انڈیا نے بنگلہ دیش کو صرف دو دن میں کیسے ٹیسٹ میچ ہرا دیا؟

کانپور میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ انڈین کرکٹ کی یادگار فتوحات میں سے ایک ہے۔ ویسے تو یہ ٹیسٹ میچ پانچویں دن ختم ہوا لیکن صحیح معنوں میں روہت شرما اور ان کی ٹیم نے صرف دو دن کے کھیل میں ہی میچ جیت لیا۔

کانپور میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ انڈین کرکٹ کی یادگار فتوحات میں سے ایک ہے۔ ویسے تو یہ ٹیسٹ میچ پانچویں دن ختم ہوا لیکن صحیح معنوں میں روہت شرما اور ان کی ٹیم نے صرف دو دن کے کھیل میں ہی میچ جیت لیا۔

عام طور پر ایک ٹیسٹ میچ میں روزانہ 90 اوورز کھیلے جاتے ہیں اور اگر بارش کے باعث کھیل میں تعطل آتا ہے تو اس کے مطابق اوورز کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔

اس ٹیسٹ میچ کے پہلے دن صرف 35 اوورز کا کھیل ہوا اور پھر موسم کے باعث دوسرے اور تیسرے دن ایک گیند بھی نہ پھینکی جا سکی تھی۔ جس کے بعد پریس باکس میں موجود کئی تجربہ کار صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پانچویں دن اس میچ کا اختتام ایک سست ڈرا پر ہو گا۔

یہی وجہ تھی کہ 80 فیصد صحافی جو خاص طور پر دہلی سے اس میچ کی کوریج کے لیے آئے تھے دوسرے اور تیسرے دن کے بعد واپس چلے گئے۔ لیکن، انڈین ٹیم نے کانپور میں میچ جیت کر لگاتار 18ویں ٹیسٹ سیریز دو دو صفر سے جیت لی۔ اس ٹیسٹ میچ میں تقریباً صرف دو دن کا کھیل ہو سکا۔

لیکن جو صحافی جلد واپس چلے گئے تھے اس میں ان کی کوئی غلطی نہ تھی کیونکہ ٹیم انڈیا نے میچ کے چوتھے دن جو کھیل پیش کیا اور جس طرح سے بنگلہ دیشی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اس کی مثال انڈین کرکٹ یا انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

چوتھے دن کے کھیل کے اختتام پر بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس یا غیر رسمی بات چیت میں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ انھیں درحقیقت ٹیم انڈیا کی اس تباہ کن پرفارمنس کی توقع نہیں تھی۔

انڈیا کی شاندار بولنگ

آج کل انگلینڈ کی ٹیم کے بیس بال کرکٹنگ سٹائل کے بارے میں کافی چرچا ہے جو ٹیسٹ کرکٹ میں تقریباً 4.2 رنز فی اوور کی شرح سے رنز بناتی ہے، لیکن ٹیم انڈیا نے اس ٹیسٹ میچ میں 8.22 رنز فی اوور کی شرح سے رنز بنائے۔

انڈیا نے پہلی اننگز میں اتنا تیز کھیل پیش کیا کہ میچ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب انڈیا کی اوپننگ پارٹنرشپ (55 رنز) کا سٹرائیک ریٹ 14.64 رنز تھا جواکثر ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی نظر نہیں آتا۔

اور پھر جب انڈیا کی بولنگ آئی تو انڈین بولرز نے شاندار کھیل پیش کیا اور اپنی نپی تلی بولنگ اور تباہ کن سپیل کے باعث جسپریت بمرا، روی چندرن ایشون اور رویندر جڈیجہ نے تین تین وکٹیں حاصل کر کے بنگلہ دیش کی ٹیم کو چاروں خانے چت کر دیا۔

اگرچہ یہ وکٹ ایسی تھی جہاں پیسرز یا سپنرز کو وکٹ سے کوئی مدد حاصل نہیں تھی لیکن انڈیا کے ان تینوں بولرز نے مناسب وقت پر انڈین کپتان روہت شرما کو وکٹیں دلوائیں اور بنگلہ دیش کی بیٹنگ لائن اپ کو باندھے رکھا۔

مگر انڈیا کے اس شاندار بولنگ سپیل کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ انڈین ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے جب انڈین بولرز نے آئی سی سی کی ٹیسٹ رینکنگ پر اپنا قبضہ جمایا ہے۔ ان میں ایشون نمبر ایک پر، بمراہ نمبر دو پر جبکہ جڈیجہ نمبر چھ پر آ گئے ہیں۔

اگر ہم ان تینوں بولرز کے ساتھ ساتھ اور دو اور انڈین بولرز محمد سراج اور آکاش دیپ کے نام شامل کر دیں تو بنگلہ دیش سے بہترین حریف بھی شکست کھا جائیں گے۔

ویسے اگر آپ موجودہ بنگلہ دیشی ٹیم کو ہلکے لے رہے ہیں تو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ صرف ایک ماہ قبل یہ ٹیم پاکستان کو دو صفر سے ہوم سیریز میں شکست دے کر آئی ہے۔

کانپور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز 514 گیندیں کرائی گئیں لیکن صرف ایک ٹیم ہی حاوی رہی۔ بھلے ہی ٹیم انڈیا نے پہلی اننگز میں صرف 52 رنز کی برتری حاصل کی لیکن ان 52 رنز نے مہمان ٹیم کو 252 رنز جیسے ہدف کا احساس دلایا۔

اس کی وجہ روہت شرما کی کپتانی کے ساتھ ساتھ انڈین فیلڈرز کی شاندار فیلڈنگ بھی تھی۔ جہاں اگر روہت نے میچ کے چوتھے دن ایک حیران کن کیچ پکڑ کر ٹیم میں ایک نئی جان ڈالی تو پلک جھپکتے ہی سراج نے بھی حیرت انگیز کیچ پکڑ لیا۔

روہت شرما کی کپتانی

تقریباً دو دہائی قبل دسمبر 2006 میں آسٹریلیا کی طاقتور کرکٹ ٹیم نے دسمبر 2006 میں ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں کم و بیش اسی انداز میں انگلینڈ کو حیران کر کے دو صفر سے فتح حاصل کی تھی۔

لیکن اس ٹیم کے میگا سٹار شین وارن تھے۔ پانچویں دن جب انگلینڈ کی ٹیم ایک وکٹ کے نقصان پر 59 کے سکور کے ساتھ بیٹنگ کے لیے آئی تو اس وقت میچ کے صرف ڈرا ہونے کے امکانات تھے۔

لیکن انگلینڈ نے نو وکٹیں صرف 60 رنز پر گنوا دیں، جس میں وارن نے چار وکٹیں حاصل کیں۔اس میچ میں شین وارن نے 26 اوورز کا میراتھن سپیل پھینکا تھا۔ اور آسٹریلیا نے 168 رنز کا ہدف 30 اوورز کے بعد حاصل کر لیا تھا۔

اس میچ میں آسٹریلیوی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے میں وارن کا اہم کردار تھا اور اگر انڈیا بنگلہ دیش کے اس ٹیسٹ میچ کی بات کی جائے تو یہاں یہ جادو روہت شرما نے کیا۔

سابق ٹیسٹ کھلاڑی سنجے منجریکر نے روہت کی کپتانی کا تجزیہ کرتے ہوئے شاید صحیح کہا کہ روہت کی کپتانی کی میراث یہی انداز ہے۔

وائٹ بال ون ڈے کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران کپتان کے اس بے خوف انداز کو سب نے دیکھا ہے، لیکن کیا وائٹ بال کرکٹ میں ٹیم انڈیا اس انداز میں خطرناک فیصلے لے سکتی ہے، یہ اب ایک مثال ہو گی۔

روہت کے مختصر ٹیسٹ کپتانی کیریئر میں انھوں نے کئی مواقع پر اپنے شاندار فیصلوں سے ماہرین اور مداحوں کو متاثر کیا ہے۔ جب ان کا کیرئیر ختم ہونے کے بعد ان سے بہترین ٹیسٹ میچوں کی فہرست مانگی جائے گی یقیناً کانپور ٹیسٹ اس میں شامل ہو گا۔

وائٹ بال کرکٹ میں روہت نے بطور بلے باز ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے اور بطور کپتان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

لیکن شاید روہت کو احساس ہے کہ وہ نہ تو 100 ٹیسٹ میچ کھیل سکیں گے اور نہ ہی ان کی بلے بازی کی اوسط 50 سے تجاوز کر سکے گی۔اور یہی وجہ ہے کہ ایک بلے باز کے طور پر روہت ٹیم کے لیے ایک ایسا ورثہ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹیم کی جیت ہمیشہ اہم ہوتی ہے، ذاتی ریکارڈ نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.