احمد علی کا تعلق پنجاب کے ضلع فیصل آباد سے ہے۔ اُنہوں نے دو ماہ قبل ایک ایجنٹ کو سات لاکھ روپے دے کر کمبوڈیا کا ویزہ حاصل کیا اور اچھے روزگار کی اُمید آنکھوں میں سجائے کمبوڈیا کے لیے روانہ ہو گئے۔
احمد علی کو کمبوڈیا کا ویزہ دیے جانے سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ ’وہاں آئی ٹی کے شعبے میں ملازمت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اور کمپیوٹر پر کچھ ٹاسک پورے کرنا ہوں گے جس کی اُنہیں اڑھائی سے تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔‘احمد علی نے آئی ٹی کی ملازمت ملنے اور پھر ماہانہ اڑھائی سے 3 لاکھ روپے تنخواہ ملنے کی اُمید پر کمبوڈیا کے لیے رختِ سفر باندھا۔ کمبوڈیا پہنچتے ہی مگر اُنہیں ویت نام کی سرحد کے قریب ایک قصبے میں منتقل کر دیا گیا۔احمد علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہاں پہنچ کر ہم سے زبردستی کچھ دستاویزات پر دستخط کروائے گئے اور کہا گیا کہ مزید تین سے پانچ لاکھ روپے (پاکستانی) ادا کرو جس کے بعد اُن سمیت وہاں موجود پاکستانیوں اور دیگر ممالک کے شہریوں کو ’ہیکنگ‘ کی کلاسز لینے کا پابند کیا گیا۔‘احمد علی کی طرح زبیر شاہد بھی ملازمت کی تلاش میں کمبوڈیا پہنچے، تاہم اُنہیں بھی ویت نام کی سرحد کے قریب ایک نامعلوم قصبے میں لے جا کر محصور کر دیا گیا۔اُنہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک ماہ قبل کمبوڈیا پہنچے ہیں۔ اُنہوں نے بھی صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال سے لاکھوں روپے ادا کر کے کمبوڈیا کا ویزہ حاصل کیا تھا۔ اُنہیں بھی مقامی ایجنٹ کی جانب سے کمبوڈیا میں آئی ٹی کے شعبے میں ملازمت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم کمبوڈیا پہنچ کر وہ بھی غیر قانونی طور پر کام کرنے والی کمپنیوں کے جال میں پھنس گئے۔احمد علی اور زبیر شاہد کی طرح سینکڑوں پاکستانی شہری اس وقت کمبوڈیا میں ایسے غیر قانونی گروہوں کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں۔ لاکھوں روپوں کی ادائیگی کرنے کے باوجود کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ان پاکستانی شہریوں سے مزید رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔اس سارے معاملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں سے ہیکنگ کا غیر قانونی کام کروایا جا رہا ہے جب کہ احکامات نہ ماننے والے پاکستانی شہریوں کے ساتھ سختی سے پیش آیا جا رہا ہے۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اُردو نیوز سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے ان مشکل حالات سے دوچار پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اُن کی جلد از جلد پاکستان واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‘دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ’مشکل حالات سے دوچار پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔‘ (فوٹو: دفتر خارجہ)اُن کا کہنا تھا کہ ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریپاکستان سے ہر سال لاکھوں شہری اچھے روزگار کے حصول کے لیے بیرون ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ ان شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک پہنچتی ہے یا قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے باوجود وہاں کام کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔یورپ اور امریکہ جانے والے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب اب پاکستانی شہری کچھ ایسے ممالک کا رُخ کر رہے ہیں جہاں ملازمت کے مواقع کم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی گروہ بھی غیرمعمولی طور پر متحرک ہیں جو تارکینِ وطن سے غیرقانونی کام لیتے ہیں۔حالیہ کچھ عرصہ کے دوران مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں جانے والے پاکستانی شہریوں سے متعلق یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وہاں قانونی طور پر جانے کے باوجود پاکستانی شہری جرائم پیشہ عناصر کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں۔ان ممالک میں میانمار، تھائی لینڈ اور منگولیا کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ تاہم اُردو نیوز کو موصول معلومات کے مطابق ان ریاستوں میں سے اس وقت سب سے زیادہ پاکستانی شہری کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ مختلف جرائم پیشہ گروہوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ایسی تنظیمیں اور گروہ نہ صرف پاکستانی شہریوں سے مزید رقم کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ہیکنگ جیسے غیر قانونی کام بھی کروا رہے ہیں۔کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’گذشتہ دو، تین ماہ سے ایسے گروہوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘کمبوڈیا میں غیر قانونی کمپنیاں کیسے کام کرتی ہیں؟پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں میں کچھ ایسی غیر قانونی تنظیمیں یا کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو حکومت کے دائرہ کار میں بھی نہیں آتیں۔ ایسی کمپنیاں پاکستان سمیت مختلف ممالک سے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر بلاتی ہیں اور پھر اپنے شکنجے میں پھنسا لیتی ہیں۔‘روزگار کی تلاش میں جنوب مشرقی ایشیائی ریاست کمبوڈیا جانے والے پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ ’پاکستان سے ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان پاکستانی شہریوں کو کمبوڈیا لایا جا رہا ہے جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ کمبوڈیا میں آئی ٹی کی کمپینوں کو نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر یہاں پہنچنے پر صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔‘ان کمپنیوں نے ان مخصوص علاقے کے اندر ہی رہائش، کھانے پینے سمیت دیگر تمام انتظامات کیے ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ ’ہم جب کمبوڈیا پہنچے تو ہمیں فوری طور پر ویت نام کی سرحد کے قریب ایک قصبے میں منتقل کر دیا گیا جہاں ایسی کمپنیوں نے اپنے دفاتر قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کمپنیوں نے ان مخصوص علاقے کے اندر ہی رہائش، کھانے پینے سمیت دیگر تمام انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ تاہم بیرونِ ممالک سے آئے شہریوں کو مختلف بلاکس تک ہی محدود رکھا جاتا ہے جب کہ اُنہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔‘کمبوڈیا میں موجود پاکستانی سفارت خانہ ایسے شہریوں کی بازیابی کے لیے کوشاں ہے: دفتر خارجہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اُردو نیوز کے سوالات پر جاری اپنے اعلامیے میں بتایا ہے کہ ’کمبوڈیا سمیت کچھ دیگر ممالک میں بعض ایسے جرائم پیشہ گروہ کام کر رہے ہیں جو بیرونِ ممالک سے شہریوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر بلاتے ہیں اور پھر اُنہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘اُنہوں نے سینکڑوں پاکستانی شہریوں کے کمبوڈیا میں پھنسے ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’دفتر خارجہ کے ریکارڈ کے مطابق صرف چند پاکستانی ہی ایسے گروہوں کے شکنجے میں ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے ہمارا سفارتی مشن کام کر ریا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’موجودہ دور میں انسانی اسمگلنگ اور ان میں ملوث بین الاقوامی گروہوں کے سدِباب کے لیے مربوط بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے کہ ان جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہونے والے پاکستانی شہریوں کو رہا کر کے پاکستان واپس لایا جائے۔' دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے والے شہری اس بات کو یقینی بنائیں کہ اُنہیں ملازمت کی پیشکش کرنے والی کمپنی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تو نہیں ہے۔‘