کے وسط میں برطانوی صحافی سائمن ونچسٹر نے یہ بہانہ کیا کہ ان کی کشتی جزیرے کے قریب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ وہ تقریباً دو دن تک خلیج میں رہے لیکن پھر مختصر وقت کے لیے وہ ساحل پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے لیکن انھیں کہا گیا کہ یہاں سے ’چلے جاؤ اور واپس مت آنا۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے وہاں برطانوی حکام کو ’ناقابل یقین حد تک مخالف‘ اور جزیرے کو ’غیر معمولی طور پر خوبصورت‘ پایا۔ اس کے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے بعد امریکی ٹائم میگزین کے ایک صحافی کو جزیرے پر 90 منٹ یا اس سے زیادہ وقت گزارنے کا اس وقت موقع ملا جب امریکی صدارتی طیارہ ایندھن بھرنے کے لیے وہاں رکا۔

ڈیاگو گارسیا کے استعمال کے بارے میں افواہیں طویل عرصے سے گردش کر رہی ہیں۔ ان میں اسے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی بلیک سائٹ کے طور پر استعمال کرنے کی افواہیں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سہولت دہشت گردی کے مشتبہ ملزمان سے پوچھ گچھ کے لیے استعمال کیے جانے کے لیے بھی بتائی جاتی ہے۔

برطانیہ کی حکومت نے سنہ 2008 میں اس بات کی تصدیق کی کہ دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو لے جانے والی ’رینڈیشن‘ پروازیں سنہ 2002 میں جزیرے پر اتری تھیں حالانکہ برسوں تک وہ یہ یقین دہانی کراتی رہی کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔

اس وقت کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ: ’زیر حراست افراد کو جہاز سے باہر نہیں نکلا گيا اور امریکی حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ڈیاگو گارسیا پر کبھی بھی کسی امریکی قیدی کو نہیں رکھا گیا۔ امریکی تحقیقات میں ڈیاگو گارسیا یا کسی دوسرے سمندر پار علاقے میں یا خود برطانیہ کے ذریعے اس کے بعد سے اب تک کسی اور واقعے کا کوئی ریکارڈ نہیں دکھایا گیا ہے۔‘

اسی دن سابق سی آئی اے ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے کہا کہ برطانیہ کو پیش کی جانے والی پروازوں کی رپورٹ جو ’نیک نیتی کے ساتھ فراہم کی گئی تھی‘ اور جس میں یہ معلومات دی گئی تھی وہ وہاں کبھی نہیں اترے تھے وہ ’غلط نکلیں۔‘

انھوں نے سی آئی اے کی ڈیاگو گارسیا پر لوگوں کو رکھنے کی سہولت کے موجود ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ان میں سے کوئی بھی شخص کبھی بھی سی آئی اے کے دہشت گردانہ تفتیشی پروگرام کا حصہ نہیں تھا۔ ایک کو بالآخر گوانتانامو منتقل کر دیا گیا، اور دوسرے کو اس کے آبائی ملک واپس کر دیا گیا۔ یہ رینڈیشن آپریشنز تھے، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔‘

برسوں بعد، سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے چیف آف اسٹاف لارنس ولکرسن نے وائس نیوز کو بتایا کہ انٹیلی جنس ذرائع نے انھیں بتایا تھا کہ ڈیاگو گارسیا کو ایک سائٹ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ’جہاں لوگوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا تھا اور وقتاً فوقتاً پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔‘

امریکی فضائیہ کا بمبار اکتوبر سنہ 2001 میں افغانستان جانے کے لیے ڈیگو گارشیا سے ٹیک آف کر رہا ہے
Getty Images
امریکی فضائیہ کا بمبار اکتوبر سنہ 2001 میں افغانستان جانے کے لیے ٹیک آف کر رہا ہے

مجھے ڈیاگو گارسیا میں کسی حساس عسکری عمارت کے قریب تک جانے کی اجازت نہیں ملی۔

میں جزیرے سے رخصت ہوئی تو مجھے ایک ای میل ملا جس میں میرا شکریہ ادا کیا گیا اور مجھ سے میرے تجربے کے بارے میں پوچھا گیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ہر مہمان ایک آرامدہ تجربے سے گزرے۔‘

واپسی کی پرواز سے قبل میرے پاسپورٹ پر اس خطے کی مہر لگائی گئی جس پر ایک افسانوی براعظم کا نام درج تھا جو سمندر میں کھو چکا ہے۔

ایک ایسا براعظم جو وجود ہی نہیں رکھتا اس جزیرے کی علامت کے طور پر شاید بہت عمدہ ہے جس کے قانونی وجود پر خود سوالیہ نشان ہے۔

اس جزیرے پر سری لنکا کے تمل شہریوں سے ہونے والے سلوک کے بارے میں ایک عدالتی مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ متوقع ہے اور بی بی سی اس پر تفصیلی خبر دے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.